Wednesday, April 26, 2017

زمین کا خدا..............................................زہریلا سچ............نوشاد حمید


 





20اپریل 2017ءکی ایک گرم دوپہر کو پاکستان کی عدالتِ عالیہ کے احاطے سے ٹی وی چینلز نے مُلک بھر میں ایک انوکھا اور ناقابلِ یقین نظارہ ٹیلی ویژن سکرینز پر منتقل کیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ عدالت کے دو معزز جج صاحبان نے مُلک کے ’عزت مآب‘ وزیر اعظم کو صداقت اور امانت کے معیار پر پُورا نہ اُترنے کے جُرم میں عہدے سے سبکدوش کرنے کا فیصلہ سُنایا جبکہ باقی تین قابلِ احترام ججوں نے وزیر اعظم کو اُن پر لگے الزامات سے بری نہ قرار دیتے ہوئے مزید جانچ کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم صادر کیا۔ اس موقع پر نواز لیگی لیڈروں اور کارکنوں کی اپنے کرپٹ قائد کی ’سُرخروئی‘ اور جزوی ’بریت‘ پر تشکر کا اظہار جوشیلے نعروں کی صورت میں کیا گیا، بھنگڑے ڈالے گئے، مٹھائیاں بانٹی گئیں، دُشمنوں کے ’ناکام و نامراد‘ رہنے پر طعنے کسّے گئے، بڑھکیں ماری گئیں اور تبرّوں کا طوفان برپا کیا گیا۔ شاید نواز لیگی کارکنوں اور لیڈروں کے نزدیک ’باعزت‘ اور ’پُروقار‘ بریت اسی کا نام ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر عدالتی فیصلے کے حوالے سے وہ کچھ بیان کیا جا رہا ہے، جس کا کبھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ لوگ پریشان ہیں اور پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ایک شخص کی بددیانتی کو تسلیم بھی کیا گیا مگر اُسے سزابھی نہیں دی گئی، بلکہ اسے ’جے آئی ٹی‘ کے حوالے کر کے مستقبل میں کامل بریت کا محفوظ راستہ دکھایا گیا ہے۔ نواز شریف کی طرف سے پیش کردہ عدالتی دستاویزات کو غیر تسلّی بخش قرار دیا گیا، قطری خط کو بھی مشکوک مانا گیا، منی ٹریل کی شفافیت بھی ثابت نہ ہو سکی، مگر پھر بھی نواز شریف ابھی تک مجرم ثابت نہیں ہوا۔ چور مان بھی لیا ہے مگر چوری ثابت کرنا بھی باقی ہے۔ نواز شریف اور اُن کا خاندان اپنے تیس سال سے زائد عرصے پر محیط سیاسی کیریئر کے دوران ہر آزمائش میں سے ہمیشہ ”سُرخرو“ ہو کر نکلا ہے۔ پتا نہیں اُس کی شخصیت میں کیا ایسی بات ہے کہ اُس پر الزامات عائد کرنے والے کچھ بھی ثابت کرنے میں ہمیشہ ناکام و نامراد بھی رہے ہیں۔ اصغر خان کیس کا معاملہ ہو یا جنرل آصف نواز جنجوعہ کی موت کے حوالے سے الزام تراشیاں، پلاٹوں کی کرپشن کا کیس ہو یا حدیبیہ پیپر ملز، سپریم کورٹ پر حملہ ہو یا کارگل ایشو، پاناما لیکس ہو یا ڈان لیکس، سبزہ زار میں جعلی پولیس مقابلے ہوں یا ماڈل ٹاﺅن میں دِن دیہاڑے میڈیا کے کیمروں کے سامنے نہتے مردوں اور عورتوں کا پولیس کے ہاتھوں قتلِ عام، آج تک کسی ایک معاملہ میں بھی شریف فیملی قانون کی گرفت میں نہیں آ سکی۔ ماڈل ٹاﺅن واقعہ میں ہلاک ہونے ”مجرم“ خواتین و حضرت کی رُوحوں کی دلدوز پُکار آج بھی آسمانوں سے بلند ہوتی یہی سوال کر رہی ہیں کہ ہمارا قصور کیا تھا؟قصور یہی تھا کہ وہ نواز شریف کے دورِ خُدائی میں پیدا ہوئے اور انہوں نے صدا بُلند کرنے کے ہولناک جُرم کا ارتکاب کیا۔ رُوئے زمین پر موجود کوئی شخص نواز شریف کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا اور تھوڑی بہت سیاسی سمجھ بُوجھ رکھنے والے لوگوں کو بھی مکمل یقین ہے کہ پاناما کیس کی ’جے آئی ٹی‘ میں کچھ بھی ثابت ہونے والا نہیں ہے۔ نتیجہ ایک بار پھر نواز لیگی لیڈروں اور کارکنوں کے اظہارِ تشکّر کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ڈھول ڈھمکوں کی گرج میں ماضی کے مظلوموں کی سب آہ و بکائ، فریاد اور اُمیدوں کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔  کچھ لوگ یہاں پر اعتراض کریں گے کہ جی نوازشریف کو طیارہ سازش کیس میں سزا سُنائی گئی اور پھر جلاوطن بھی کیا گیا۔جی ہاں، ایسا ہوا۔ مگر اس کی سودے بازی یہاں بھی اسے بچا گئی۔ کتنی سزا کاٹی نواز شریف نے؟ فقط ایک ڈیڑھ سال۔ اور پھرایک ڈیل نے سعودی عرب پہنچا دِیا۔ جس دور کو لوگ جلا وطنی سمجھتے ہیں وہ حقیقتاً شریفیہ معاشی ایمپائر کی وسعت کا دور تھا۔ یہ وطن کی یاد میں آنسو بہا بہا کر جدہ سٹیل مِل کو بامِ ترقی پر پہنچاتے رہے۔ بیرونِ مُلک دولت اکٹھی کرتے رہے، آف شور کمپنیاں بناتے رہے۔ ہاں، اپنے ہم وطنوں کا پیسہ لُوٹنے اور اُن پر حکمرانی کرنے کا جو نشہ ہے، اُس سے محرومی ان کی جان کا روگ ضرور بن گئی تھی۔ پیپلز پارٹی والے بلاشبہ شکوہ کرنے میں ہمیشہ حق بجانب ہیں کہ احتساب صرف اُن کا ہوا ہے، عدالتی قتل انہی کے ہوئے ہیں، سزائیں صرف انہی کو مِلی ہیں۔اگر طیارہ سازش کیس میں کوئی اور ملوث ہوتا تو اُسے کب کا بھٹو کی مانند پھانسی پر چڑھا دِیا ہوتا۔ پیپلز پارٹی کو کبھی انصاف نہیں مِلا۔ 1990ءمیں پیپلز پارٹی اپنی حکومت کی معزولی کے خلاف عدالت گئی تو اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا مگر 1993ءمیں جب نواز شریف نے اپنی حکومت کے خاتمے کو عدالت میں چیلنج کیا تو عدالتوں نے اُسے سُرخرو کیا۔یوسف رضا گیلانی کو ایک خط نہ لکھنے کی پاداش میں عدالتیں کھڑے کھڑے وزیر اعظم کے عہدے سے فارغ کر دیتی ہیں اور وہ خاموشی سے گھرچلا جاتا ہے۔ یاد رکھیے کہ یوسف رضا گیلانی کوئی کمزور وزیر اعظم ہرگز نہیں تھا، اُس کے پیچھے آصف زرداری کی تمام تر طاقت موجود تھی۔ اس نے اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈیننس کے ذریعے مشرف کے زیرِ عتاب ججز کو عہدوں پر بحال کروا دِیا۔ اٹھارہویں ترمیم اتفاقِ رائے سے منظور کروائی۔ تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی کا خاتمہ کروایا۔ صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کا فارمولا منظور کروایا۔ مگر نواز شریف کے محبوب چیف جسٹس کی ایک جنبشِ قلم سے سب اختیار و اقتدار اختتام پذیر ہو گیا۔ عدالتیں ایک ہی نوعیت کے کیسز میں متضاد فیصلے کیوں سُناتی ہیں، یہ تو اللہ جانے یا نواز شریف جانے۔ اب تو عوام بھی سوال اُٹھانا شروع ہو گئی ہے کہ یہ اپنی سیاسی تاریخ میں درجنوں بار تنازعات کی زد میں آئے اور ہر بار یہ عدالتی کمیشن بنوا کر سُرخرو بھی ہو گئے؟ حالانکہ ان کے خلاف ثبوتوں کے انبار کے انبار موجود تھے۔ ان کی حکومتیں ایک عدالتی اِسٹے آرڈر پر پانچ سال پُورے کر جاتی ہیں مگر عشروں سے زیر التواءکیسز کا فیصلہ سامنے نہیں آتا۔یہاں تک کہ ڈان لیکس کی سادہ ترین جے آئی ٹی کا فیصلہ آنے میں بھی مہینوں لگ گئے۔ اس وقت ان کے خلاف کرپشن اور قتل کے سینکڑوں کیسز عدالتوں اور احتسابی اداروں میں زیر التواءہیں، مگر اُن پر کوئی کارروائی آگے نہیں بڑھ رہی۔ کیوں؟.... شاید اس سوال کا جواب سب کے پاس ہے۔  اس مُلک کی عوام یہاں کے معتبر اداروں سے زیادہ باخبر ہے کہ نواز شریف ضمیروں کا سوداگر ہے۔ عوام سے لُوٹی دولت، پارٹی ٹکٹس اور جماعتی و حکومتی عہدوں کی ترغیبات کے ذریعے اسے بڑے بڑے باضمیروں کو رام کرنے میں مہارتِ تامہ حاصل ہے۔ یہ تو اسمبلی کے سارے نومنتخب ممبروں کو اُٹھوا کر چھانگا مانگا پہنچا دیتا ہے اور تب تک وہاں رکھتا ہے جب تک اسمبلی سازی کے لیے مطلوبہ ’حمایت‘ حاصل نہیں ہو جاتی۔ نواز شریف ایک ایسی سیاسی عفریت ہے جو سب کے سامنے سب کچھ نگل جاتا ہے، مگر کوئی اس کے خلاف آواز اُٹھانے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ وہ دیمک کی طرح ہر محکمے،ہر ادارے میں سرایت کر کے اُس کا صفایا کر جاتا ہے۔ سب کو اُس کے بارے میں پتا ہوتا ہے مگر کوئی بھی کچھ بتانے کو تیار نہیں ہوتا۔ نواز شریف وطنِ پاکستان کا خدا ہے، ہر انصاف، قانون، آئین، اخلاقیات اور سماجی ضابطوں سے بالاتر اور مبرّا۔ لوگوں کو یقین رکھ لینا چاہیے کہ اسے صرف آسمانوں میں بیٹھا خُدا ہی کسی انجام سے دوچار کر سکتا ہے۔ یہ زمین پر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگنے والے پاکستانی عوام کسی کھاتے میں نہیں آتے۔  لوگ صحیح کہتے ہیں کہ نواز شریف پہلے والا نواز شریف نہیں ہے۔ وہ بہت بدل گیا ہے۔ بالکل پہلے والا نواز شریف تو وہ تھا کہ جس سے مُلک کی عدلیہ اتنی خوفزدہ تھی کہ سپریم کورٹ کے ججوںکو اپنی جانیں بچا کر بھاگنا پڑا ۔ چیف جسٹس کو گھر بیٹھنا پڑا۔آرمی چیف طیارے میں سوار کئی گھنٹے فضا میں خوار ہونے کے بعد بمشکل اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوا۔ یاد رکھیں یہی نواز شریف جب خود ساختہ جلاوطنی کے بعد 2008ءمیں پاکستان واپس آیا تو وہ چوٹ کھائے سانپ کی مانند تھا۔ جس کا پور پور انتقامی جذبے کی غلاظت میں لتھڑا ہوا تھا۔ انتقام مشرف کے خلاف، ق لیگ کے خلاف، اور عوام کے خلاف کہ اُس کی جیل یاترا اور جلاوطنی کے دوران کیوں ایک مو ¿ثر تحریک شروع نہ کی گئی۔ اُس کی حالت ایک زخمی شیر کی سی تھی جو زندہ بچ جانے پر سب کچھ چیر پھاڑ جاتا ہے۔ اب کی بار اُس نے عوامی پیسے کی چمک دمک سے اپنے خلاف اُٹھنے والے ہر احتجاج کو دبا دیا۔ ہر حکومتی ادارے میں اپنے گُلو بٹوں کو اعلیٰ و ادنیٰ عہدوں پر تعینات کروا کے ان کی شفافیت اور فعالیت کا بھُرکس نکال دیا ہے۔ ہمارے مُلک کے کیسے کیسے معتبر اور مقتدر ادارے نواز شریف کے ہاتھ کی چھڑی بن چکے ہیں، اشارے کے لیے اعتزاز احسن کا حالیہ بیان ہی کافی ہے۔ یہ بیان بہت معنی خیز ہے۔ ابھی تو بہت کچھ پردہ ¿ اخفاءمیں ہے۔ شریفوں کی گرفت کِن کِن بڑوں کی گردن تک ہے، اور کہاں کہاں ان کی رشتہ داریاں گانٹھی ہوئی ہیں، بہت سے ہوش رُبا انکشافات عنقریب سامنے آ جائیں گے۔ لوگ انگشتِ بدنداں ہیں کہ جس وزیر اعظم کو مُلک کی عدالتیں براہِ راست مجرم ثابت نہیں کر سکتیں، کیا اُسی کے ماتحت اداروں کے( جن کے سربراہوں تک کا تقرر بادشاہ سلامت اُن کی ’پیشہ ورانہ‘ صلاحیتوں اور ’وابستگی‘ کو مدنظر رکھ کیا جاتا ہے) اُنیسویں گریڈ کے بے وقعت افسران وزیر اعظم سے جے آئی ٹی کے نام پر عزیر بلوچ کی طرح پُوچھ گچھ کریں گے۔ شیر کے آگے کورنش بجا لاتی منمناتی بکریاں اُس سے حساب مانگیں گی؟.... یہ ہے عدالت کی جانب سے تجویز کردہ مواخذہ.... اس سادگی پہ کون نہ مر جائے بہرحال شریفوں کو اپنی منی ٹریل ثابت کرنے کے لیے مزید وقت مِل گیا۔67 دِن بہت ہوتے ہیںجعلی دستاویزیں گھڑنے میں، متعلقہ لوگوں کی من چاہی بولی لگانے میں۔ آج حکمران جماعت فیصلے کو اپنی جیت کا اعلان سمجھ کر جشن منا رہی ہے اور اسے تحریک انصاف کی شرمناک ہار پر محمول کر رہی ہے۔مان لیتے ہیں جی ہار ہوئی ہے ، مگر تحریکِ انصاف کی نہیںہوئی ، بلکہ عوام کی ہوئی ہے۔یہ ہار ہے تبدیلی کی اُمیدوں کی، استحصال سے پاک سماج کی نویدوں کی۔ یہاں کوئی روشنی نہیں ہے۔ لوگوں کے خیال میں پاناما کیس ایک ایسی اندھیری سرُنگ میں داخل ہو گیاہے، جس کے آر بھی اندھیرا تھا اور پار بھی تیرگی ہی اُن کا مقدر ہے۔ یہ انتظار ایک نامختتم انتظار ہے۔ منیر نیازی شاید اسی موقع کے لیے کہہ گئے ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا کیا عجب معاملہ ہے کہ پاناما لیکس کا معاملہ سڑکوں پر اُٹھایا گیا۔ عوامی احتجاج میں تیزی آنے پر عدالت نے پاناما کیس کی سماعت شروع کی ۔ مگر براہِ راست فیصلہ دینے کی بجائے جے آئی ٹی کی تشکیل کا اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا ہے۔ لگتا ہے یہ معاملہ اب دوبارہ سڑکوں پر حل ہو گا۔ اس وقت ہر طرف ایک بے یقینی کی سی کیفیت ہے۔ مایوس اور مشتعل عوام اب بدقسمتی سے عدلیہ کی طرف دیکھنے کی بجائے میاں برادران کے خلاف خود سے ایک انقلاب برپا کرنے کے درپے ہے۔ کیونکہ عوام نواز شریف کو عدلیہ سے زیادہ جانتے ہیں۔


Neglegence causes others life,beaware to stop accedents

Sunday, April 16, 2017

مصنوعی انقلاب............نوشاد حمید ............... زہریلا سچ




کچھ عرصہ قبل تُرکی میں حکومت مخالف اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش ناکامی سے دو چار ہوئی۔ اس سازش میں فوج کے کچھ عناصر بھی شامل تھے۔ تُرک وزیر اعظم رجب طیب اُردوان کی درخواست پر عوام لاکھوں کی تعداد میں باہر نکلے۔ ٹینکوں اور گولوں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی گولیوں کے آگے سینہ سپر ہو گئے۔ اس فوری عوامی ردِ عمل کے باعث یہ بغاوت کامیابی نہ پا سکی۔ پُوری دُنیا میں جمہوریت پسند طاقتوں کی جانب سے اس جرأت مندانہ اقدام کو بہت پذیرائی مِلی۔ جو کہ دُنیا کی تاریخ میں ایک انوکھی مثال ہو ٹھہری۔عوامی جذبے اور جرأت کو جتنا سراہا جائے، اُتنا کم ہے۔ پاکستان کے ’’جمہوریت پسند حکمرانوں‘‘ نے بھی اپنے خاص الخاص دوست اُردوان کو حکومت کے بچ جانے پر بہت مبارک باد دی۔
اس وقت مملکتِ پاکستان بھی ایک ممکنہ انقلابی صورتِ حال کے دو راہے پر کھڑی ہے۔ مُلک کے کرپٹ مافیا کے خلاف فیصلہ عنقریب آنے والا ہے۔ بدقسمتی سے فیصلے میں غیر معمولی تاخیر کے باعث سوشل میڈیا پر ناجائز طور پر عدلیہ کے کردار پر اُنگلیاں اُٹھائی جا رہی ہیں۔ بہت سے شکوک و شبہات کو ہوا دی جا رہی ہے۔ یقینا ہماری معتبر عدلیہ کو جس نے ابھی فیصلہ سُنانا ہے، اُس کی ساکھ کو متاثر کرنا کوئی اچھا عمل نہیں ہے۔ بہرحال ہر طرف تبصروں کا ایک بازار گرم ہے۔
جو لوگ نواز شریف کے مزاج سے واقف ہیں اُن کی قیاس آرائیاں یہ ہیں کہ حکومت اپنے خلاف فیصلے (جس کا قوی امکان ہے) کو کسی طور تسلیم نہیں کرے گی۔ اس کے لیے ساری عدلیہ کو متنازعہ اور متعصب ثابت کرنے کے لیے اندرونِ خانہ بھرپور تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے کچھ دِن قبل ایک بیان دیا تھا کہ ایسا فیصلہ دیں گے جو تاریخی ہو گا۔ ’تاریخی‘ سے یار لوگوں نے یہ تاویلیں گھڑنی شروع کر دی ہیں کہ فیصلہ مبینہ طور پر حکومت کے حق میں نہیں ہو گا۔ اس وقت حکومتی ایوانوں میں بھی کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ کسی ’’انہونی‘‘ کو روکنے کے لیے ہر سطح پر دائو پیچ لڑائے جا رہے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ محاذ آرائی کو اب ’’آر یا پار‘‘ کی حد پہ لے جانے کا اختتامی مرحلہ اپنے آغاز کو ہے۔
نواز شریف ایک انتہائی ضدی اور انا پرست شخصیت کا نام ہے۔ موصوف نے کبھی بھی اداروں کو احترام نہیں دیا۔ ماضی پر نظر دوڑائیں تو یاد ہو گا کہ نواز لیگ بارہا عدلیہ کی توہین کی مرتکب ہوئی اور ججوں کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ اپریل 1996ء میں جب بے نظیر حکومت کی جانب سے شہباز شریف کو اُن کے خلاف کیسز کی سماعت کے سلسلے میں اسلام آباد کچہری کے عدالتی حکم کے تحت اُنہیں اڈیالہ جیل میں بند کرنے کا حکم دیا گیا تو پہلے سے بڑی تعداد میں موجود نواز لیگی غنڈوں نے پوری کچہری میں مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ پوری کچہری میں بھاگم بھاگ مچ گئی۔ یہاں تک کہ آس پاس کی دُکانوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ دُکانداروں اور علاقہ مکینوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں۔ اسی طرح پلاٹوں کی کرپشن کے معاملے میں نواز شریف کے خلاف چل رہے کیس کی سماعت کے دوران بھی لاہور ہائی کورٹ میں نواز لیگی گلوئوں نے توڑ پھوڑ کی۔ اور پھر ان کے دوسرے دورِ حکومت میں سپریم کورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں منظم گلوئوں کی غنڈہ گردی کی واردات میں معزز جج صاحبان اور سپریم کورٹ کے دیگر سٹاف کے ساتھ کیا بیتی، سب کو علم ہے۔ اس لیے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ اس وقت معاملہ نواز شریف کی سیاسی بقاء کا نہیں تھا، صرف اُن کی انا کا تھا۔ فوجی عدالتوں کے قیام کو اُنہوں نے آئینی معاملے سے زیادہ اپنی عزت، ذِلّت کا مسئلہ بنا رکھا تھا۔انہوں نے اپنی دھونس اور غنڈہ گردی سے عدلیہ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے پورے ملک پر اپنی دہشت قائم کر دی۔ عدلیہ کو اس حد تک دبائو میں لایا گیا کہ چیف جسٹس کو عہدے سے ہٹنا پڑا۔
قارئین کرام! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نواز شریف کا کچھ بھی دائو پر نہیں لگا تھا، تب اتنا ہنگامہ برپا کیا گیا۔ اب تو نواز شریف کی سیاسی موت اور زندگی کا مسئلہ آن کھڑا ہوا ہے۔ کیا وہ ’’خاموشی‘‘ سے بیٹھے فیصلے کا انتظار کر رہے ہوں گے؟ جی نہیں، یہ نواز شریف کی فطرت کے خلاف ہے۔ حکومت نے تمام غنڈہ گرد عناصر کوسٹینڈ بائی پر رکھ لیا ہے۔ اس وقت دھڑا دھڑ نوٹیفیکیشنز جاری کیے جا رہے ہیں۔ جن بیچارے حکومتی ایم این ایز اور ایم پی ایز کو یہ جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، انہی کو رام کرنے کی خاطر گیس کنکشنز اور نوکریوں پر بھرتی سے پابندی اُٹھا لی گئی ہے۔ عنقریب قرضہ سکیم کا اجراء بھی ہونے والا ہے، جیسا کہ ماضی میں سپریم کورٹ پر حملے سے ایک روز قبل ہوا تھا۔ پنجاب پولیس پر اپنا کنٹرول بحال رکھنے کی خاطر پولیس کے گلو بٹ ، بدنام ِ زمانہ سابق آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کو ایڈوائزر تعینات کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ مستقبل کی سیاسی ہنگامہ خیزی کا پیش خیمہ ہے۔ عوام کسی خوش فہمی میں نہ رہیں۔ یہ نوکریوں، کنکشنز اور قرضوں کی ترغیب و تحریص صرف روٹھے ہوئے ورکرز کو لُبھانے کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔ دُنیا میں بڑے بڑے معاشی، سیاسی اور سماجی انقلاب آئے ہیں۔ مگر نواز لیگ ایک ایسے ’’مصنوعی انقلاب‘‘ کی تیاری میں جُٹی ہوئی ہے جو عوام کی بجائے چند ہزار گلوئوں کی تخریبی کارروائیوں کی مدد سے برپا کیا جائے گا اور اس بات کا بھی قومی امکان ہے کہ چند لیگی ورکرز سیاست کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا کر کے عوام کی ہمدردیاں سمیٹ لی جائیں۔ یہ دُنیا کا ایسا اکلوتا اور انوکھا انقلاب ہو گا جسے حکومتِ وقت کی تائید اور ہلہ شیری حاصل ہو گی۔ اس انقلاب میں’’ عوام‘‘ فوج یا دیگر بیرونی طاقتوں کے خلاف نہیں بلکہ خود اپنی ہی عدلیہ کے ’’ظالمانہ اور غیر منصفانہ’’ فیصلے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس دفعہ’’پُرامن‘‘ احتجاج کا دائرہ سپریم کورٹ کی چار دیواری سے بڑھ کر گلی کوچوں تک پھیلا دیا جائے گا۔ایک ایسی فضا بنا دی جائے گی جس میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر یہی تاثر دیا جائے گا کہ نواز شریف پاکستان کی تاریخ کا مقبول ترین سیاسی لیڈر ہے اور نواز شریف کی عدالتی نااہلی کے پیچھے کچھ ایسی بین الاقوامی طاقتوں کا ہاتھ ہے جنہیں اس کے دور میں ہونے والی ’’بے پناہ‘‘ معاشی ترقی ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔ عدالتی فیصلے کو عوامی مینڈیٹ کی توہین اور مُلکی خوشحالی و ترقی کے خلاف ایک عظیم سازش بنا کر پیش کیا جائے گا۔اور پھر ’’عوامی خواہش اور غیظ و غضب ‘‘ کا احترام کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں ایک این آر او لا کر نواز شریف کی کرپشن کو تحفظ دیا جائے گا۔
حکومت نے اپنے شرمناک عزائم کی تکمیل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیا ہے۔ میڈیا پرسنز کی ایک بڑی تعداد کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے مبینہ طور پر بولیاں لگ رہی ہیں۔ عوام کے ذہنوں کو نشریاتی یلغار سے مغلوب کرنے کے تمام بندوبست ہو چکے ہیں۔  نواز شریف کے پاس اب اس کے علاوہ اور کوئی آپشن بچا بھی نہیں۔ وہ اپنی معزولی کے بعد اپنی بادشاہی اپنی اولاد میں سے بھی کسی کو منتقل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ اُن کا تمام خاندان اس وقت پاناما کیس کی لپیٹ میں ہے۔ مریم نواز ہو یا دونوں سپوت، کسی کو بھی آگے لانے پر مخالفین عدالت میں چلے جائیں گے۔اسی باعث پاناما لیکس کا فیصلہ ریاست کی عدالت عالیہ کی بجائے ’’عوامی عدالت‘‘ سے لے کر سُرخرو ہونے کا پلان ہے۔
یہ ہے وہ ممکنہ سیاسی منظر نامہ، جو اگلے کچھ دِنوں میں تشکیل پانے والا ہے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کی اس پُوری صورتِ حال پر گہری نظر ہے۔ یقینا ماضی میں عدالتوں پر کی جانے والی یلغاریں بھی ان کے ذہن میں ہوں گی۔ راقم نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں بھی یہی کہا تھا کہ سپریم کورٹ کو اپنے جج صاحبان کے تحفظ اور عمارت کی سیکیورٹی کی خاطر فوج سے بھی مدد لینی پڑے ، تو دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ پنجاب اور وفاق کی سیاست زدہ پولیس سپریم کورٹ کی محافظ کا نہیں، بلکہ حملہ آوروں کی پشت پناہی میں معاون کا کردار ہی نبھائیں گی۔ آثار یہی ہیںکہ ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ پر حملے کی تاریخ دُہرائی جائے گی۔
یہ تو تھیں حکمرانوں کی تیاریاں، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ اس بار نواز شریف اللہ کی پکڑ میں آیا ہے اور اللہ اپنے فیصلوں کے نفاذ پر مطلق قادر ہے۔ آج کی عوام 1990ء کی دہائی کی سادہ لوح عوام نہیں ہے۔ یہ عوام تعلیم یافتہ اور جمہوری اقدار سے روشناس ہے۔ نواز اینڈ کمپنی کی ساری تیاریاں اب کی بار دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ یہ قوم نواز شریف کو ’’خود ساختہ جلاوطنی‘‘ کے نام پر اب کی بار بھاگنے نہیں دے گی اور نہ ہی قومی خزانے کو لُوٹنے کے صلے میں دوبارہ اقتدار پر براجمان کرے گی۔ ان کے برپا کردہ مصنوعی انقلاب کے سامنے عوامی غیظ و غضب کا حقیقی انقلاب گلو ازم اور چمک کی سیاست  کے خس و خاشاک کو ایک ہی ریلے میں بہا کر لے جائے گا۔ 


pakitsan day ,pakistan awami society kuwait little girls beautifull perf...

Wednesday, April 12, 2017

مالِ مُفت، دلِ بے رحم............نوشاد حمید................. زہریلا سچ





معروف روایت ہے کہ ایک دفعہ نوشیروان عادل کے قافلے نے کسی گائوں کے باہر ڈیرہ ڈالا۔ کھانے کے سلسلے میں نمک کی ضرورت پڑی ۔ ایک ملازم نمک کے لیے گائوں میں جانے لگا تو نوشیروان نے کہا کہ نمک قیمتاً لے کر آنا۔مشیروں نے کہا کہ چُٹکی بھر ہی تو لانا ہے پھر قیمت ادا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ نوشیروان عادل نے جواب دیا، اگر بادشاہ رعایا کے باغ سے ایک سیب مفت کا توڑتاہے تو اُس کے وزیر مشیر پُورا باغ ہی اُجاڑ دیتے ہیں۔ یہیں سے قوموں میں بے انصافی اور ظلم و زیادتی کی شروعات ہوتی ہے۔ خیر یہ بات تھی ’’غیر جمہوری دور‘‘ کے ’’بادشاہ‘‘ کی۔ ذرا اب تیسری دُنیا میں جمہورکی مرضی اور ووٹوں کی طاقت سے منتخب ہونے والے لیڈروں اور اُن کی ماتحت انتظامیہ کا بھی ذکر ہو جائے۔
کچھ روز قبل الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کا بڑا چرچا ہوا جس میں پنجاب پولیس کے سبکدوش ہونے والے آئی جی مشتاق سکھیرا کے زیر تعمیر گھر کے باہر پولیس کی گاڑیاں سیمنٹ بجری اور دوسرے تعمیراتی میٹریل سے لدی دکھائی گئیں۔ بڑا شور شرابا ہوا۔ بڑی لے دے ہوئی۔ پر ہونا کیا تھا، کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ یہ آئی جی تو عوام کے خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف کے خاص الخاص آدمی ہیں۔آلِ شریف کی سلطنت کو دوام بخشنے اور اس کی راہ میں حائل سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کی ’’بیخ کُنی‘‘ میں ان کا کردار ’’ایوانِ شریفیہ‘‘ میں مُدت تک فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ ان کی عظمت کو سلام کہ انہیںجس ’بلند پایہ مقصد‘ کی تکمیل کے لیے لایا گیا تھا، وہ انہوں نے بحُسن و خوبی نبھایا۔ حیرت اس بات پر ہوئی ہے کہ جس سب کچھ پر شور و غوغا برپا ہوا، وہ تو اصل کا عشر عشیر بھی نہیں۔ ان کی ’بے پایاں قومی و مِلی‘ خدمات کے صلے میں جو کچھ انہیں مِلا ہے اورمستقبل قریب میں مِلنے والا ہے وہ تو ابھی آگے چل کرافشا ہو گا۔ماڈل ٹائون ہو، بلدیاتی انتخابات ہوں، قبضہ مافیا کے تحفظ کی بات ہو یا پولیس ملازمتوں کی بندر بانٹ، سابق آئی جی کی ’شفافیت‘ سے تو ایک عالم واقف ہے۔ فی الوقت یہ موضوع نہیں ہے۔ یہاں تو یہ بات بتانا مقصود ہے کہ نوشیروان عادل کی مثال اُلٹی پڑ گئی ہے یعنی باغ درباریوں نے نہیں اُجاڑا، جمہوری بادشاہوں نے اُجاڑا ہے۔ درباریوں کو تو جو کچھ مِلا ہے، وہ تو بس ’’جھُونگا‘‘ ہے۔موجودہ افسر شاہی کی کرپشن کے اصل کھُرے جہاں تک جا پہنچتے ہیں، اُن کا تو ابھی ایک آدھ پانامہ کیس ہی کھُلا ہے، ابھی تو ایسے سینکڑوں معاملے پردۂ اخفا میں پڑے ہیں۔ اگر آدھے معاملے بھی باہر آ جائیں تو لوگ انگشت بدندان رہ جائیں۔
سابق آئی جی کی’ کرپشن‘ کو اُچھالنے والے میڈیا کو شاید علم نہیں کہ موجودہ حکمران کس کس انوکھے اور جدید اندازِ رہزنی سے عوام کی خون پسینے کی کمائی دونوں ہاتھوں سے لُوٹ رہے ہیں۔ اپنی عدم کارکردگی کو کروڑوں رُوپے اشتہارات پر خرچ کر کے ’کارکردگی‘ کے رُوپ میں دکھانا ان کی عوامی سیاست کی معراج ہے۔ عوام اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ شریف خاندان قومی خزانے پر کس قدر بے پناہ بوجھ بنا بیٹھا ہے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد جب سے پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت قائم ہوئی،اُس وقت سے لے کر اب تک جبکہ یہ وفاقی حکومت پر بھی قابض ہو چکے ہیں، انہوں نے سرکاری وسائل کا اپنے اللّوں تللّوں پر بے رحمانہ استعمال کیا ہے۔ ان کا ’سادگی‘ کا نعرہ ایک کھُلا ڈھونگ ہے۔ سرکاری دفاتر میں مہمانوں کی خاطر تواضع میں سادگی کے احکامات ہوں یا پھر ایئرکنڈیشنرز کا مخصوص اوقات میں استعمال، یہ صرف دوسروں پر لاگو ہوتے ہیں۔ خود ان کے ہاں کیا صورتِ حال ہے، لوگ اس سے بے خبر ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہائوس جہاں تمام مہمانوں بشمول ایم این ایز ،ایم پی اے صاحبان و افسران کو کھانا دینے کی مناہی ہے، اُسی وزیر اعلیٰ ہائوس کے کچن سے روزانہ لاکھوں رُوپے کے پُرتعیش اور مہنگے کھانے تیار ہو کرشریف برادران کے جاتی عمرہ اور دیگر رہائشی مقامات پر پہنچائے جاتے ہیں۔ ’’شاہی خاندان‘‘ کے لیے ہر روز سپیشل ’فوڈ سکواڈ‘ خصوصی گاڑیوں میں سوار ’سادہ‘ کھانے منزلانِ مقصود پر مہیا کرنے کے لیے ہمہ دم مستعد ہوتا ہے۔ ’’کرپشن فری حکومت‘‘ کا جھوٹا راگ الاپنے والے شریف خاندان نے 2008ء سے لے کر آج تک اپنی جیب سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ جاتی عمرہ و دیگر مقاماتِ شاہیہ کی تمام تر تزئین و آرائش ، قیام و طعام کے جملہ اخراجات عوامی خزانے سے ہی کیے جا رہے ہیں۔ اس خاندان نے اپنی تمام ذاتی رہائش گاہوں کوحکومت کے کیمپ آفس کا درجہ دے رکھا ہے۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان مقامات پر جو ہر وقت ورکروں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے، اُن پر خرچ آنے والی تمام رقوم کا بھُگتان بھی عوام کوبھُگتنا پڑتا ہے۔ دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کی حد تو دیکھیے کہ پنجاب کے سپوتِ اول کے لیے تعمیر کردہ گھر کو بھی کیمپ آفس قرار دے کر مبینہ طور پر یہاںپر سرکاری خزانے سے متوالے بھرتی کیے جا رہے ہیں اور کوئی آواز اُٹھانے والا نہیں۔ کیا مُلکی آئین و قانون میں ذاتی و جماعتی مفادات کی تکمیل کے لیے سرکاری خزانے کے اس بے دریغ استعمال کی اجازت دی گئی ہے؟ مذہب پرستی شریف برادران کا ایک لبادہ ہے جس کی آڑ میں وہ یہاں کے عوام سے جذباتی طور پر کھیلتے ہیں۔ ان کی سعودی عرب سے قُربت کی وجہ ان کی اسلام پسندی نہیں بلکہ اپنی بے انتہا کرپشن کو عوام کی نظروں میں ’مذہبی استثناء‘ دلوانے کی ایک چال ہے۔
پنجاب حکومت کے ہر محکمے میںکلیدی عہدے پر صرف وہی افسر تعینات ہوتا ہے، جو ان کا منظورِ نظر ہو اور ان کے قومی خزانے کو لُوٹنے کے ’عزم‘ کی راہ میں حائل نہ ہو۔ میرٹ ان کے پائوں کا مال ہے، جسے یہ جب چاہیں، جتنا چاہیں روند لیتے ہیں۔ اسی سرکاری خزانے سے ہی یہ قومی و بین الاقوامی سروے کمپنیز کے نمائندوں کو خرید کر اپنی ’گڈ گورننس‘‘ کے چرچے کرواتے ہیں۔ اپنی معاشی ایمپائر کو فروغ دینے کے ایجنڈے میں معاون اورمستعد افراد پر یہ سرکاری خزانوں کی بوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ جس دِن یہ اقتدار سے الگ ہوں گے، اُس دِن عوام کو صحیح معنوں میں اندازہ ہو گا کہ مُلکی کارپوریشنز و ادارے کس حد تک گردشی قرضوں کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ بین الاقوامی قرضوں کا حجم کس خوفناک حد کو چھونے لگا ہے اور یہ بھی جان جائیں گے کہ کیوں پنجاب میں صحیح معنوں میں دہشت گردی کی بیخ کنی نہیں کی جا سکی۔ کیونکہ میرٹ کو پامال کرتے ہوئے پولیس میں اعلیٰ عہدوں پر وہ لوگ تعینات فائز کیے جاتے ہیں جو شریف خاندان کی جوتیاں سیدھی کرنے میں لگے رہیں۔ جن کا فرضِ منصبی صرف جاتی عمرہ اور ماڈل ٹائون و دیگر مقاماتِ شریفیہ پر زیادہ سے زیادہ سیکیورٹی تعینات کروا کے ’’عوام کے جان و مال‘‘ کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو۔جہاں پولیس کے ہزاروں اہلکارایک مخصوص سیاسی قبضہ گروپ کے اہل و عیال کی حفاظت پر مامور کر دیے جائیں تو عوام کے ساتھ ڈکیتی، راہزنی، چوری چکاری، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافے پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔
لوگوں کو اسلامی شعائر کی پابندی کا درس دینے والے شریف خاندان کو بتایا جائے کہ اسلامی نظام تو وہ ہے جس میں ایک عام بدو بھی اُٹھ کر لاکھوں کلو میٹر رقبے پر پھیلی اسلامی ریاست کے خلیفہ کا مواخذہ کر سکتا تھا۔ دُنیا کا کونسا مذہب، قانون، آئین اور اخلاقی نظام ریاستی وسائل کو لُوٹ کا مال سمجھ کر اپنے اعزہ و اقارب اور خاص لوگوں پر خرچنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ لوگ تو زکوٰۃ فنڈ اور بیت المال کے مقدس پیسے کو بھی معافی دینے کو تیار نہیں۔ بیچارے عوام مذہب کی محبت میں ایک مقدس فریضے کی تکمیل کے لیے زکوٰۃ کٹواتے ہیں اور اُن کا مال بے شرمی سے یہ لوگ اپنے کارندوں، چیلوں چانٹوں اور دیگر سیاسی اللوں تللوں پر اُڑاتے ہیں۔
مگر ہم عوام، خوابیدہ لوگ، سیاسی شعور سے نابلد، اسلام کی سماجی و معاشی اقدار سے ناشناس، مغربی جمہوریت کے زیورِ حُسن سے تہی… افلاس کے گڑھوں میں گِرے، اربوں کی کرپشن سے بنی چند کلومیٹر کی سڑک کو ہی خوشحالی کی علامت سمجھ کر اپنی تقدیر پر قانع، فیس بُک پر حکمرانوں کے لیے چند کلماتِ بیزاری کو ہی ’’عظیم سیاسی جدوجہد‘‘ گردانتے، لوڈشیڈنگ کے بعد بجلی کے لوٹ آنے کو حکمرانوں کا بے پایاں احسان مانتے… ہم لوگ، ہمارا مقدر یونہی ہے، یونہی رہے گا۔ کیونکہ جسموں کے ساتھ بندھی زنجیروں والے غلام تو بالآخر آزاد ہو جاتے ہیں مگر ضمیر اور شعور کے روزن خود بند کر لینے والے خوشحالی کی دھوپ سے ہمیشہ محروم ہی رہتے ہیں۔

Tuesday, April 11, 2017

قومی نعرہ........................... زہریلا سچ.......................نوشاد حمید



پاکستان کی مُلکی تاریخ میں بہت سے نعروں نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا۔ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، 
ضیاء الحق، غلام اسحق خان اور کئی دیگر شخصیات کے خلاف دلچسپ نعرے گھڑے گئے، جن سے یہ بلند پایہ لیڈران بہت بار نہ صرف زِچ ہوئے، بلکہ کئی نعروں کی مقبولیت حکمرانوں کی عدم مقبولیت اور بالآخر اقتدار سے علیحدگی پر منتج ہوئی۔ لیکن ایک نعرہ ایسا ہے جس نے مقبولیت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ’’گو بابا گو‘‘ ’’گو مشرف گو‘‘ اور ’’گو زرداری گو‘‘ جیسے نعروں کی مقبولیت اس نعرے کے آگے بالکل ماند پڑ گئی ہے۔ جی ہاں یہ نعرہ ہے ’’گو نواز گو‘‘ جو ہر پاکستانی کی زبان پر موجود رہتا ہے۔اس نعرے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ آر اوز الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی ’’ہر دلعزیزی‘‘ کی قلعی چند مہینوں میں ہی اُس وقت کھُل کر سامنے آ گئی جب عوام کو پتا چلا کہ پُورا انتخابی عمل ہی مشکوک تھا۔ پانچ پانچ ہزار ووٹ والے پولنگ اسٹیشنوں پر ’فرشتوں‘‘ نے پندرہ پندرہ ہزار ووٹ کاسٹ کر دیئے۔ عمران خان نے ابتدا میں صرف چار حلقوں میں کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی جانچ کا مطالبہ کیا۔ مگر نواز لیگی حکومت بھلا اپنی ’کامیابی‘ کا بھید کیسے آسانی سے پتا لگنے دیتی۔کیونکہ ایک حلقے کے اصلی نتائج سامنے آ جانے پر ہی سارا انتخابی عمل مشکوک ٹھہر جاتا۔ نواز لیگ کی ہٹ دھرمی کے باعث عمران خان نے اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا۔ اگر 16 دسمبر 2014ء کو سانحہ آرمی پبلک سکول رونما نہ ہوتا، تو عمران خان یقینا دھرنے کو جاری رکھ کر اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جاتا۔ اگرچہ دھرنا ختم ہو گیا لیکن اسی دھرنے نے قوم کو ’’گو نواز گو‘‘ جیسے دل نشیں اور مسحور کُن نعرے سے نوازا۔
رفتہ رفتہ یہ نعرہ مُلکی سرحدیں پھلانگ کر ایک بین الاقوامی نعرہ بن چکا ہے ۔ شریف برادران امریکا جائیں یا لندن، فرانس جائیں یا جاپان، چین جائیں یا دوبئی۔ ہر مقام پر اُن کا استقبال اس ’’قومی‘‘ نعرے سے کیا جاتا ہے۔ اور پردیس میں تو ان کی بے بسی دیدنی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہاں پر اینٹی نواز نعرے لگانے والوں کو حکومتیں گرفتار نہیں کرتیں، نہ وہاں پر پاکستان کی طرح نعروں کے ذریعے کتھارسس کرنے والوں کو مار پیٹ اور دھونس دھمکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ درحقیقت اس نعرے کی بدولت پاکستانی قوم کا بہت بڑا فائدہ ہوا ہے۔ کیونکہ اس نعرے کے متعارف ہونے سے پہلے نوا ز شریف نے مُلک کو معاشی ترقی دینے کا جھانسہ دے کر دُنیا بھر کے مُلکوں میں فیملی سمیت سیر سپاٹوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔ آئے روز عوام کی خون پسینے کی کمائی سے اکٹھے ہونے والے ٹیکسز کی مد سے بیرونِ مُلک تفریح اور عیاشی کا یہ غیر مختتم سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ مگر جب بیرونِ مُلک شریفوں کے دوروں کے دوران ’’گونواز گو‘‘ کے نعرے لگنے لگے تو ان کے سیر سپاٹوں کو بھی لگام پڑ گئی اور مستقبل کے ممکنہ بیرونی دوروں سے عوام کو جو اربوں روپے کا ٹیکا لگنا تھا، اس سے جان بچ گئی۔
اس نعرے کو قوم کے دِلوں کی دھڑکن بنانے کا کریڈٹ بلاشبہ تحریکِ انصاف کو جاتا ہے۔ جس کے بعد دُوسری اینٹی نواز قوتوں نے بھی اس کو اپنا لیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ شریف فیملی نے سرکاری و غیر سرکاری تقریبات میں اس نعرے کے خوف سے شرکت کرنا تک چھوڑ دی ہے۔مُلکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ حکمرانوں کی موجودگی کے بغیر ہی سکول کالجز کی تقریبات ، لیگی ورکروں کے کنونشنز ، سیمینارز اور ثقافتی و ادبی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔ یہ ہے عوام کا اپنے حکمرانوں پر اعتماد اور حکمرانوں کی اپنے ’’ووٹرز‘‘ عوام سے خوف زدگی کا عالم۔جو لوگ صحیح معنوں میں عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آتے ہیں، اُنہیں کوئی ڈر خوف نہیں ہوتا۔ اگر معاشرے کی کوئی سیاسی اقلیت برسراقتدار حکمرانوں پر طعنہ زن ہوتی ہے تو اُن کے حامیوں کی بڑی گنتی خود ہی جمہوری اور سیاسی طریقے سے ان حکومت مخالف قوتوں کو جواب دے دیتی ہے۔ مگر یہاں تو ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ حاصل کرنے والے بالکل بے بس نظر آ رہے ہیں۔ اتنی غیر مقبول تو ماضی کی فوجی حکومتیں بھی نہیں رہیں، جتنی شرمندگی موجودہ حکمرانوں کے حصّے میں آ رہی ہے۔ لگتا ہے جیسے موجودہ حکمرانوں کا تعلق کسی دوسرے سامراجی مُلک سے ہے اور کسی غیر مُلک پر قابض ہونے کے باعث انہیں اس قدر مخالفت اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اگر کبھی اتفاقاً کسی تقریب میں شریف فیملی کا کوئی ممبر موجود ہو تو وہاں بھی لوگ اتنی بے خوفی سے ’’ گو نواز گو‘‘ کی صدا بُلند کر دیتے ہیں کہ جیسے یہ نعرہ شریفوں کی مخالفت میں نہیںبلکہ حمایت میں لگایا جا رہا ہے۔پاکستان میں جہاں بھی چلے جائیں، کہیں دیواروں پر، کہیں گاڑیوں پر، کہیں اشتہاروں پر ، تفریحی مقامات پر، یہاں تک کہ عوامی بیت الخلائوں میں بھی یہی ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ دیکھنے کو مِلتا ہے۔ شریف حکومت کے حواری لاکھ کوشش کرتے ہیں کہ جن تقریبات میں شریف برادران شریک ہوں، وہاں ان کے خلاف نعرے بازی نہ ہو۔ اس کا آسان حل انہوں نے یہ نکالا کہ جلسہ گاہوں کو پٹواریوں، حکومتی ملازموں، غیر سیاسی اور سول ایجنسیز کے اہلکاروں سے بھرنا شروع کر دیا۔ عوام الناس کی شرکت ان تقریبات میں ختم ہی ہو گئی۔ پھر بھی دُنیا دیکھتی ہے کہ ان دیکھی طاقتیں یہ نعرہ بلند کر ہی دیتی ہیں۔ شریف برادران اتنے خوفزدہ ہیں کہ اپنے ہی تعینات خاص الخاص افسروں اور انتظامی کارندوں کے ساتھ میٹنگز کا انعقاد بھی ویڈیو لنکس کے ذریعے کرتے ہیں۔ کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے کہ جس پارلیمنٹ نے انہیں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ منتخب کیا ہے، یہ اُس کے ایوانوں میں سالہا سال شرفِ دیدار دینا پسند نہیں کرتے۔ کیونکہ ایک تو ان کا مزاج ہی آمرانہ ہے، جو اسمبلی کے جمہوری ماحول کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور اب تو ان کے دِلوں پر یہ ڈر بیٹھ گیا ہے کہ ان کی موجودگی کو پا کر کہیں پارلیمانی ایوان بھی ’’گو نواز گو‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے نہ تھرتھرا اُٹھے۔سوشل میڈیا کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ وہاں تو اس حوالے سے ایک طوفان برپا ہے۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو یہ کب کے فیس بُک پر پابندی لگا چکے ہوتے۔ وہ تو بھلا ہو ان کے مالکان کا جو جمہوری مُلکوں میں رہنے کے باعث جمہوری ذہن کے حامل ہیں اور حکومتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اب تو ’’گو نواز گو‘‘ کے نام سے موبائل گیمز بھی وجود میں آ چکی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے نواز شریف کو ڈی چوک میں کینٹینروں اور آگ کے الائو پر سے پھلانگتا دیکھتے ہیں پیچھے پیچھے عمران خان ہاتھ میں بلا پکڑے جارحانہ انداز میں تعاقب کر رہا ہوتا ہے۔ جب بھی نواز شریف کسی رکاوٹ کو عبور کرنے میں ناکام رہتے ہوئے سڑک پر گر پڑتا ہے تو عمران اُسے جا لیتا ہے۔ 
’’گو نواز گو‘‘ کی بدولت شریف لمیٹڈ کمپنی کے ناروا سلوک کے شکار ان کے اپنے ساتھی، ن لیگ کے سیاسی رہنما اور پارلیمنٹیرنز کو بھی اپنے اندر کا ’ساڑ‘ نکالنے کا موقع مِل گیاہے۔ کئی نواز لیگی لیڈر ’’گو نواز گو‘‘ کہنے کی جسارت کے مرتکب ہو چکے ہیں۔ عوام تو یہی سمجھتی ہے کہ یہ نعرے بے دھیانی میں لگے ہیں۔ اصل میں تو نواز لیگی قائدین ’’گو عمران گو‘‘ کہنا چاہتے تھے مگر زبان کی پھسلن (Slip of Tongue) کے باعث ’’گو نواز گو‘‘ کہہ بیٹھے۔ مگر بھولے بادشاہ یہ نہیں جانتے کہ اپنے اندر کا ’ساڑ‘ نکالنے اور آقائوں کی بدتمیزیوں اور ناانصافیوں کا حساب بے باق کرنے کا اس سے اچھا موقع اور کیا ہو سکتا ہے۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ رُونما ہوتا ہے تو میڈیا پر شریفوں کی جگ ہنسائی کا اچھا بھلا شو لگ جاتا ہے۔ ہر چینل دِن میں کئی کئی بار اس ’زبان کی پھسلن‘ کو عوام الناس کی تفریح طبع کے لیے نشر کرتا ہے۔
دروغ بر گردنِ راوی، ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک اتنی طاقتور ہو گئی تھی کہ ایک بار خود اُن کے چھوٹے سے پوتے نے اپنے سکول کے ساتھیوں سے ’ایوب کُتا‘ کا نعرہ سُنا اور گھر واپس آ کر ایوب خان کے سامنے معصومیت میں یہی یہ نعرہ سُنا دیا۔ تب جا کر ایوب صاحب کو اندازہ ہوا کہ وہ حقیقت میں عوام میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھے ہیں اور ان کی ذات سے بے پناہ بیزاری کا اظہار نعروں کی صورت میں خود اُن کے اپنے گھر تک آن پہنچا ہے تو انہوں نے غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی بچی کھُچی عزت بچانے کے لیے اقتدار سے فوراً کنارہ کشی کرنے میں عافیت جانی۔ جبکہ دوسری طرف ’’غیرتِ سلطانی‘‘ کی صورتِ حال یہ ہے کہ جوں جوں ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں میں تیزی آ رہی ہے، نواز شریف کا اقتدار پر اگلے کئی برسوں تک قابض رہنے کا ارادہ اورمصمم ہوتا جا رہا ہے۔ ستم ظریفوں کا کہنا ہے کہ خود نواز شریف بھی اس نعرے کے سحر میں اس حد تک گرفتار ہو چکے ہیںکہ یہ نعرہ سُنے بغیر انہیں نہ تو دِن میں چین پڑتا ہے اور نہ رات کو نیند اچھی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اقتدار سے علیحدگی اختیار کرنے پر آمادہ نہیں کہ کہیں مستقبل میں اُن کی سماعتیں یہ جانفزا بول سُننے سے محروم نہ رہ جائیں اور وہ دِن کا چین اور رات کی نیند نہ گنوا بیٹھیں۔
پوری قوم کو یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے سابقہ دورِ حکومت میں شہباز شریف اور نواز شریف کروڑوں روپے کی خطیر رقم سے پنجاب بھر کے پٹواریوں اور سرکاری ملازموں کو جلسے کے نام پر اکٹھا کر کے’’گو زرداری گو‘‘ کے نعرے لگوا کر خوب جھُومتے اور سر دُھنتے تھے۔ اور آج قدرت کا رنگ یہ ہے کہ انہیں اپنے اجتماعات کو ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں سے محفوظ رکھنے کے لیے سیکیورٹی اور 'Mute System' کے خصوصی انتظامات کرنے پڑ رہے ہیں پر ہونی ہو کر رہتی ہے۔اب کی بار کچھ الگ ہونے والا ہے۔ اس بار سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کا فیصلہ مبینہ طور پر نواز شریف کے خلاف آنے کے بعد نواز لیگی کارکن عدلیہ پر حملہ آور نہیں ہوں گے، بلکہ خوشی سے جھومتے جھامتے ’’گو نواز گو‘‘ کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ احاطہء عدالت سے باہر آئیں گے کیونکہ وہ اب رہبر اور رہزن کا فرق جان چُکے ہیں۔
یہ کیسی مضحکہ خیز صورتِ حال ہے کہ یہی شریف برادران کچھ سال پہلے زرداری کی مبینہ کرپشن پر اسے سڑکوں پر گھسیٹنے کی بڑھکیں مارتے تھے اور آج اپنی کرپشن بچانے کے لیے ذِلت اندوزی کی آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اقتدار، اختیار، پیسہ کچھ بھی انہیں بچا نہیں پا رہا۔ کیونکہ ’’گو نواز گو‘‘ صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ استحصال شدہ طبقے کی جاگ ہے، کرپشن کے خلاف للکار ہے اور ایک ترقی یافتہ اور شریفیہ شہنشاہت سے پاک روشن اورخوشحال پاکستان کی نوید ہے۔

Wednesday, April 5, 2017

Rohani Class2 | Part 3 of 4 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class2 | Part 3 of 4 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class3 | Part 3 of 3 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class3 | Part 2 of 3 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class2 | Part 1 of 4 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class2 | Part 2 of 4 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class2 | Part 3 of 4 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class3 | Part 2 of 3 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class1 | Part 1 of 3 | Hakeem Tariq Mehmood | Chughtai

Rohani Class3 | Part 2 of 3 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class4 | Part 3 of 4 | Yaseen Shareef Ki Fazilat

Rohani Class2 | Part 1 of 4 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class3 | Part 1 of 3 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class2 | Part 2 of 4 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class4 | Part 4 of 4 | Yaseen Shareef Ki Fazilat

Rohani Class2 | Part 3 of 4 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Rohani Class1 | Part 3 of 3 | Hakeem Tariq Mehmood Chughtai

Monday, April 3, 2017

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,amjad Hussain performance 02

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,Naat by abdul rauf bahti, ...

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,seyd sadaqt ali speech

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,syed asad ullah Message

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,performance of little chil...

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,performance of little chil...

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,Raja Asad Ali khan

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,Muneeb Iqbal

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,Peer Sahab Peerzada Nabi A...

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,khan Farhad ali khan

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,,Haji Abdulrasheed speech

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,ahmad speech

Pakistan Day By Pakistan awami society kuwait,doucmentry of asim azeem

Pakistan Day by Pakistan awami society kuwait amjad performance

Pakistan day by Pkaistan awami society kuwait dr umar jawad address

Pakistan day by Pkaistan awami society kuwait dr rafiq Ahmad address

pakistan awami society kuwait,seyd jafar smdani speech

Pakistan awami society kuwait,kashif kamal mili nagma

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...