Tuesday, March 28, 2017

جمہوریت کی تطہیر۔۔۔نوشاد حمید



مشرف کے دورِحکومت میں پُرانے اور رد کیے چہروں کی جانب سے ہی قوم کو خوش آئند تبدیلی کے نئے خواب دکھائے گئے۔ مشرفی آمریت سے بیزار عوام نے اس اُمید پر سڑکوں پر آ کر جدوجہد کی کہ تبدیلی کے بعد کچھ نیا مِلے گا۔ سب کچھ بدل جائے گا۔ پُرانے لوگ ماضی کی غلطیوں کو فراموش کر کے بہتر انداز میں اُن کی خدمت کریں گے۔ بھولی عوام ماضی کے لُٹیروں کو ہی مسیحا کے رُوپ میں دیکھنے لگی۔ اور پھر عوام نے پیپلز پارٹی کے دور کا عذاب بھُگتا۔ کوئی تبدیلی نہ آئی۔ آصف زرداری، بے نظیر بھٹو کے قتل کے باعث ملنے والے ہمدردی کے ووٹ کی بناء پر برسراقتدار آئے اور خوش کُن نعرہ دِیا ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔ عوام کو پانچ سال بھُگتنے کے بعد سمجھ آئی کہ یہ انتقام بی بی کے قاتلوں سے نہیں بلکہ اُن سے لیا گیا۔ 

خیر، عوام 2013ء کے انتخابات کے موقع پر پھر سے پُرجوش ہو گئی۔پُرانے اور آزمودہ چہروں کو نیا موقع دینے کے لیے۔مگر نتیجہ کیا ہوا؟ وہی دو طبقات ہیں… ایک بالا دست اور دوسرا زیر دست… حاکم اور محکوم! جابر اور مجبور!  جونہی پاناما لیکس کا معاملہ گرم ہوا تو حکومتی کاسہ لیس اور چیلے چانٹے لگے جمہوریت کو خطرے کا راگ الاپنے۔ اسمبلیوں میں بھی جمہوریت کے حق میں بڑا شور برپا کیا گیا۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ جمہوریت کے ثمرات سے کتنے فیصد عوام مستفید ہو رہے ہیں؟  اسمبلیاں عوام کے حقوق کے تحفظ اور فلاح و بہبود کی ضامن ہوتی ہیں۔ مؤثر قانون سازی کے ذریعے مُلک میں آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتی ہیں اور عدل و انصاف کا بول بالا کرواتی ہیں۔ ہماری اسمبلی میں بھی یقینا اچھے لوگ موجود ہیں مگر ان کی بات پر کان دھرنے والا کوئی نہیں۔ حقیقت میں اس اسمبلی میں بدعنوانیوں میں ملوث چند ایسے سیاہ چہرے اقتدار و اختیار پر قابض ہیںجو قبضہ مافیا، منشیات فروشی، دہشت گردوں کی سرپرستی و سہولت کاری، جعلی ڈگری اور دیگر گھنائونے افعال سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے حلقوں کے ناخُدا بنے بیٹھے ہیں۔ جس کو چاہیں موت کے گھاٹ اُتار دیں، جس کی زمین پر چاہیں، قابض ہو جائیں۔ کوئی ان کو لگام ڈالنے والا نہیں۔  بلدیاتی نظام کی صورت میں بھی عوام کے لیے کوئی خاص تبدیلی نہیں آ سکی۔ کیونکہ خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی نظام کا ڈھانچہ اس طرح سے وضع کیا گیا کہ اختیارات حقیقی عوامی نمائندوں کو منتقل نہ ہو سکیں۔ ان بلدیاتی انتخابات کی صورت میں پارلیمنٹ میں بیٹھے کرپٹ عناصر کے ہی 90فیصد بچے جمورے آگے آئے ہیں۔ اب کرپشن بڑے منصوبوں سے پھیل کر گلی محلّوں کے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس میں بھی در آئی ہے۔ عوام کی محنت کا پیسہ لُوٹنے والوں کی گنتی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اگر پاکستانی سیاست میں موجود ان استحصالی اور بدعنوان عناصر کو نکال پھینکا جائے تو جمہوریت ترقی کرے گی، ملک ترقی کرے گا، عوام کے افلاس ومصائب میں کمی واقع ہو گی۔ اُن کا معیارِ زندگی بلندیوں سے ہم آہنگ ہو گا۔    جمہوریت کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ یہ ایک راستہ ہے لوگوں کو فلاح کی طرف لے جانے کا۔ اُن کے مسائل کے حل کا۔ اُن کی معاشی، سماجی اور ذاتی تکالیف میں کمی کا… اُنہیں ایک بہتر طرز زندگی کی طرف گامزن کرنے کا۔ اگر کسی جمہوری نظام کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے تو اس جمہوری نظام کے چلانے والوں کی اہلیت اور کردار کی شفافیت پر سوال اُٹھنا لازمی ہیں۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے ترقی کے وعدے ایک سنہری دھوکے (Eye Wash) سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب کبھی کسی اہل اور عوام دوست جماعت کی حکومت آئے گی تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ مُلکی معیشت کو کس کس ڈھنگ سے نقصان پہنچایا گیا۔ میگا پراجیکٹس میں کس حد تک کرپشن سے ہاتھ آلودہ کیے گئے۔  جب کسی مدرسے سے جُڑا مہتمم یا مولوی کسے معصوم بچے کو شیطانی ہوس کا نشانہ بناتا ہے تو ہمارے معاشرے کے تمام لبرل طبقات موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے تمام عالمِ دین اور مذہبی ہستیوں کی مذمت کرنے میں جُٹ جاتے ہیں۔ یہ کوئی انصاف نہیں ہے۔ کسی پیشے یا ادارے سے جُڑے فردِ واحد کے کارہائے سیاہ پر تمام اداروں کو الزام دینا قطعاً معقول رویہ نہیں۔ شیطان کسی بھی رُوپ میں موجود ہو سکتا ہے اورکسی بھی معصوم بنے شخص کے اندر بیٹھ کر وقت آنے پر اپنی اصلیت ظاہر کر سکتا ہے۔ یہی حال جمہوریت کا ہے۔ چند بُرے لوگوں کی نشاندہی کرنے کا قطعاً یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ تمام جمہوری نظام کرپٹ ہے۔ یہ تو کچھ چور، ڈاکو، بدمعاش، اٹھائی گیرے، قبضہ مافیا اور کالے دھن سے جُڑے لوگ ہیں جو اس وجہ سے پارلیمنٹ کا رُخ کرتے ہیں تاکہ وہاں سے حاصل ہونے والے آئینی استثنیٰ کو اپنے کالے کرتوتوں کے لیے بطور ڈھال استعمال کر سکیں۔  جب بھی حکمرانوں کے احتساب کی بات کی جاتی ہے تو درباریوں کی جانب سے واویلا مچایا جاتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ جمہوریت خطرے میں نہیں، بلکہ استحصالی طبقے کا اقتدار خطرے میں ہے۔ کروڑوں لوگوں کی قسمتوں کے خُدا بنے بیٹھے مُٹھی بھر لوگوں کے گٹھ جوڑ کو خطرہ ہے۔ پُوری دُنیا میں جمہوری عمل چلتا ہے اوروقت کے ساتھ بڑھ رہے سیاسی شعور کی بدولت عوام سیاسی نظام میں موجود کالی بھیڑوں کو مسترد کر دیتی ہیں۔ یہی جمہوریت کا حُسن ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے جمہوریت میں تطہیر کا عمل جاری ساری رہتا ہے۔ مگر یہ سب عمل وہاں ہوتا ہے جہاں صحیح معنوں میں جمہوریت کا راج ہو۔ جہاں سیاست دان، عوام اور ریاستی ادارے جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہوں۔ کوئی شخص بھی احتساب سے بالاتر نہیں۔ ہمارے خلفائے راشدین نے بھی خود کو بارہا عوامی احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ موجودہ حکومت کی نااہلی کا تو یہ عالم ہے کہ کوئی قدرتی آفت ہو یا سالوں بعد کوئی اِکلوتا میچ کرانا ہو یا کوئی دُوسرا تیسرا معاملہ۔ یہ فوج کو بُلاتے ہیں۔ حکومتی سول اداروں کو سیاست کی نذر کرنے کے باعث ہی فوج کو رد الفساد اور ضربِ عضب جیسے آپریشن لانچ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مگر ہزاروں جانوں کی قربانی کے بعد بھی دہشت گردی کا درخت جڑ سے نہیں اُکھاڑا جا سکا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ دہشت گردی کے ڈانڈے کرپشن سے ملتے ہیں۔ اور کرپشن کو تحفظ ہمارے ہی چند نام نہاد عوامی لیڈران کی جانب سے دیا جا رہا ہے۔ دھاندلی زدہ سسٹم کے باعث جو چند دہشت گرد عناصر پارلیمنٹ میں اپنی محفوظ پناہ گاہ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں، اگر فوج کو ان کی بیخ کنی کا اختیار مِل جائے تو بلاشبہ دہشت گردی کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے احتسابی اور انتظامی ادارے صرف حزبِ مخالف کے افراد کو  کرپشن کیسز میں ملوث کرنے، ڈرانے دھمکانے اور سیاسی سودے بازی کے لیے ہی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اگر ان اداروں کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کر دیا جائے اوریہ  بلاتخصیص حکومتی و اپوزیشن ارکان کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لا کھڑا کریں تو فوج دہشت گردی کے پسِ پُشت کارفرما کرپشن کے خلاف اپنا کام کہیں زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکی گی۔  قوم کو وزیر اعظم نواز شریف سے زیادہ اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔ ان کی پُراسرار شخصیت کی کئی پرتیں ہیں۔ جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اِن کی زبان دِن رات مُلکی سا لمیت کو درپیش خطرات کا راگ الاپنے سے نہیں تھکتی۔ جبکہ حکومت میں آنے کے بعد ان کا دِل ہر لحظہ پاکستان کے دُشمن ممالک کی محبت و اُلفت میں دھڑکتا ہے۔ 


Sunday, March 26, 2017

اولڈ اِز گولڈ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,نوشاد حمید کا زہریلا سچ ایک بار پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کارکن سیاسی پارٹیوں کا بیش بہا سرمایہ ہوتے ہیں۔ کارکنوں کی بدولت ہی سیاسی جماعتیں گراس روٹ لیول پر اپنی جڑیں مضبوط کرنے اور تنظیم سازی کے عمل میں کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ یہی کارکن ہوتے ہیں جو انتخابات کے دوران اور قبل اپنی راتوں کی نیندیں اور دِن کا چین برباد کر کے اپنی جماعت کی کامیابی کی خاطر سر توڑ مشقت کرتے ہیں۔ ان کارکنوں میں سے بیشتر کی جماعت سے وابستگی مستقبل کے مفادات پر نگاہ رکھنے کی بجائے خالصتاً نظریاتی نوعیت کی ہوتی ہے۔ یہ لوگ مخالف پارٹی کے دورِ اقتدار میں بھی اپنی جماعت سے زیادہ مضبوطی سے وابستہ رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ دورِ آمریت کی صعوبتیں‘ دھونس دھمکی اور مالی ترغیبات بھی ان کے پایۂ استقامت میں لرزش پیدا نہیں کر سکتیں۔ ان کی بے لوث کمٹمنٹ اور انتھک جدوجہد ہی مطلق العنان آمروں کو اپنا بوریا بسترا سمیٹنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ کارکن لیڈر کی ایک کال پر لبیک کہتے ہوئے تحریکوں کے الائو میں بصد رضا و خوشی ایندھن کا کردار ادا کرتے ہوئے قربانیوں کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے کاروبار اور فکرِ معاش کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ جمہوریت کا خورشید طلوع کرنے کی خاطر اگر ان کے گھروں میں افلاس اور تنگ دستی کا اندھیرا چھا جائے تو بھی ان کے جذبے ماند نہیں پڑتے۔ ان کی زندگی بلاشبہ ’’نہ ستائش کی تمنّا‘ نہ صلے کی پرواہ‘‘ سے عبارت ہوتی ہے۔ قارئین کرام! ہمارے مُلک کی بیشتر سیاسی پارٹیوں میں ایسے کارکن وافر گنتی میں پائے جاتے ہیں۔ مگر یہاں ہم موضوعِ سخن موجودہ برسراقتدار جماعت مسلم لیگ نواز کے کارکنوں تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے اب تک تقریباً چار بار مسلم لیگ کو حکومتی ایوانوں سے باہر رہنا نصیب ہوا۔ پیپلز پارٹی کے خصوصاً دو ادوارِ حکومت میں ن لیگی کارکنوں نے حکومت کو ٹف ٹائم دیئے رکھا۔ انہی کارکنوں کے برپا کئے گئے سیاسی بھونچال کی بدولت پیپلز پارٹی کو اقتدار کے ایوانوں سے باہر کیا گیا اور اقتدار کا ہُما میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے سر پر جا بیٹھا۔ پھر 1999ء آیا جب میاں برادران کی اپنی مطلق العنان ذہنیت‘ سیاسی کج فہمی اور عاقبت نااندیشی ان کی حکومتوں کے خاتمے اور مشرف کے آٹھ سالہ دورِ آمریت کے آغاز پر منتج ہوئی۔ طیارہ سازش کیس کی سماعت کے دوران لیگی کارکنوں کی جانب سے کوئی زیادہ بڑا احتجاج دیکھنے کو نہ مِلا۔ وجہ صاف ظاہر تھی۔ شریف برادران ہمیشہ اقتدار سنبھالتے ہی کارکنوں سے منہ موڑ اور آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ جن کارکنوں کی قربانیوں کے دوش پہ یہ لیڈر حکومت سازی میں کامیاب ہوتے ہیں‘ اعلیٰ ترین حکومتی عہدوں پر فائز ہونے کے بعد انہی کارکنوں کو اچھوت خیال کرتے ہوئے انہیں شرفِ مِلاقات تک بخشنا گوارا نہیں کرتے۔ فیوڈل مائنڈ سیٹ رکھنے والے شریف برادران اپنے کارکنوں کو کمّی کمین سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے خیال میں کارکن کی حیثیت ٹشو پیپر سے رتّی بھر زیادہ نہیں۔

خیر‘ قصّہ مختصر یہ کہ کارکنوں کے ساتھ ناروا سلوک کے باعث نواز شریف کو طیارہ سازش کیس میں عمر قید کی سزا سُنائے جانے پر بھی کوئی خاص عوامی ردِد عمل سامنے نہ آیا۔ بلکہ نواز لیگ کی اعلیٰ قیادت سے نالاں اور بدظن لیڈروں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے موقع غنیمت جانتے ہوئے دوسری جماعتوں بالخصوص مشرف کی تشکیل کردہ مسلم لیگ قائد اعظم کا رُخ کرنے میں عافیت جانی۔ یہ دور جماعت پر بہت کڑا تھا۔ ابن الوقت سیاسی لیڈروں کے سیاسی قبیلہ بدلنے کے بعد‘ جبکہ میاں برادران خود اختیاری جلاوطنی کے دور میں سعودی عرب میں اپنی نوزائیدہ معاشی ایمپائر کو ترقی دینے میں مصروف تھے‘ نواز لیگ کی بچی کھُچی سیاسی قیادت اور کارکنان نے اپنے رشتۂ وفاداری و اُستواری کو برقرار رکھا۔ مخدوم جاوید ہاشمی‘ ذوالفقار کھوسہ‘ غوث علی شاہ، راجا ظفر الحق اور دیگر کئی اس قافلۂ وفاداراں کے سرخیل ٹھہرے۔ مشرف کے تمام تر استبدادی ہتھکنڈوں کے باوجود مسلم لیگ نواز نے 2003ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی بیس سے زائد نشستوں پر کامیابی سمیٹی۔ اگرچہ ان میں سے بعد ازاں کچھ نے نواز لیگ کو ڈوبتا جہاز گمان کر کے ق لیگی بیڑے میں چھلانگ لگا دی۔ مگر وفاداروں کے باعث نواز لیگ اپنے سیاسی وجود اور ساکھ کو ملیامیٹ ہونے سے بچانے میں کامیاب رہی۔اس دور میں جاوید ہاشمی اور دیگر قائدین و کارکنان نہ صرف زیرِ عتاب رہے بلکہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

شریف برادران وکلاء اور نواز لیگی کارکنوں کی محنت سے کھڑی کی گئی تحریک کا ثمر سمیٹنے کے لیے 2008ء کے الیکشن سے قبل پاکستان آن دھمکے۔2008ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز کو اس کی توقع سے کہیں زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں۔ یہاں تک کہ وہ پنجاب میں بھی اکثریتی پارٹی کے طور پر اُبھر کر صوبائی حکومت کی تشکیل کے مرحلے میں کامیاب و کامران ٹھہری۔ یہ کامیابی درحقیقت لیڈر شپ کی نہیں بلکہ کارکنوں کی استقامت اور محنت کا شاخسانہ تھی۔ اور پھر اس کے بعد وہی ہوا جو شریف برادران کا وطیرہ ہے۔ اقتدار کی چُوری کی دعوت میں شریف برادران نے صرف اپنے خاندان‘ برادری کے زیادہ تر لوگوں کو شریک کیا بلکہ کئی ایسے لوگوں کو بھی اپنی جماعت میں جگہ دی جو مشرف دور میں ہمہ دم شریف اینڈ کمپنی پر سیاسی تبرّے اور لعن طعن کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ مگر کارکنوں کی کیا مجال کہ وہ مغل شہنشاہوں کے آگے دم مار سکیں‘ مؤدبانہ لفظوں میں بھی احتجاجی فریاد بُلند کر سکیں۔ یہ بیچارے تو کسی بیگار کیمپ کے مجبور و مقید ’’کامے‘‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ 2008ء کے الیکشن میں چند ہی سیاسی کارکن ہوں گے جنہیں اُن کی خدمات کے اعتراف میں ٹکٹوں سے نوازا گیا۔ وہ بھی اُن مقامات پر جہاں پر کوئی بااثر سیاسی شخصیت ن لیگ کے ٹکٹ پر کھڑی ہونے کو تیار نہ تھی۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل تو انتہا ہی ہو گئی۔ نوا زلیگ‘ لوٹا لیگ کی صورت اختیار کر گئی۔ انتخابات میں بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کی خاطر تمام تر سیاسی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ Electables کے نام پر تمام سیاسی جماعتوں کا گندآستانۂ شریفیہ میں ’’جوق در جوق‘‘ بیعتِ شریفاں سے فیضیاب ہوا۔ کئی دہائیوں سے پارٹی کی بنیادوں کی مضبوطی میں اپنے لہو پسینے کا گارا شامل کرنے والے کارکن اور نچلی و درمیانے درجے کی سیاسی قیادت منہ تکتی رہ گئی۔ اشرافیہ جیت گئی‘ کارکن ہار گئے۔ جاوید ہاشمی، سرانجام خان، غوث علی شاہ اور ذوالفقار کھوسہ جیسے وفا شعار لیڈروں کو بھی سائیڈ لائن کر دیا گیا اورکیا بھی کیوں نہ جاتا؟ شریف برادران کی حد درجہ حاسد طبیعت 2008ء کے انتخابات میں جاوید ہاشمی کی بیک وقت قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر کامیابی کو سہار نہ سکی۔ انہیں تو سیاسی خوشامدی اور بُوٹ پالشیئے چاہیے ہوتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کی بڑھتی سیاسی مقبولیت کو انہوں نے اپنی ذات کی توہین خیال کیا۔ ان کی مقبولیت سے خائف ہو کر ان سے صلاح و مشاورت کا عمل ترک کر دیا گیا۔ آخر کئی دہائیوں سے جماعت سے جُڑے ہاشمی کو نواز لیگ کو الوداع کہنا پڑا۔  اس وقت پانامہ لیکس اور عدالتی کارروائی پر حکومتی دفاع میں صفِ اول میں کھڑے بہت سارے نواز لیگی پارلیمنٹیرینز درحقیقت اپنے قائدین کے تضحیک آمیز رویئے سے انتہائی نالاں ہیں اور حکومتی وکالت کا فریضہ باامر مجبوری نبھا رہے ہیں۔ قارئین کے لیے یہ بات ہضم کرنا اس وقت شاید مشکل ہو گی مگر حقیقت یہی ہے کہ 2018ء کے الیکشن سے قبل بیشتر حکومتی ترجمان ہیوی ویٹس دوسری جماعتوں کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہوئے اپنی سابقہ جماعت کے خلاف صف آراء ہوں گے۔اس وقت ان کی خاموشی کی ایک وجہ ان کا یہ خوف ہے کہ اگر اب انہوں نے ذرا سی بھی باغیانہ روش اختیار کی تو حکومت ان کے خلاف نیب میں مختلف ریفرنسز کھول دے گی۔ شریف برادران طاقت اور اقتدار کے نشے کے زعم میں یہ بات بھُلا چُکے ہیں کہ وہ پیکرِ استقامت اور فلک بلند حوصلے والے افراد جو کئی دہائیوں تک پارٹی کو پیش آنے والے سیاسی طوفانوں کے آگے سینہ سپر رہے، جنہوں نے ہر دورِ ابتلاء میں پارٹی کے وجود کو زندہ رکھا ، وہ اب پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں اور جو باقی بچے ہیں وہ بھی عنقریب پارٹی کو داغِ مفارقت دینے والے ہیں۔ اپنی سیاسی شہنشاہیت کو اپنی اولاد میں منتقل کرنے کی اندھی خواہش کی تکمیل کی خاطرایک منصوبہ بندی کے تحت پُرانے کارکنوں کو سائیڈ لائن کر کے پارٹی میں ’’نیا خون‘‘ لانے کا شوشہ چھوڑا گیا۔ یہ نیا خون کسی متوسط طبقے سے نہیں، بلکہ ان کے ہی گھر سے ظاہر ہوا ہے۔ یہ ہے ان کی پُرانے چہروں سے نئے چہروں کی تبدیلی کا عمل۔  نظریاتی کارکن اب ان کی اصلیت جان چُکے ہیں اور مستقبل قریب و بعید میں ان کے دھوکے میں آنے کو تیار نہیں ہیں۔ دانیال عزیز‘ ماروی میمن‘ طلال چودھری اور ان جیسے دیگر لوگ تو پھل کھانے والے طوطے ہیں جوں ہی شجرِ شریفیہ کے پھل مُرجھانے لگے‘ یہ پھُر سے اُڑ کر کسی دوسرے سیاسی درخت پر آشیانہ تلاش کر لیں گے اور ماضی کی طرح ان کے پاس کوئی مخلص لیڈر اور کارکن ان کی سیاسی ایمپائر کو بچانے کے لیے موجود نہیں ہوگا۔بلاشبہ ان کے تکبرو غرور اور سیاسی مفاد پرستی کا یقینا یہی منطقی انجام دکھائی دے رہا ہے۔

23 march 2017 mozang chungi ,lahore pakistan

Tuesday, March 21, 2017

پانامہ لیکس اور نواز شریف کا سیاسی مستقبل.................نوشاد حمید کا زہریلا سچ


پانامہ لیکس کی عدالتی کارروائی اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔ آج یا کل میں اس حوالے سے تفصیلی فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ فیصلہ جو بھی آئے اس سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف کا پانامہ لیکس کے بعد حکمرانی کا کوئی اخلاقی اور آئینی جواز باقی رہتا ہے اور وہ بھی جب اُن اور اُن کے خاندان پر لگائے جانے والے کرپشن کے سنگین نوعیت کے الزامات کا مؤثر اور تسلّی بخش جواب پارلیمنٹ، میڈیا اوردیگر فورمز پر دینے میں پُوری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ پچھلے چند ماہ کے دوران حکومتی حاشیہ برداروں اور خود نواز شریف اور پھر ان کے بچوں کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو تضادات کا ایک انبار نظر آتا ہے۔ ایک ملکیت سرے سے انکاری ہے تو دوسرا ببانگِ دُہل اُسی ملکیت کو 90کی دہائی سے Own کرنے کی بات کرتا ہے۔ کس قدر شرمناک صورتِ حال ہے کہ مُلک کا وزیر اعظم چند ماہ پہلے پانامہ لیکس کے حوالے سے پارلیمنٹ میں کیے گئے خطاب کے متن پر قابلِ گرفت آنے پر اسے محض ایک ’’سیاسی بیان‘‘ قرار دے کر خود کو ہدفِ تنقید بننے سے بچانے کی ناکام اور بھونڈی کوشش کرے۔ اسے دروغ گوئی پر محمول کیا جائے یا بچائو کی سیاست کا نام دے کر ٹال دیا جائے۔ کیا عدالتی اور پارلیمانی فورمز پر دیئے گئے بیانات میں خوفناک تضاد پر وزیر اعظم قابلِ مواخذہ نہیں ٹھہرتا؟ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ شہباز شریف اینڈ کمپنی اس بحرانی صورتِ حال میں کچھ زیادہ جارحانہ موڈ میں نظر نہیں آ ئی۔سوائے چند ایک ڈنگ ٹپائو قسم کے بیانات کے اُنہوں نے اس معاملہ پر پُراسرار چُپ سادھے رکھی۔ 
نواز شریف فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار پر قابض ہوئے۔ اُن کی سیاسی اور انتظامی اہلیت (نااہلیت) سب کے سامنے ہے۔ عوام کو اپنے لیڈر کی ذات سے جو توقعات اور کرپشن فری امیج درکار ہوتا ہے، نواز شریف کبھی بھی اُس کسوٹی پر پُورا اُترتے دکھائی نہیں دیئے ۔  چاہیے تو یہ تھا کہ نواز شریف اس حقیقت کو تسلیم کر کے کہ اُن کے پاس حکمرانی کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا، اقتدار اپنی پارٹی کے کسی دوسرے فرد  کو سونپ دیتے مگر اقتدار تو جمہوری لیڈر چھوڑتے ہیں، شہنشاہ اور آمر اقتدار سے رضاکارانہ طور پر کبھی بھی علیحدگی اختیار نہیں کرتے، جب تک اُن سے زیادہ مقتدر ادارہ یا عوامی طاقت اُن پر عذاب بن کر نہ ٹوٹ پرے۔ شاید نواز شریف خود کو ایسی ہی صورت حال میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ 
  شریف برادران کو احساس ہونا چاہیے کہ وقت بدل چکا ہے۔بدقسمتی سے سیاست میں اتنا عرصہ گزارنے کے باوجود بھی نواز شریف تاریخ سے کچھ سیکھنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ انہوں نے اپنے ساتھ ایسے لوگوں کو رکھا جو مشرفی آمریت کے فیوض و برکات کو سمیٹتے رہے، مسلم لیگ نواز پر سیاسی تبرّوں اور طعن و تشنیع کے تیر برساتے رہے، نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے، آج اُن میں سے بیشتر لوگ نواز شریف صاحب کے ’’مشیرِ خاص‘‘ بنے بیٹھے ہیں۔ آمر کے جوتے چاٹنے والے آج مسلم لیگ کی کشتی میں سوراخ کر کے اسے جلد از جلد ڈبونے کے ایجنڈے پر کارفرما ہیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ نواز شریف کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی اپنی ذات کے حوالے سے نرگسیت سے بھر پور سوچ ہے،وہ صرف انہی لوگوں میں گھِرے رہنا پسند کرتے ہیں جو اُن کے جائز و ناجائز اقدامات کے حوالے سے رطب اللسان رہیں۔ ماضی میں اسی قبیل کے موقع پرست اور عاقبت نااندیش مشیروں (کچن کیبنٹ) نے نواز شریف کے اقتدار کی نیّا ڈبونے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
آج پھر مسلم لیگ نواز کئی بحرانوں سے دوچار ہے اگرچہ قطری شہزادے کے خطوط کی صورت میں بروقت پہنچنے والی ’’غیبی امداد‘‘ نے عدالت میں شریف فیملی کی وقتی طور پر ساکھ ضرور بچا لی مگر اس خط کی صورت میں سوالات اور شکوک و شبہات کا ایک نیا پنڈورا باکس کھُل گیا اور عدالت نے مزید نئے سوال کھڑے کر دیئے۔حکومتی وکیلوں نے سر توڑ کوشش کی کہ بار ثبوت کی فراہمی کا معاملہ کسی طرح مخالف مُدعی پر پھینک کر کیس کو اُلجھا دیا جائے۔ مگر معاملہ حل نہ ہوا۔ یہاں تک کہ دو سابقہ چیف جسٹس صاحبان، افتخار چودھری اور جسٹس سجاد علی شاہ اور کئی معتبر وکلاء نے بھی رائے دی کہ بار ثبوت نواز شریف پر ہے۔بدقسمتی ہے کہ عوام کے اربوں روپے لُوٹنے والے حکومتی لیڈران کی ذاتی کرپشن کے انبار تلے نہ صرف پوری جماعت بلکہ تمام انتظامی اور احتسابی ادارے دب کر انتہائی تباہ حال انجام سے دو چار نظر آ رہے ہیں۔مُلک ان کی کرپشن کا بار خود پر مزید برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نواز شریف نے خود کو بچانے کی کوشش میں تمام اداروں کی ساکھ دبائو پر لگا دی ہے۔ جس کے منفی اثرات مستقبل میں جا کر ظاہر ہوں گے۔  
قارئین اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ موجودہ حکومت نے ایل این جی کا ٹھیکہ قطر سے حاصل کیا ہے اس ٹھیکے کی شفافیت پر بھی بہت سے سوالیہ نشان ہیں اور اب جبکہ میاں نواز شریف کی سیاست کی کشتی پانامہ لیکس کے منجدھار میں ہچکولے کھا رہی ہے،ایسے آڑے وقت میں قطر کے شاہی خاندان کا مدد کو آنا بہت معنی خیز ہے۔یہ بات بھی غور طلب ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے زیادہ تر سمجھوتے تُرکی اور چین کی کمپنیز کے ساتھ کیے ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھُپی نہیں کہ دُنیا بھر میں معاشی ڈیلز پر انڈر دی ٹیبل کمیشن کے حوالے سے تُرکی اور چین کی کمپنیاں خاصی بدنام خیال کی جاتی ہیں۔ان ممالک کے سرکردہ لیڈران بھی بہت سی کمپنیز چلا رہے ہیں۔ تُرکی کے سربراہ رجب طیب اُردگان کے ساتھ بھی شریف فیملی کے نجی نوعیت کے تعلقات ہیں۔ بلاشبہ اب یہ معاملہ کرپشن کے ایک بین الاقوامی گٹھ جوڑ کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔اب میٹرو بس، گوادر پورٹ، اورنج ٹرین منصوبہ، موٹر وے ایکسٹنشن اور دیگر منصوبے کرپشن کے کیچڑ میں لتھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ اورنج ٹرین منصوبہ بھی چین کی ایک چھوٹی سی قصباتی کمپنی کو دیا گیا ہے جس کا میگا پراجیکٹس پر کام کرنے کا کوئی تجربہ اور اہلیت نہیں ہے۔ معاملہ اس قدر گھمبیر ہے کہ مستقبل میں اگر کوئی دوسری جماعت بر سراقتدار آئی اوراُس نے وسیع پیمانے پر ان منصوبوں کی تحقیقات کرائیں تو بہت سارے ممالک اور ان کے قد آور لیڈروں کے ساتھ تعلقات میں خوفناک بگاڑ پاکستان کے لیے سفارتی اور معاشی محاذوں پر ضرر رساں ثابت ہو سکتا ہے۔ بات یہیں تک محدود نہیں ہے، اس وقت جو بھی جماعت یا افراد اُن کے سیاسی اقتدار کے ڈوبتے ٹائی ٹینک میں پیدا ہونے والے شگافوں کو غیر منطقی اور غیر آئینی و سیاسی تاویلات اور ترجمانی سے بھرنے میں مصروف ہیں، آئندہ الیکشنز میں عوامی غیظ و غضب کے سیلِ بے پناہ میں غرقابی اُن کا بھی مقدر ٹھہرے گی۔ 
وزیر اعظم کو اب نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے ۔ 
’’جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا کہ شام گیا‘‘
    پاکستان کی موجودہ عوام سیاسی لحاظ سے بہت بالغ اور باشعور ہے۔ اسے 90ء کی دہائی والی اندھی تقلید کی لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت بھی عوامی اُمنگوں اور خواہشات پر پُورا نہ اُترنے کے سبب عوام کی بڑی اکثریت کی حمایت سے محروم  چکی۔اگر نواز شریف  اقتدار سے رضاکارانہ طور پر علیحدگی اختیار کر لیں اور اپنی جماعت کے کسی اہل فرد کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کر دیں تو اُن کا یہ اپنی جماعت کے کارکنوں اور لیڈروں پر بہت بڑا احسان ہوگا۔ وزیر اعظم صاحب !آپ اپنی جماعت  کے وجود کو اپنی ذات کی خاطر نیستی و نابودی کے دائو پر نہ لگائیں۔ ابھی تو آپ کی جگ ہنسائی کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اور جس راہ پرآپ گامزن ہیں، اس راہ میں شرمندگی و رسوائی کے کئی سنگِ میل باقی ہیں۔

2014.Nov.27: Ubqari: Jado Kiya-Kiun aur Kaisay

Ramesha baby child talking

Sunday, March 19, 2017

Chameleon change his colour,Girgt kay rang

An outstanding backflip,gymnastic

A Naughty Child

Amazing new technology

amazing lights

Stealing of Cow

water and Fire,,two opposite in one way

Irony of Fate

Think of the Blessings

Bad moment but funny

good dogs

Help others ,you will be helped

Saturday, March 18, 2017

child cry

beaware of dog,,,,,,,,,,,,,funnny

one weeler,byke

cat highfive

goat reaction,funny

Horriable Facts about nonpure milk

Help is good but discourage professional begging

wit of a women

wrestling of blood

Bird Trap

A little orator,bachay ki khubsorat taqreer

Help is good but discourage professional begging

dont try michal jackson dance in home

Trump vs child

Thursday, March 16, 2017

cricket ,umpire hit by batsman

monkey show

cat n rat

marriage disappointment

Moti masjid shahi qila may shooting ,,shameful act..should be banned

Beautiful Qirat of Quran amazing

Importance of books with poetic style

New Technology for roads

Fountain show amazing

bad incident,never give Pistol to children

A horrified accident

Amazing Talent

amazing

Facts about cancer,a reality

Talent from Sargodah

race in the desert

great Talent

New techknology for eye patient

Sunday, March 12, 2017

Cute Ayat Zahra First walk Shujaat ,Daughter

Thug Thug Thug beaware of Thug

Rain in Kaba,Makkah

tricks on bycycle amazing

The Hotel Roosevelt,newYork Owned By PIA

old ptv commercials........amazing

Mere ulfat Madinay day,,,,Naat by Cute girl

Google Main office amazing

Bed for deep sleepers

Shayan learning in school

Cute Shayan in schoool

Danial Aziz insulting Ishaq Daar and N league

Ya Rabbi Mosa Ya Rabbi Kaleem Parhne ka Faida Ubqari Online

Tuesday, March 7, 2017

Hindu Aamil Aur Afahasibtum K Karishmat Hakeem Tariq Mehmmod

Khas Ul Khas Zikar Wazifa Hakeem Tariq Mehmood

Nothing is impossible With God - Ubqari Wazifa

40 Hazar Surah Ikhlas Hakeem Tariq Mehmood

2015.Apr.23: Ubqari: Alam-Nashrah ka Mojzaat

Surah Alam Nashrah K Mojzaat ( Part 01 ) | Hakeem Tariq Mehmood | Ubqari...

Surah Al Zuha ka Amal Hakeem Tariq Mehmood Chughati

Ya Maneo - Hakeem Tariq Mehmood Ubqari

Ya Maneo - Hakeem Tariq Mehmood Ubqari

Wazifa Chawal Per Allahu Samad Hakeem Tariq Mehmood

Afahasibtum Ka Wazifa Hakeem Tariq Mehmmod Ubqari

Akhri 6 Surton Wala Amal || Hakeem Tariq Mehmood Ubqari ||

Aakhri 6 Surten Buhat C Preshanion ka Asan Hal - Ubqari

Ya Rabbi Mosa Ya Rabbi Kaleem Parhne ka Faida Ubqari Online

Saturday, March 4, 2017

زہریلا سچ گُلو بٹ کلچر…… کچھ چشم کُشا حقائق .................... نوشاد حمید

       


17 جُون 2014ء کوماڈل ٹائون لاہور میں ایک انسانیت کُش واقعہ رونما ہوا۔ جس نے پُورے پاکستان کو ہلا کے رکھ 
دِیا۔ ریاستی دہشت گردی کا یہ’’ اچھوتا‘‘ واقعہ چودہ معصوم اور نہتے لوگوں کے پولیس کے ہاتھوں درد ناک قتلِ عام پر منتج ہوا۔ اس کے علاوہ سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس وحشیانہ اور بہیمانہ کارروائی کے دوران کیمرے کی آنکھ نے ایک شخص کی جانب سے پولیس کو عوامی تحریک کے لوگوں پر حملے کے لیے اُکساتے ہوئے دیکھااور وہ خود بھی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ میں لگا رہا۔ میڈیا کے واویلا مچانے پر گُلو بٹ نامی یہ شخص گرفتار ہوا اور بالآخر اسے دہشت گردی کی دفعات کے تحت گیارہ سال تین ماہ قید کے علاوہ ایک لاکھ تین ہزار رُوپے جرمانے کی سزا بھی سُنائی گئی۔ لیکن یہ شخص تو متشددانہ سیاست کا ایک چھوٹا سا کِل پُرزہ ہے ، ایسے لوگوںکی باگیں سنبھالنے والے لوگ تو پسِ پردہ ہی رہتے ہیں۔ کچھ دِن قبل اس گُلو بٹ کو سزا پُوری ہونے سے قبل ہی رہا کروا لیا گیا۔ جس سے یہ خوفناک تاثر اُبھر کر سامنے آیا ہے کہ یہ سیاسی غنڈے جو مرضی کرتے پھریں، قانون اور ریاست اُن کے آگے بڑی حد تک بے بس ہوتے ہیں۔
ماڈل ٹائون واقعے کے بعدپاکستانی سیاست میں گُلو بٹ کا کردار متعارف ہوا اور برسراقتدار جماعت کی فسطائی سوچ کی علامت بن کر اُبھرا ہے۔ گُلو بٹ ایک شخص کا نہیں درحقیقت ایک متشدد سیاسی رویئے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو سیاسی مخالفین کو تشدد اور دبائو کے ذریعے کُچلنے پر یقین رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے اپنے عسکری ونگز بنا رکھے ہیں۔ اس حوالے سے سرفہرست جماعت ایم کیو ایم رہی ہے۔ اس جماعت نے بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، مخالفین کو موت کے گھاٹ اُتارنے، پولنگ سٹیشنز میں گھُس کر بیلٹ باکسز چھیننے، اپنی جماعت کے اُمیدوار کے ووٹوں پر ٹھپے لگا نے کا کام بڑے ’’احسن‘‘ طریقے سے سرانجام دیا۔ اس جماعت کے پاس ہزاروں کی تعداد میں منظم ’’گُلو‘‘ موجود تھے۔ جو اپنے قائد کے ایک اشارۂ ابرو پر کراچی کو منٹوں میں بند کروا دیتے تھے۔ کراچی کے ہزاروں معصوم عوام کا خون انہی کے ہاتھوں بہا ہے۔ یہاں تک کہ مشرف کے دور میں کراچی کے ضلعی محکموں میں بھی ہزاروں کی تعداد میں ان پُرتشدد کارکنوں کو بھرتی کروایا گیا۔ یہ ملازم حقیقتاً ’’گھوسٹ ملازمین‘‘ تھے۔ انہیں گھر بیٹھے تنخواہیں مِل جاتی تھیںاور بدلے میں ان سے غیر قانونی اور پُرتشدد کام کروائے جاتے تھے۔ 
مگر یہ سارا عمل ایم کیو ایم تک محدود نہیں ہے، بلکہ مُلک کی دُوسری پارٹیاں بھی اس میں ملوث ہیں۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنے عسکری ونگز بنا رکھے ہیں جن میں گُلو بٹ ٹائپ کے لوگ بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں۔ موجودہ برسراقتدار حکمران جماعت کا دامن بھی انہی تمام گھنائونی حرکات سے آلودہ ہے، جو ایم کیو ایم سے مخصوص تھیں۔ نوے کی دہائی میں سٹوڈنٹس پالیٹکس میں دخل دے کر یوتھ ورکروں کے نام پر گُلو بٹوں کی ایک کثیر فوج تیار کی گئی۔ ان سے ہنگامہ آرائی اور جلائو گھیرائو کا کام بڑے احسن طریقے سے لیا گیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ نواز نے اُس وقت کے مشہور غنڈوں کو بھی اپنے مطلب کے لیے خوب استعمال کیا مگر جب ان غنڈوں کے سیاہ کارنامے خبروں کی زینت بننے لگے تو اپنے ہی پروردہ ان غنڈوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مروا دیا گیا۔ اگر ان غنڈوں کا عدالتی ٹرائل ہو جاتا اور انہیں وعدہ معاف گواہ بنا لیا جاتا تو یقین جانیئے کہ بہت سی نامور اور اعلیٰ سیاسی شخصیات کا کیریئر اپنے انجام کو پہنچ جاتا۔ اسی وجہ سے ان کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔اس لحاظ سے پولیس نے بھی ان کے لیے گُلو بٹ کا ہی کردارادا کیا۔ پنجاب پولیس میں آئی جی سے لے کر ایس ایچ او تک ہر عہدے پر وہی بندہ تعینات کیا جاتا ہے جو حکومتی احکامات کی تعمیل میں ذرا بھی چُوں چرا نہ کرے۔ سیاسی مخالفین کو رگڑا لگانا ہو، کسی کی کروڑوں اربوں روپے کی مالیت کی جائیداد ہتھیانی ہو، اپنی سرپرستی تلے کام کر رہے قبضہ مافیا کو تحفظ دینا ہو، الیکشنز میں جعلی ووٹ بھُگتانے ہوں، مخالف اُمیدواروں کو ہراساں کرنا ہو غرضیکہ اسی نوعیت کے درجنوں کارہائے سیاہ بِلا واسطہ یا بالواسطہ پولیس کے ہاتھوں ہی انجام پاتے ہیں۔ 
   ایک طرف تو عالم یہ ہے کہ نواز لیگ کی موجودہ حکومت میں شامل بیشتر ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی نجی محفلوں میں گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اُن کی اپنی اعلیٰ سیاسی قیادت سے مہینوں کیا سالوں تک ملاقات نہیں ہو پاتی۔ بڑی منتوں اور سفارشوں کے بعد کسی خوش نصیب ارکانِ پارلیمنٹ کو ’’بادشاہ سلامت‘‘ کے دربارِ عالیہ تک رسائی نصیب ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ان گُلو بٹوں کے ساتھ اعلیٰ سیاسی شخصیات براہِ راست رابطے میں ہوتی ہیں۔ یہ گُلو بٹ جو مرضی کرتے پھریں، انتظامیہ یا ارکانِ پارلیمنٹ میں سے کسی کی مجال نہیں کہ ان کی سرزنش یا سرکوبی کر سکے۔ بلکہ کئی ارکانِ اسمبلی تو اپنے مطالبات منوانے یا کام پُورے کروانے کے لیے ان گُلو بٹوں کو سفارش کنندہ بنانے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔  پولیس، ضلعی و صوبائی انتظامیہ ان کے اشاروں پر چلتی ہے۔سب سے خوفناک پہلو تو یہ ہے کہ بہت سے گُلو بٹ کالعدم تنظیموں سے جُڑے ہیں اور فرقہ ورانہ تشدد کے واقعات میں ملوث ہیں مگر چونکہ ان کا علاقے میں اثر و رسوخ ہوتا ہے اور یہ الیکشن کے موقع پر انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی بھرپور ’’صلاحیت‘‘ رکھتے ہیں، اس وجہ سے انہیں کھُل کھیلنے کی پُوری آزادی ہے۔ نوبت ایں جا رسید کہ ایسے فرقہ پرست گلوئوں کی ’’گراں قدر مُلکی و قومی خدمات‘‘ کے صلے میں اُنہیں صوبائی اور قومی اسمبلی کے الیکشنز میں ٹکٹ دے کر اسمبلی میں براجمان کیا جا چکا ہے۔ حکمران جماعت تمام محکموں میں گلوئوں کی افزائش میں ’’کامیاب‘‘ نظر آتی ہے۔
عوام کے ساتھ سب سے بڑا ستم بھی تو یہ ہے کہ ان مطلق جاہل اور بدتہذیب گلوئوں کو برسراقتدار حکمرانوں کی جانب سے مختلف محکموں میں کھپایا جاتا ہے۔ سالہا سال یہ بغیر کسی عوامی خدمت کے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں اور بدلے میں حکمرانوں کے غیر آئینی و غیر اخلاقی سیاسی و ذاتی مفادات کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں۔ اس قماش کے لوگوں کی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ کئی اپنی ملازمتوں سے ریٹائر ہو چکے ہیں مگر اب تک سرکاری رہائش گاہوں پر قابض رہ کر کئی حقداروں کی حق تلفی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ 
نواز شریف کے دوسرے دورِ اقتدار میں حکومت کی عدلیہ کے ساتھ اختیارات کے معاملے پر ایک رسہ کشی شروع ہوئی۔ اُس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ہٹانے اور اُن کی کردار کُشی کے لیے ہر حربہ آزمایا گیا۔ اور جب بات بنتی نظر نہ آئی تو انہی گُلو بٹوں کے ذریعے سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا گیا۔ چیف جسٹس بمشکل ان سیاسی غنڈوں کے ہاتھوں اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے اور انہیں جب اندازہ ہو گیا کہ عدلیہ سیاسی غنڈوں کے ہاتھوں کس حد تک بے بس اور یرغمال ہو چکی ہے تو انہوں نے کنارہ کرنے میں ہی عافیت جانی۔
لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دُہرانے کو ہے۔ پاناما کیس اپنے منطقی انجام کی طرف تیزی سے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکمران خاندان کے سیاسی اقتدار کی نیّا ڈُوبنے کے قریب ہے۔ منی ٹریل کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت مہیا نہ کرنے پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ حکمران اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ان کے رویوں میں تلخی اور سختی بڑھتی جا رہی ہے اور ہر مقدس ادارے کی پامالی کا واضح اشارہ دیا جا رہا ہے۔ حالیہ دِنوں قومی اسمبلی میں بھی حکومتی ارکان نے پانامہ لیکس کے معاملے پر انتہائی جارحانہ انداز اپنایا اور بات ہاتھا پائی اور گالم گلوچ تک جا پہنچی۔ حالانکہ اپوزیشن کا مطالبہ یہی ہے کہ نواز شریف ایوان میں تشریف لا کر وضاحت کریں کہ اُن کا اسمبلی میں منی ٹریل کے حوالے سے دیا گیا بیان درست ہے یا پھر عدالت میں اُن کے وکیل کی جانب سے اپنایا گیا موقف۔ بظاہر تو نواز شریف خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کے دعوے کر رہے ہیں اور اپوزیشن بھی عدالتی فیصلے کو ماننے کی باتیں کر رہی ہے مگر حقیقت میں دونوں فریقین کے بیانات اور رویوں میں واضح تضاد نظر آ رہا ہے۔ صورتِ حال بہت واضح ہو چکی ہے۔ بازی اپنے ہاتھوں سے نکلتے دیکھ کر حکومت نے عدلیہ کو متنازعہ بنانے اور اس کی تضحیک و توہین کا ارادہ بنا لیا ہے۔ اس بات کا واضح امکان ہے کہ ایک دفعہ پھر ’’عوامی غیظ و غضب کے سیلاب‘‘ کے نام پر حکومت کے پروردہ گُلو بٹوں کو سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کے لیے تیار رہنے کا اشارہ مِل چُکا ہے۔گُلو بٹ کی رہائی مسلم لیگی کارکنوں کو اعلیٰ قیادت کی جانب سے اس بات کا پیغام ہے کہ وہ کھُل کھُلا کر حکومتی اشاروں پر متشدد کارروائی کریں، حکومت اُنہیں گُلو بٹ کی طرح ہر ممکن قانونی معاونت اور تحفظ بھی فراہم کرے گی۔ لگتا ہے کہ حکومت اس بات کے لیے بھی تیار ہے کہ سیاسی طور پر اتنی بے چینی اور ابتری کا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ والی صورتِ حال پیدا ہو جائے۔ اگر اقتدار نواز لیگ کے پاس نہیں رہتا تو کسی اور سیاسی جماعت کے لیے بھی مستقبل میں حکومت بنانے کا امکان نہ رہے۔ موجودہ سیاسی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے عدلیہ کو بھی اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے محتاط رہنا ہو گااور ناکافی سیکیورٹی انتظامات کو بڑھانے کے لیے پولیس کی بجائے کسی اور مُلکی سیکیورٹی کے ادارے سے مدد مانگ کر وہاں پر زیادہ نفری تعینات کروانی ہو گی۔ کیونکہ آج مُلک کی سیاسی تاریخ ایک انتہائی فیصلہ کُن موڑ پر کھڑی ہے۔ ماضی میں عدلیہ کو اُس کے فیصلوں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یقیناً آج ایک آزاد اور انصاف پسند عدلیہ کام کر رہی ہے جو کسی سیاسی دبائو کے اثر سے آزاد ہو کر ایسا فیصلہ کرے گی جس سے مُلک میں انصاف کا بول بالا ممکن بنانے میں بہت کامیابی حاصل ہو گی۔

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...