Sunday, September 26, 2021

ہمیں ہر کام ریڈی میڈ چاہیے


جس طرح گھریلو کھانوں کی جگہ فاسٹ فوڈز نے لے رکھی ہے اسی طرح عبادات اور تلاوت کلام پاک کی جگہ مختصر آرام دہ وظائف نے لے رکھی ہے ۔ 

ہمارے بچے کہنا نہیں مانتے ۔۔۔

کاروبار میں برکت نہیں ہے ۔۔۔

گھر میں جو پیسہ آتا ہے سمجھ نہیں آتی کہاں جاتا ہے

اولاد ضدی ہو گئ ہے

گھر میں آئے روز کوئی نا کوئی بیمار ہو رہا ہے۔۔

کوئی نا کوئی پریشانی آجاتی ہے ۔۔

جس کام میں ہاتھ ڈالو وہیں رکاوٹ ۔۔۔

کام بنتے بنتے رہ جاتے ہیں ۔۔۔

ناجانے بیسیوں مسائل ہر گھر میں موجود ہیں ۔۔ 

اور ان کے اسباب بھی ہمارے آس پاس ہی ہیں لیکن ہم انہیں سیریس نہیں لیتے یا پھر انہیں اسباب ہی نہیں سمجھتے ۔ 

مثال کے طور پر بنکوں سے قرضے لینا ۔

اوپر ( رشوت ) کی کمائی کھانا

ایک دوسرے کی ترقی دیکھ کر حسد اور دعا دئے بغیر جھوٹی تعریف کرنا ( نظر لگنے کا سبب )

نماز نا پڑھنے کی نحوست ہمارے گھروں میں ہمارے کاروبار میں ۔۔۔

ہفتوں قرآن نا کھولنا۔۔۔

یہ سارے اسباب ہیں ان پریشانیوں کے جو آئی روز ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں ۔۔ 

لیکن اس میں بھی ہمیں ریڈی میڈ وظیفہ چاہئے جس کا تعلق نا نماز سے ہو، نا سود سے روک تھام ہو، نا رشوت کی ممانعت سے لیس ہو ، نا ہی قرآن کھولنا پڑھے بس کوئی آسان سا وظیفہ مل جائے تو چار چاند لگ جائیں ۔ 

ایک دفعہ کسی صاحب کا فون آیا اور گھریلو مسائل بتا کر کہنے لگے کوئی وظیفہ بتائیں ۔ عرض کی میں کوئی پیر، عامل یا شیخ تو ہوں نہیں ہاں البتہ کہیں پڑھا تھا کہ سورہ بقرہ اول تا آخر اہتمام سے پڑھی جائے اور پھر دعا کی جائے تو اللہ کے حکم سے خیر ہوتی ہے ۔

وہ صاحب شاید دل ہی دل میں سورہ کوثر کیلئے کمر باند رہے تھے ، سورہ بقرہ کا نام سن کر گھبرا گئے اور کہا ان شاءاللہ میں پڑھوں گا ۔

دو دن بعد پھر کال آئی " کیا سورہ بقرہ ایک ہی دن پڑھنی ہے ؟

کیا ایک ہی آدمی نے پڑھی یا گھر کے سارے افراد پڑھ سکتے ہیں ؟

کیا صحن میں بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں ؟

اچھا یہ بتائیں اگر درمیان میں باتیں کر لیں تو کیا دوبارہ شروع سےپڑھنی پڑھے گی ؟؟( اس جیسے کئ توہمات)

عرض کیا جیسے بھی پڑھیں بس اللہ کا نام لیکر پڑھ لیں ایک بار مکمل ۔۔ 

پھر کچھ دن بعد کال آئی اور پھر سے سوالات ۔ مگر سورہ بقرہ وہیں کی وہیں کھڑی تھی ۔ 

( انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا ابھی تک ایک رکوع پڑھنے کی ہمت نا ہو سکی !! )

اور وہی ہوا جسکا ڈر تھا ۔ آخر میں فرمانے لگے " جناب اگر ممکن ہو تو آپ پڑھ دیں گے ہماری طرف سے ؟

گویا ریڈی میڈ موصوف پڑھوانا چاہ رہے تھے وہ بھی ہوم ڈلیوری 

مستنصر حسین تارڑ

کیرئیر سے متعلق معلومات

10 ویب سائٹس جو نوکری ڈھونڈنے کے لئے استعمال کی جا سکتی ہیں: 

1. Linkedin. com

2. Indeed. com

3. Naukri

4. Monster

5. JobBait

6. Careercloud

7. Dice

8. CareerBuilder

9. Rozee. pk

10. Glassdoor


10 skills جو آجکل کے دور میں ڈیمانڈ میں ہیں


1. Machine Learning

2. Mobile Development

3. SEO/SEM Marketing

4. Web development

5. Data Engineering

6. UI/UX Design

7. Cyber-security

8. Graphic designing

9. Blockchain

10. Digital marketing


11 ویب سائٹس جہاں آپ آن لائن تعلیم حاصل کر سکتے ہیں: 


1. Coursera

2. edX

3. Khan Academy

4. Udemy

5. iTunesU Free Courses

6. MIT OpenCourseWare

7. Stanford Online

8. Codecademy

9. ict it

10 ict iitk

11 NPTEL


10 ویب سائٹس جہاں آپ Excel فری سیکھ سکتے ہیں:


1. Microsoft Excel Help Center

2. Excel Exposure

3. Chandoo

4. Excel Central

5. Contextures

6. Excel Hero b.

7. Mr. Excel

8. Improve Your Excel

9. Excel Easy

10. Excel Jet


10 ویب سائٹس جہاں آپ اپنی CV مفت ریویو کروا سکتے ہیں:


1. Zety Resume Builder

2. Resumonk

3. Resume dot com

4. VisualCV

5. Cvmaker

6. ResumUP

7. Resume Genius

8. Resume builder

9. Resume Baking

10. Enhance


10 ویب سائٹس جہاں آپ انٹرویوز کی تیاری کر سکتے ہیں:


1. Ambitionbox

2. AceThelnterview

3. Geeksforgeeks

4. Leetcode

5. Gain

6. Careercup

7. Codercareer

8. interview

9. InterviewBest

10. Indiabix


5 ویب سائٹس جہاں آپ فری لانسنگ کی جاب کر سکتے ہیں:


1. Fiverr. com

2. Upwork. con

3. Guru. com

4. worksheet com

5. Freelancer . com


فری گرافک ڈیزائننگ کی ویب سائٹ:

1. Canva. com


خود نوشت۔۔ عجیب داستان کا ایک باب

 میری زندگی میں جن شخصیات نے بہت اہم کردار اداکیا ہےــ- میرے دوست میرے بھائی اور بانکے سجیلے شاعر سید محسن نقوی شہید اِن میں سرفہرست ہیں۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ان کے ساتھ بیس برس کی رفاقت کو کسی ایک مضمون میں سمیٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ان سے پہلے ملاقات 1973 میں مری کے انٹرنیشنل مشاعرے میں ہوئی جس میں بیرونِ ملک سے بھی کافی شعراء آئے ہوئے تھے۔ یہ مشاعرہ مری انتظامیہ نے ترتیب دیا تھا اور بصیر قریشی ایڈوکیٹ نے جو بعدازاں بڑے اہم عہدوں پر رہے اس کا اہتمام کیا تھا۔ میں ان دنوں لطیف کاشمیری کی لائبریری میں ہونے والے مری لٹریری سرکل کے مشاعروں میں بہت فعال تھا اور جدید طرز کی غزلیں لکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ خیر اس مشاعرے میں اپنی غزل پڑھ کر میں واپس آ رہا تھا کہ محسن نے ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ مشاعرے کے بعد ان کے ہوٹل کے کمرے میں چلے گئے اور تفصیلی تعارف ہوا۔ وہ ڈیرہ غازی خان کے رہنے والے تھے اور شاعری کے علاوہ ذاکری بھی کرتے تھے۔ بطور ذاکر ان کی بہت مانگ تھی۔ اس کے علاوہ وہ ایک بڑے صنعت کار بھی تھے۔ ان کی کاٹن جننگ فیکٹریاں تھیں۔

پھر ایک طویل وقفے کے بعد جب اگست 1976 میں لاہور آگیا تو ان سے ملنے ان کی رہائش نجف ریزہ 192 نشتر بلاک پہنچا۔ یہاں سے ایسا رشتہ ان سے استوار ہوا جو ان کی شہادت تک قائم رہا اور آج تک ہے۔

یادوں کا ایک سیلِ رواں ہے جو محسن نقوی کا نام لیتے ہی ذہن میں اُمڈ آتا ہے۔ 1977 میں ماورا کا دفتر میں 3 بہاولپور روڈ پر قائم کرچکا تھا۔ اہم شعراء کی کتب شائع ہو رہی تھیں کیا دفتر انکم ٹیکس کیا دفتر ماورا میں یہی کام کرتا تھا۔ ایسے میں محسن نقوی نے مجھے اپنے دوسرے شعری مجموعے برگِ صحرا کی اشاعت کا چیلنج دے دیا۔ چیلنج کا لفظ ہر مسودے کے ساتھ ان کا مخصوص لفظ تھا۔ خالد تمہیں چیلنج ہے یہ کتاب پہلے سے بہتر ہونی چاہیے۔ برگِ صحرا سے پہلے ان کا ایک شعری مجموعہ بندقبا کے نام سے ملتان سے شائع ہوچکا تھا مگر وہ اس کے معیارِ اشاعت سے مطمئن نہیں تھے۔

راولپنڈی میں ہماری کتابیں جنگ پریس گوال منڈی اور خورشید پرنٹرز اسلام آباد سے چھپتی تھیں۔ لاہور آیا تو غالباً سلطان رشک نے مجھے محمد طفیل نقوش صاحب سے متعارف کرا دیا اور میں نے ان سے کتابیں چھپوانا شروع کردیں۔ وہ اس نوعیت کا کام بہت کم کرتے تھے کیونکہ ان کے پاس پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اور رسالہ نقوش کے خاص و عام نمبروں کی اشاعت کا کافی رش ہوتا تھا۔ بہرحال مجھ پر محمد طفیل خصوصی شفقت فرماتے تھے سو برگِ صحرا کو نقوش پریس سے چھپوانے کا فیصلہ ہوا۔ کتابت کے لئے محمد حسین (شاہ) صاحب کا انتخاب ہوا۔ محمد حسین صاحب کو (شاہ) کا نام قاسمی صاحب نے ازراہ محبت دے رکھا تھا اور وہ اسے کتابوں کی پرنٹ لائن میں اسی طرح لکھتے تھے۔ محمد طفیل اور قاسمی صاحب کی تربیت کے باعث شاعری کی کتابت میں محمد حسین (شاہ) حرفِ آخر بن چکے تھے۔ فنون وہ کتابت کرتے تھے۔ پروین شاکر کی خوشبو احمد فراز کی درد آشوب کے پہلے ایڈیشن ان کے کتابت کردہ ہیں۔

برگِ صحرا کے سرورق کے لئے موجد صاحب سے رابطہ کیا گیا۔ میری خواہش تھی کہ کتاب کے اندرونی صفحات پر بھی کوئی ہلکا پھلکا ڈیزائن ہو۔ اسلم کمال سے بات ہوئی تو اس نے تین پتّوں پر مشتمل ایک ڈیزائن بنا دیا۔ دو پتّے سبز اور ایک زرد۔ یہ برگِ صحرا تھا۔

بشیر موجد صاحب نے بھی بہت خوبصورت سرورق بنایا۔ گراؤنڈ کا رنگ زرد تھا۔ اسے ہم نے ایمبوسڈ ایگ شیل 100 گرام آرٹ پیپر پر موجد صاحب کے پریس سے ہی چھپوایا۔ زردرنگ اور دانے دار کاغذ کی وجہ سے لگتا تھا کہ ریت بکھری ہوئی ہے۔ لیکن ابھی جلد سازی کا مرحلہ طے نہیں ہوا تھا۔ محسن اس کی بہت سپیشل جلد چاہتے تھے اور میں بھی۔ روٹین کے جلد ساز بہت تھے مگر ہم روٹین سے ہٹ کر کام کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں کسی نے ایک استاد جلد ساز کا نام بتایا لیکن ساتھ ہی کہا کہ وہ بڑے نخریلے بزرگ ہیں۔ صرف قرآن پاک کی جلد کرتے ہیں لیکن ان کا کام ایسا ہے کہ بندہ دیکھتا رہ جائے۔ میں نے نام اور پتہ لے لیا۔

اگلے روز انکم ٹیکس کا نوٹس ان کی دکان پر پہنچ گیا۔ وہ بزرگ ہانپتے کانپتے آئے۔ میں نے اندر بلا کر بٹھایا تسلّی دی۔ کہا نوٹس ہم واپس لے لیں گے۔ آپ یہ چھوٹا سا کام کر دیجئے۔ رقم آپ کو آپ کے حسبِ منشا ملے گی۔ انہوں نے حامی بھرلی اور واقعی برگِ صحرا کو تصویر بنا دیا۔

اس طرح کی کتابیں شاذ و نادر ہی چھپتی ہیں۔ اس کتاب کو نیشنل بک کونسل آف پاکستان نے سال رواں کی بہترین شائع شدہ کتاب کا ایوارڈ اور نقد انعام دیا۔ اس کے بعد محسن نقوی کی کتب مناسب وقفوں کے ساتھ شائع ہوتی رہیں۔

٭       ریزۂ حرف         1985

٭       عذابِ دید         1990

٭       طلوعِ اشک         1992

٭       رختِ شب         1994

٭       ردائے خواب         (مع غیرمطبوعہ قطعات)

٭       فراتِ فکر

ان کے ایک دوست رانا ریاض احمد بہت محبت سے منفرد انداز کے سرورق بناتے تھے۔ ہم نشتر بلاک ان کے گھر محافل میں شریک ہوتے۔ وہ ہمارے گھر کے فرد بن چکے تھے۔

جب ماورا کا دفتر مال روڈ پر منتقل ہوا تو اکثر ان کی شامیں ماورا پر گزرتیں۔ پانچ چھ بجے آجاتے اور ہم آٹھ نو بجے دفتر اور دکان بند کرنے کے بعد پی سی ہوٹل کی طرف نکلتے۔ وہاں سے واپسی کے راستے میں لبرٹی سے ہلکے چونے والے پان لئے جاتے پھر مجھے رچنا بلاک ڈراپ کرتے ہوئے وہ گھر چلے جاتے۔ میری بیوی کو دیوی بھابی کہتے۔ ایک بار عدنان نے چھ سال کی عمر میں انہیں کوئی ٹوٹا پھوٹا شعر سنایا تو کہنے لگے یار تم ہماری روزی پر کیوں لات مار رہے ہو۔

اکثر لوگوں کا تاثر یہ ہے کہ محسن نقوی بہت شراب پیتے تھے۔ شاید یہ تاثر ان کی مخمور آنکھوں کی وجہ سے قائم ہوا ہو۔ میں چونکہ ان کے بہت قریب رہا ہوں اس لئے پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ شراب نہیں پیتے تھے۔ میں نے کبھی ان کے گھر میں ام الخبائث کو نہیں دیکھا۔ البتہ بطور ذاکر اور شاعر ان کے عقیدت مندوں میں خواتین کی کثیر تعداد شامل تھی جن میں فلم کی کئی معروف اداکارائیں بھی تھیں۔

اکثر نئی کتاب شائع ہوتی تو اس کی پہلی رونمائی شوکت حسین رضوی کے گھر کرتے۔ ان کی بیگم زینت اہتمام کرتیں۔ قتیل صاحب کے ہاں بھی اکثر ہم اکٹھے جاتے۔ ہماری دوستی کے درمیان کبھی مسلک آڑے نہیں آیا۔ گیارہ محرم کی نیاز میں جب سینکڑوں ذاکر ان کے ہاں جمع ہوتے مجھے ہاتھ پکڑ کر اندر لے جاتے اور کہتے ’’ایہہ میرا سکّا بھرا اے‘‘ کبھی رائلٹی کا تقاضہ نہیں کیا۔ میں جو نذر کردیتا خاموشی سے رکھ لیتے اور دوستوں پر ہی خرچ کردیتے۔ ایک بار ڈیرہ غازی خان کے پتے پر چیک بھیجا تو جواباً خط آیا۔ خالد تمہارا بھیجا ہوا چیک والدہ کی خدمت میں پیش کردیا ہے۔ وہ تمہیں نماز پڑھ کر دعا دے رہی ہیں۔

ان کی کتاب طلوع اشک کے آخر میں ان کی نظم ’’خالد شریف کے لیے ایک ادھوری نظم‘‘ میری زندگی کا سرمایہ اور ان کی قادرالکلامی کا ثبوت ہے۔ ان کی ایک کتاب کی رونمائی کے لئے بے نظیر بھٹو بطور خاص تشریف لائیں اور کسی بھی کام کا پوچھا۔ انہوں نے بس شکریہ ادا کردیا۔

انہوں نے مون مارکیٹ میں کِساانٹرپرائز کے نام سے دفتر بنا لیا تھا۔ وہاں اکثر دوستوں کی محفل جمتی تھی۔ ایک روز میں گیا تو فون بار بار بجتا رہا اور وہ اٹھانا نہیں چاہ رہے تھے۔ کافی دیر کے بعد بالآخر اٹھا لیا اور کہا آپ فکر نہ کریں یہ کام میرے بس کا نہیں۔ آپ ہی وہاں رہیں گے۔ میں نہیں آ رہا۔ اطمینان رکھیں۔

میں نے کہا محسن بھائی یہ کیا ماجرا ہے۔ بولے اسلام آباد سے اکادمی ادبیات کے فلاں صاحب بار بار فون کررہے تھے۔ انہیں کسی نے خبر دی کہ مجھے چیرمین لگا دیا گیا ہے۔ تم جانتے ہو میں بھلا 9 سے 5 کی ڈیوٹی کبھی کرسکتا ہوں؟ فاروق لغاری ان کے دوست تھے اور ایسی کوئی بھی پوزیشن حاصل کرنا ان کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا لیکن وہ اس مٹی کے بنے ہوئے ہی نہیں تھے۔

ایک بار میری بیگم کسی بات پر رنجیدہ ہوکر میکے چلی گئیں۔ انہیں علم ہوا تو کہا غلطی تمہاری ہے۔ اگلے روز ایک اسٹامپ پیپر لے آئے۔ کہا کہ گھر بھابی کے نام گفٹ لکھ دو۔ ان کی سیکورٹی ضروری ہے ہماری تو حرکتیں ایسی ہی رہیں گی۔ یہ کاغذ آج تک ہمارے پاس محفوظ ہے جس پر محسن بھائی کے بطور گواہ دستخط ہیں۔

1976 سے 15 جنوری 1996 اتنی یادیں اور واقعات ہیں جو ایک کتاب کے متقاضی ہیں محسن پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم جب ان کے گھر ڈیرہ غازی خان پہنچتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے۔ انکل خالد شریف سے ملو۔ انہیں سب پتہ ہے۔

محسن کسی ادبی گروپ سے منسلک نہیں رہے۔ انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ندیم صاحب اور آغا صاحب دونوں سے احترام سے ملتے۔ محسن خود محفل اور جانِ محفل تھے۔ ان کی لابی ان کی اپنی ذات تھی مشاعرے کبھی ان کا مسئلہ نہیں رہے۔ ذاکری میں انہوں نے نئی طرح ڈالی تھی۔ نظم کے انداز میں مجلس پڑھتے تھے اپنے وقت کے مہنگے ترین ذاکرین میں سے تھے۔ ان کے سیکرٹری کی ڈائری بھری رہتی تھی۔ ہمیشہ اچھی گاڑی رکھتے۔ معیارِ زندگی پر انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

میں کوئی نقاد نہیں ہوں نہ ہی یہ مضمون ان کی شاعرانہ عظمت کے احاطے کے لئے لکھا گیا ہے۔ یہ تو محض ایک محبت آمیز ذاتی تاثر ہے۔ لیکن شاعری کے قاری کے طور پر میں اپنی ایک رائے رکھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے ہم عصر شاعروں کی نسبت محسن کا ڈکشن اور ان کی شاعری کا مواد بہت مضبوط ہے۔ ہزار سال بعد جب تقابل کیا جائے گا تو ان کے اکثر معاصر شعراء کا کوئی نام بھی نہ جانتا ہوگا جبکہ محسن کا کلام اُس وقت بھی زندہ ہوگا۔

محسن کی شہادت سے ایک ہفتہ پہلے میری بیگم بچوں کے بال ترشوانے مون مارکیٹ گئی ہوئی تھیں۔ محسن گارڈ کے ہمراہ سامنے سے گزرے اور باربر کو اشارہ کردیا۔ اب محترمہ اصرار کررہی ہیں اور باربر نے اجرت لینے سے انکار کردیا کہ شاہ صاحب کا حکم ہے۔ اکثر اپنے گھر جاتے جاتے ڈرائی فروٹ کا لفافہ ہمارے گیٹ پر چوکیدار کو پکڑا جاتے۔

ہمارے بھتیجے اسد عباس اور عقیل عباس دونوں سعادت مند اور والد کی تصویر ہیں۔ عقیل عباس بہت اچھا شاعر ہے اور اس کا شعری مجموعہ ’’تعلق‘‘ بھی ماورا سے شائع ہوچکا ہے۔ والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وہ بہترین اور کامیاب ذاکر بن چکا ہے۔ اسد عباس  ڈیرہ غازی خان میں کاروباری معاملات دیکھتا ہے جبکہ ان کے ماموں سید ظفر عباس نقوی ایک بہترین شخصیت کے مالک ان کے سرپرست ہیں۔

اپنی شہادت سے پہلے کراچی سے پشاور تک محسن اپنے شاگردوں اور مداحوں کی شکل میں اور شاعری کی ایسی پنیری لگا گئے جس پر رہتی دنیا تک برگ و بار آتے رہیں گے۔ ہر دوسرے دن مجھے کسی دور دراز جگہ سے فون آتا ہے اور کوئی مجھے بتاتا ہے کہ محسن صاحب خط و کتابت کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور وہ صرف ان کی ذات کی مہربانیوں کے سبب لکھ رہا ہے۔

محسن کے اشعار زبان زد عام ہیں۔ مثال کے طور پر رقم کئے جاتے ہیں۔ غلام علی کی آواز میں گائی ہوئی ان کی غزل ’’یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی۔‘‘ جتنی بار سنو نیا لطف دیتی ہے۔

محسن کی نثر اپنے اندر طلسماتی حسن اور تاثیر رکھتی ہے۔ ان کی کتابوں کے پیش لفظ ایک الگ جہان میں لے جاتے ہیں۔ دوستوں کو لکھے گئے خطوط میں بھی ان کا اپنا ہی رنگ ہے۔

میری کتاب ’’نارسائی‘‘ کی اشاعت میں بہت تاخیر ہوگئی کہ میں دوسرے شعراء کی کتابیں شائع کرتے ہوئے اسے ہمیشہ پسِ پشت ڈال دیتا تھا۔ انہوں نے اصرار کرکے اسے جلد چھپوایا اور اس کا بہترین دیباچہ اپنے مخصوص انداز میں لکھ کر ’’نارسائی‘‘ کو امر کردیا۔ وہ کوئی عام شخصیت نہیں تھے ایسے شاعر اور ایسے انسان صدیوں میں نصیب ہوتے ہیں۔

15 جنوری 1996 کی منحوس دوپہر وہ اپنے دفتر سے نکل کر کچھ دیر سن فوٹوز پر ٹھہرے سن فوٹوز کے مالک حسن شاہ بڑی محبت سے ان کی تصاویر بناتے تھے۔ وہاں سے محسن مون مارکیٹ کی مسجد کے رخ پر پیدل جا رہے تھے کہ دو موٹرسائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کردی۔ درجنوں گولیوں میں سے ایک گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔ حسن رضوی نے روتے ہوئے مجھے فون کیا۔ انہیں میوہسپتال لے جایا گیا تھا۔ ہم صرف ان کی میّت ہی لاسکے۔ 192 نشتر بلاک میں سوگواروں کا ہجوم تھا۔ اگلے روز انہیں ڈیرہ غازہ خان لے جایا گیا جہاں ان کے جنازے اور تدفین میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔

وہ کم بخت موٹرسائیکل سوار پکڑے گئے۔ دہشت گردی کی دفعات لگیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ تمہاری کیا دشمنی تھی کہ ایسے قیمتی آدمی کو مار دیا۔ جواب آیا ہم تو ایک دو روز پہلے چہرہ شناسی کے لیے ان کے دفتر گئے تھے۔ انہوں نے چائے پلائی اور محبت آمیز باتیں کیں۔ ہم نے ہائی کمان سے کہا وہ تو بے ضرر آدمی ہے۔ آرڈر آیا اُسے مار دو ورنہ خود مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ ہمیں کرنا پڑا۔ پانچ پانچ ہزار ہم دونوں کو ملے۔

محسن کی شہادت کے بعد عقیل عباس نے ان کا غیر مطبوعہ کلام مہیّا کیا جسے میں نے خیمۂ جاں کے نام سے شائع کردیا۔ اسی طرح ان کا مذہبی کلام جو غیرمطبوعہ تھا حق ایلیا کے نام سے شائع کیا۔ یہ دونوں نام میں نے رکھّے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ دونوں نام محسن خود رکھ گئے تھے۔ بعدازاں تینوں مذہبی شاعری کے مجموعوں کی کلیات میراثِ محسن کے نام سے شائع کی اور آخر میں رومانی شاعری کی آٹھ کتابوں پر مشتمل کلیات، کلیاتِ محسن نقوی کے نام سے شائع ہوئی۔

میں حلقہ جاتی تنقیدی نشستوں میں کبھی نہیں گیا۔ حتّٰی کہ صدارت کے لئے بھی بارہا انکار کردیا۔ بھائی حسین مجروح اس بات پر ناراض بھی ہوئے۔ دراصل میں ایسی محفلوں میں بول ہی نہیں سکتا۔ لیکن محسن نقوی ایسا موضوع ہے جس پر میں بغیر تیاری کے کہیں بھی بول سکتا ہوں۔ متعدد ٹی وی پروگرامز میں مجھے محسن نقوی پر بولنے کے لئے بلایا گیا۔ ہمیشہ وقت کی کمی کا احساس ہوا۔

ان کے دورِ حیات میں کئی ناشرین نے اُن سے رابطہ کیا اور لاکھوں روپے کی آفر دی۔ انہوں نے کبھی کسی کو منہ نہ لگایا۔ شہادت کے بعد عقیل عباس کو بھی ایسی ہی آفرز دی گئیں۔ وہ بھی اسی باپ کا بیٹا ہے۔ شاعری کی کتابوں کا دور اب گزر چکا ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ نے سارا منظر ہی تبدیل کردیا ہے لیکن محسن کا کلام، ان کی کتابیں اور ان کی شاعری اب بھی زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ

اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

___

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے

تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

___

خوشبو کی سرد لہر سے جلنے لگے جو زخم

پھولوں کو اپنا بندِقبا کھولنا پڑا

___

سفر تنہا نہیں کرتے

سنو ایسا نہیں کرتے

___

ٹھہر جاؤ کہ حیرانی تو جائے

تمہاری شکل پہچانی تو جائے

___

عجب نصیب تھا محسن کہ بعدِ مرگ مجھے

چراغ بن کے خود اپنی لحد پہ جلنا تھا

 

 

 

سفر جاری رکھو اپنا

(خالد شریف کے لیے ایک ادھوری نظم)

یہ شیشے کے غلافوں میں دھڑکتی، سوچتی آنکھیں

نجانے کتنے پر اسرار دریائوں کی گہرائی میں

                  بکھرے موتیوں کی آب سے نم ہیں

پہاڑوںسے اُترتی کہر میں لپٹا ہوا

                           یہ سانولا چہرہ!

نجانے کتنی کجلائی ہوئی صبحوں کے سینے میں

                           مچلتی خواہشوں کا آئینہ بن کر

                                             دمکتا ہے!

یہ چہرہ، کرب کے موسم کی بجھتی دوپہر میں بھی

                                             چمکتا ہے!!

یہ لب یہ تشنگی کی موج میں بھیگے ہوئے

                                    ’’مرجاں‘‘

شعاعِ حرف جن سے پھوٹتی ہے سرخرو ہو کر!

یہ لب جب شعلۂ آواز کی حدت میں تپ کر مسکراتے ہیں

                           تو نادیدہ سرابوں کی جبیں پر

                           بے طلب کتنے ستارے جھلملاتے ہیں

یہ لب جب مسکراتے ہیں

                  تو پل بھر کو سکوتِ گنبدِ احساس

                           خود سے گونج اُٹھتا ہے!!

یہ پیکر!

یہ حوادث کے مقابل بھی کشیدہ قامت و خوش پیرہن، پیکر

                  کہ جیسے بارشوں کے رنگ برساتی ہوئی رُت میں

                  خرامِ اَبر پر قوسِ قزح نے

                           اپنی انگڑائی چھڑک دی ہو!

کوئی آواز!

                  جب تنہا مسافت میں مرے ہمراہ چلتی ہے

کوئی پرچھائیں

جب میری بجھی آنکھوں میں چبھتے اَشک چنتی ہے

تو لمحہ بھر کو رُک کر سوچتا ہوں میں

کہ اس تنہا مسافت میں

کسی صحرا میں سائے بانٹتے اشجار کی خوشبو ہے

                                             یا تم ہو؟

یہ تم ہو یا تمنا کے سفر میں

                  حوصلوں کا استعارہ ہے؟

یہ تم ہو یا طلب کی رہگذر میں

                  گم ستارہ ہے؟

ہوا تم سے اُلجھتی ہے

                  کہ تم اپنی ہتھیلی پر مشقت کا ’’دِیا‘‘ بجھنے نہیں دیتے!

حریفانِ قلم… نالاں

                  کہ تم اُن کی کسی سازش پہ کیوں برہم نہیں ہوتے؟

ادب کے تاجرانِ حرص پیشہ سر بہ زانو ہیں

                           کہ تم اہلِ ہنر کے ریزہ ریزہ خواب

                           اپنی جاگتی پلکوںسے چن کر

                           سانس کے ریشم میں

                           کیوں اِتنی مشقت سے پروتے ہو

مگر جاناں، تمہیں کیا؟

                  تم سفر جاری رکھو اپنا،

سفر میں سنگباری سے لہو ہونا

جگر کے زخم سے رِستے لہو سے آبلے دھونا

                  اَزل سے ہم غریبانِ سفر کی اِک روایت ہے!

تمہیں کیا تم سفر جاری رکھو اپنا!

                  تمہاری آبلہ پائی کا عنواں ’’نارسائی‘‘ ہے

تمہیں آتا ہے

                  دُشمن کے لیے وقفِ دُعا رہنا

اندھیروں سے اُلجھنا سنگباری کی رُتوں میں ’’بے قبا‘‘ رہنا

تمہیں آتا ہے یوں بھی زخم کھا کر مسکرا دینا

                  تمہیں آتا ہے

                  گردِ روز و شب سے ’’ماوراء‘‘ رہنا


آپ کی جامنی گائے کدھر ہے؟


سیٹھ گوڈن (Seth Godin)، ساٹھ سالہ امریکی مارکیٹنگ کنسلٹنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مقرر (موٹیوی ایشنل سپیکر)، مصنف، استاد، خطروں سے کھیلنے والا تاجر(entrepreneur)، دنیا کا مشہور ترین بلاگ رکھنے والا بلاگر اور ڈاٹ کام کاروبار کا  بادشاہ ہے۔  19 سے زیادہ ایسی عالمی شہرت یافتہ کتابوں کا مصنف ہے  جن کا دنیا کی 35 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور انہیں کروڑوں لوگ پڑھ کر مستفید ہو چکے ہیں۔

کہتا ہے  کہ: فرض کریں کہ آپ ہر روز 100 گایوں کے ساتھ ایک باڑے کے پاس سے گزرتے ہیں۔ آپ حسب معمول،  ایک دن اسی باڑے کے پاس سے گزرتے ہوئے باڑے میں ایک بنفشی (Purple) رنگ کی گائے دیکھتے ہیں۔  ہو سکتا ہے آپ کا یوں اچانک ایک اچھوتے رنگ کی گائے دیکھنا آپ کی، سارے دن میں، دوستوں اور ملنے والوں سے گفتگو کا محور بن جائے۔ بلکہ یہ بھی گمان کیا جا سکتا ہے کہ اس گائے پر نظر پڑتے ہی آپ نے بریک لگائی ہو، اپنا موبائل نکال کر اس کی تصویر لی ہو یا اپنے کسی عزیز کو کال کر کے اپنے اس انوکھے اور اچھوتے تجربے میں شامل گفتگو کیا ہو۔

گوڈن کہتا ہے: آج مارکیٹ میں کسی بھی پروڈکٹ کی کیفیت گائے کے  باڑے جیسی ہے۔ صارف ہر گائے کو بے دلی اور بے دھیانی سے بس ایک گائے کی نظر سے اور ایک گائے کی ہی حیثیت سے دیکھتا ہے کیونکہ آخر میں یہ سب ایک دوسرے سے ملتی جلتی اور ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ (بقولہ تعالی : الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا – ہر گائے پر ہمیں ایک جیسا ہونے کا شبہ پڑتا ہے)۔ اب وہ والا وقت نہیں رہا، صارف ذہین ہو چکا ہے۔ وہ چیزوں کو پرکھنے کا فن جانتا ہے، اپنی مطلوبہ چیز کو خریدنے سے پہلے اس چیز کو بنانے والوں کے حریفوں کا سامان، ان کے سامان کا رنگ، خصوصیات اور شکل کو دیکھنا پرکھنا اور پہچاننا چاہتا ہے۔

ایسے میں جب کہ ہر گائے، گائے جیسی ہی ہوتی ہے تو پھر ایک جیسی چیزوں کو ایک جیسا بنانے والے ایسی تکرار اور مماثلت کیسے اور کیوں بنا رہے ہیں؟ گوڈن کہتا ہے یہ  مماثلت کا رجحان بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی کو اپنا لیڈر اور راہنما مان لینا اور پھر اس کی پیروی کرنا۔ بازار میں اپنی مصنوعات لانے والی ہر کمپنی کسی لیڈر کو دیکھتی ہے اور پھر (Follow the leader)اندھا دھند اسی کی تقلید شروع کر دیتی ہے کیونکہ وہ لا شعوری یا شعوری پر اس بات کے معترف ہوتے ہیں کہ بازار میں لیڈ کرنے والے اس لیڈر کو اپنے تجربے اور بازار سے اپنا تجارتی شیئر اٹھانے کی وجہ سے بہت معلومات ہوتی ہیں۔ یہ لوگ قناعت کے ساتھ ایک بھیڑ چال میں شامل ہو کر مارکیٹ سے اپنا کچھ شیئر لیتے ہیں اور پھر اسی پر قانع رہتے ہیں۔

یہ چیزوں کا مکرر ہونا اور ان مصنوعات کی مماثلت کسی حد تک ٹھیک بھی ہو سکتی ہے۔ مگر یہ بھیڑ چال کسی نئے تاجر کو کسی لمبی ترقی والے راستے پر نہیں ڈال سکتی۔ نئے اور مختلف راستے پر چلنے کیلیئے خطروں سے کھیلنا پڑتا ہے۔ اور جو نئی راہ پر چل نکلتا ہے اس کی سینکڑوں مثالیں دنیا میں موجود ہیں کہ کیسے ان لوگوں نے اپنی ابتداء صفر سے کی، اپنے لیئے نئے راستے بنائے، مارکیٹنگ کو ایک نئی جہت اور نیا رجحان دیا، لوگوں کو اپنی پبلسٹی سے گرویدہ بنایا اور پھر اپنے نام کو ہیروں موتیوں سے چمکا دیا۔ 

  آپ کوئی نیا کام کرنا چاہتے ہیں!!! یہاں بھی ایک غلطی آپ سے ہو سکتی ہے۔ صرف چیز کو بنانے پر ہی اپنی توجہ مرکوز نہ رکھیں۔ اور نہ ہی یہ ذہن بنا کر بیٹھیں کہ جب میری چیز بن جائیگی تو میں بازار میں ڈال کر لوگوں کو حیران کر دونگا۔ چیز کے بننے سے پہلے مارکیٹ میں اس کی جگہ بنانا شروع کیجیئے۔ تاکہ جب آپ کی چیز تیار ہو کر آئے تو بازار میں اس کی طلب بن چکی ہو۔ بازار سے رابطے میں رہنے والے جانتے ہیں کہ صارف کا ذہن اور ذائقہ بدلتا رہتا ہے۔ وہ روز اپنا ذہن بناتا ہے اور روز ہی اس پر عمل کر کے نئے کا طلبگار بن جاتا ہے۔

اگر آپ کی چیز بالکل اچھوتی اور بالکل ہی انوکھی ہے تب بھی اس سے وارد ہونے والے خطرات پر نظر رکھیئے۔ بہت زیادہ منافع دینے والی مصنوعات ایک حد تک تو رواج پا جاتی ہیں لیکن جتنی جلدی آتی ہیں ویسے ہی اتنی جلدی ختم بھی ہو جاتی ہیں۔

اگر آپ مارکیٹ میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا مارکیٹ کو لیڈ کرنا چاہتے ہیں تو اپنا حوصلہ اور دل بھی لیڈر جیسا بنائیے۔ ہزاروں اندیشوں کو ذہن میں رکھ کر ڈرتے ڈرتے چیز بنائیے، ڈرتے ڈرتے بازار میں ڈالیئے، آپ کے خریدنے والے اور بیچنے والے سب ڈرتے ڈرتے خریدیں گے، ڈر ڈر کر بیچیں گے اور آپ کی پروڈکٹ کا مستقبل کیا ہوگا کو بآسانی سوچا جا سکتا ہے۔ رواج اور ثقافت سے ہٹ کر کوئی غیر روایتی چیز بنانی ہے تو پھر دھڑلے سے بنائیے اور لوگوں کو بے خوف ہو کر بیچیئے تاکہ آپ کے آئیڈیاز پنپ سکیں۔

کل "مکہ نیوز" میں ایک سعودی بزنس کنسلٹنٹ اور صحافی محمد حطحوط نے گوڈن کی اسی کتاب (Purple Cow) پر بات کرتے ہوئے اپنا ذاتی مشاہدہ لکھا ہے کہ سعودی عرب میں ایک لوکل برانڈ "برگر" بیچنے والے نوجوان نے میرے ساتھ ایک بزنس ٹریننگ کورس کیا۔ کورس سے واپس آ کر اس نے اپنے ریسٹورنٹ پر اعلان لکھوا دیا کہ میرے برگر کا ذائقہ پسند نہ آئے تو  بغیر کسی وجہ بتائے اپنے پیسے واپس لے لیجیے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور خطروں سے بھرا ہوا تجربہ تھا، نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن خطروں سے کھیلنا اور نئے آئیڈیاز کو مارکیٹ میں لانا ہی تو بڑے موقع پیدا کرنے کا سبب بنا کرتے ہیں۔ اور اس نوجوان کے ساتھ بالکل یہی کچھ ہوا۔ پہلے ہفتے ہی اس کے ریسٹورنٹس پر بکری 80٪ بڑھ گئی۔ اور اس کے بعد اس نوجوان کو ملنے والی ترقیاں اور کامیابیاں علیحدہ موضوع ہیں۔

اللّٰہ نے دودھ فروش کو نوازا ۔۔۔۔تو اس کی گردن میں سریا آ گیا۔۔۔۔ !


بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے ڈائریکٹر ملک معراج خالد تھے۔ وائس چانسلر ہی کہہ لیجیے۔ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کے دوسرے سمسٹر کا طالب علم تھا۔یونیورسٹی نے فیسوں میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا۔ میں نے ملک معراج خالد کے خلاف ایک مقامی روزنامے میں کالم لکھ دیا۔ میں نے لکھا کہ ایک دودھ بیچنے والا ڈائریکٹر بن جاتا ہے تو اس کی گردن میں سریا آ جاتا ہے اور وہ اپنا ماضی بھول جاتا ہے۔ یاد نہیں اور کیا کچھ لکھا لیکن وہ بہت ہی نا معقول تحریر تھی۔

اگلے روز میں کلاس میں پہنچا تو ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ جناب ایس ایم رؤوف صاحب نے مجھے اپنے دفتر میں بلا کر کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ تمہیں ڈائریکٹر صاحب نے طلب کیا ہے۔ مجھے خوب یاد ہے جب میں ان کے کمرے سے نکل کر جا رہا تھا تو انہوں نے غصے سے کہا: جنٹل مین گو اینڈ فیس دی میوزک۔

خیر میں ڈائریکٹر آفس کی جانب چل پڑا اور راستے میں یہی سوچتا رہا کہ یہ تو طے ہے آج یونیورسٹی میں میرا آخری دن ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آج یونیورسٹی سے نکالا جاؤں گا تو گھر والوں سے کیا بہانہ بناؤں گا کہ کیوں نکالا گیا۔

وہاں پہنچا تو ڈائریکٹر کے پی ایس اسماعیل صاحب کو بتایا میرا نام آصف محمود ہے، مجھے ڈائریکٹر صاحب نے بلایا ہے۔ مجھے شدید حیرت ہوئی جب اسماعیل کے سپاٹ چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور کہنے لگے جائیے وہ آپ کے منتظر ہیں۔ لیکن اندر داخل ہوا توحیرتوں کے جہان میرے منتظر تھے۔ ملک صاحب اکیلے بیٹھے تھے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا: سر میں آصف، آپ نے بلایا تھا؟

آپ ہی نے کالم لکھا تھا؟

جی سر میں نے لکھا تھا۔

تشریف رکھیے مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنا ہیں۔۔۔۔اور میں جل تو جلال تو کا ورد کرتے ہوئے بیٹھ گیا۔

کافی دیر یونہی گزر گئی۔

ملک صاحب ولز کی ڈبیا گھماتے رہے۔ ایک ایک لمحہ اعصاب پر بھاری تھا۔ پھر ملک صاحب نے خاموشی کو توڑا اور کہا: کالم تو آپ نے اچھا لکھا لیکن آ پ کی معلومات ناقص تھیں۔ میں صر ف دودھ فروش نہیں تھا۔میرے ساتھ ایک اورمعاملہ بھی تھا۔ میں نے اسی لیے آپ کو بلایا ہے کہ آپ کی معلومات درست کر دوں۔ میں صرف دودھ نہیں بیچتا تھا۔ میرے ساتھ یہ مسئلہ بھی تھا کہ جوتے نہیں تھے۔ میں دودھ بیچ کر سکول پہنچتا اور سائیکل وہیں کھڑی کر دیتا۔ گھر میں جوتوں کا ایک ہی جوڑا تھا جو والد صاحب کے زیر استعمال تھا۔ اس کا حل میں اور میرے ابا جی نے مل کر نکالا۔ ہمارے درمیان یہ طے ہوا کہ صبح میں یہ جوتے پہن کر جایا کروں اور جب میں واپس آ جاؤں تو یہی جوتے پہن کر ابا جی چوپال میں جا کر بیٹھا کریں۔ اب ڈر تھا کہ سائیکل چلانے سے جوتا ٹوٹ نہ جائے۔ اس لیے میں انہیں سائیکل کے ساتھ لٹکا لیتا تھا۔جب دودھ گھروں میں پہنچا کر کالج کے گیٹ کے پاس پہنچتا تو جوتا پہن لیتا۔ واپسی پر پھر سائیکل کے ساتھ لٹکا لیتا اور ننگے پاؤں سائیکل چلاکر گھر پہنچتا۔

ملک صاحب پھر خاموش ہو گئے۔ یہ دورانیہ خاصا طویل رہا۔پھر مسکرائے اور کہنے لگے: سریے والی بات تم نے ٹھیک کہی۔ واقعی ،اللہ نے دودھ فروش کو نوازا تو اس کی گردن میں سریا آ گیا۔ بار بار دہراتے رہے: اللہ نے دودھ فروش کو نوازا لیکن اس کی گردن میں سریا آ گیا۔

پھر اسماعیل کو بلایا اور پوچھاکہ کیا قواعد و ضوابط کے مطابق میں فیس میں کیا گیا یہ اضافہ واپس لے سکتا ہوں۔اسماعیل نے کہا سر ڈائریکٹر کے اختیار میں نہیں ہے۔ کہنے لگے اختیار میں تو نہیں ہے لیکن اگر میں نوٹیفیکیش جاری کر دوں تو پھر؟ اسماعیل کہنے لگے: سر آپ نوٹی فیکیشن جاری کر دیں تو ظاہر ہے اس پر عمل ہو گا۔ملک صاحب نے کہا جلدی سے نوٹیفیکیشن بنا لاؤ، فیسوں میں اضافہ نہیں ہو گا۔ میں کمرے سے باہر نکلا تو اس حکم نامے کی کاپی میرے ساتھ تھی، دل البتہ وہیں چھوڑ آیا تھا۔

ڈیپارٹمنٹ پہنچا تو ایس ایم اے رووف صاحب نے پوچھا، ہاں کیا ہوا؟ میں نے نوٹی فیکیشن آگے رکھ دیا، سر یہ ہوا۔ رووف صاحب کی آنکھوں میں جو حیرت تھی، مجھے آج بھی یاد ہے۔ آج اگر کوئی مجھ سے پوچھے: وائس چانسلر کیسا ہونا چاہیے؟ تو میں کہوں گا اسے ملک معراج خالد مرحوم جیسا ہونا چاہیے۔.  آپ ملک کے اعلی ترین عہدے پر فائز رہے جب انتقال ھو ایک کرایہ کے مکان میں رھتے تھے اللہ تعالیٰ انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین

Monday, September 20, 2021

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سخاوت

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ایک شخص ملک شام سے سفر کرتا ہوا آیااور اپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ آپ امیر بھی ہیں یعنی مالدار بھی ہیں اور امیر بھی یعنی مسلمانوں کے سربراہ بھی ہیں۔

عرض کرنے لگا حضور میرے اوپر قرضہ چڑھ گیا ہے میری مدد کریں ۔تو آپ اس کو اپنے گھر لے گئے شخص کہتا ہے کہ باہر سے دروازہ بہت خوبصورت تھا لیکن گھر پر ایک چارپائی بھی نہ تھی کھجور کی چھال کی چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں اور وہ بھی پھٹی ہوئی فرماتے ہیں سیدناصدیق ابوبکر(رضی اللہ تعالی عنہ)نے مجھے چٹائی پر بٹھا لیا اور مجھے کہنے لگے یار ایک عجیب بات نہ بتاؤں میں نے کہا بتائے تو عرض کرنے لگے تین دن سے میں نے ایک اناج کا دانہ بھی نہیں کھایا کھجور پر گزارا کر لیتا ہوں آجکل میرے حالات کچھ ٹھیک نہیں ہے توشخص کہنے لگا حضور میں اب پھر کیا کروں میں تو بہت دور سے امید لگا کر آیا تھا۔

تو فرمانے لگے تو عثمان غنی کے پاس جا شخص کہنے لگا مجھےتو بہت سارے پیسے چاہیے ہیں۔تو آپ نے فرمایا تیری سوچ وہاں ختم ہوتی ہے جہاں سے عثمان کی سخاوت شروع ہوتی تو جو سوچتا ہے اتنے ملیں گے تیری سوچ ختم ہوتی ہیں وہاں سے عثمان کی سخاوت شروع ہوتی ہے تو جا ان کے پاس شخص کہنے لگا آپ کا نام لوں کے مجھے امیرالمومنین نے بھیجا ہے توفرمانا لگےاس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

صرف اتنا بتانا کہ میں مقروض ہوں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ کا نوکر ہوں۔ وہ شخض کہنے لگا کے وہ دلیل ،حوالہ مانگے گے فرمایا عثمان سخاوت کرتے وقت دلیل یا حوالے نہیں مانگتے عثمان اللہ کی راہ میں دیتے ہوئے تفتیشے نہیں کرتا ،اور سخاوت کرتے وقت ٹٹولنا عثمان کی عادت نہیں ۔

وہ شخص کہتا ہے کہ میں چلا گیا پوچھتا پوچھتے دروازے پر دستخط دی حضرت عثمان غنی کے اندر سے بولنے کی آواز آ رہی تھی "اپنے بچوں کو ڈانٹ رہے تھے کہ یار تم لوگ دودھ کے اندر شہد ملا کر پیتے ہوں خرچا تھوڑا کم کرو اتنا خرچا بڑھا دیا ہے دودھ میٹھا شہد بھی مٹھا ایک چیز استعمال کرلو تم کوئی بیمار تھوڑی ہوں"

شخص کہتا ہے میں نے کہا ابوبکر تو بڑی باتیں بتا رہے تھے یہاں تو دودھ اور شہد پر لڑائی ہو رہی ہے اور مجھے تو کئی ہزار دینار چاہیے کیا یہ دے دے گا۔ شخص کہتا ہے کہ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اندر سے دروازہ کھلنے کی آواز آئ۔

وہ باہر آئے اور میں نے کہااسلام علیکم!انہوں نے سلام کا جواب دیں اور وہ سمجھ گئے کہ میں مسلمان ہوں اور مخاطب ہوکر کہنے لگے معاف کرنا بچوں کو ذرا ایک بات سمجھنی تھی آنے میں ذرا دیر ہو گئی۔ان کا پہلا جملہ ان کے بڑے پن کا مظاہرہ کر رہا تھا پھر دروازہ کھولا اور مجھے انہوں نے گھر بٹھایا اور میرے لئے جو پہلی چیز پیش کی گئی وہ دودھ میں شہد ڈال کر دیا گیا اور پھر کھجور کا حلوہ پیش کیا۔

شخص کہتا ہے کہ میرے دل میں خیال آیا عجیب شخص ہے گھر والوں کے ساتھ جھگڑا کر رہے تھے ایک چیز استعمال کیا کرو میرے لیے تین تین چیزیں آ گئی ہےلیکن ابھی میرا تصور جما نہیں تھا میں نے دل میں خیال کیا اتنا تگڑا نہیں جتنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا ہے۔وہ شخص کہتا ہے کہ کھلانے پلانے کے بعد پوچھنے لگے کیسے آئے ہو ۔

میں نے کہا کہ" میں مسلمان ہو اور ملک شام کے گاؤں کارہنے والا ہوں اور کچھ کاروباری مشکلات آئی تو مقروض ہوگیا ہوں اور میرے اوپر قرضہ ہےاور مجھے کچھ پیسوں کی حاجت ہے "


کہنے لگا تو میں نے کچھ پیسے کہا تو انہوں نے ایک آواز دی تو ایک غلام اونٹ پر سامان لدا ہوا لیکر حاضر ہوا۔شخص کہتا ہے کہ مجھے تین ہزار اشرفیاں چاہیے تھی۔ابھی میں نے بتایا نہیں تھا کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ" اس اونٹ پر تیرے لیے تیرے گھر والوں کے لئے میں نے کپڑے اور کھانے پینے کا سامان اور 6000 اشرفیاں رکھوا دی ہے اورتو پیدل آیا تھااب اونٹ لے کر جانا"

شخص کہنے لگا میں نے فورن سے کہا حضور یہ اونٹ انہیں واپس کرنے کون آئے گا۔حضرت عثمان فرمانےلگے واپس کرنے کے لیے دیا ہی نہیں یہ تحفہ ہے تو لے جا۔

شخص کہتا ہے کہ میں کہاں سے چلا تھا ڈھونڈتا ہوا اور پھر مدینے میں آیا اور جب مدینے میں آیا تو اللہ نے مجھے جھولی بھر کے عطا فرمایا کہتا ہے میری آنکھوں میں آنسوں آگئے اور میں نے کہا حضور آپ نے تو مجھے میری ضرورت سے کہیں بڑھ کر نواز دیا ہے معاف کیجئے گا میں سوچ رہا تھا دودھ شہد پر تو گھر میں لڑائی ہو رہی ہے۔۔۔

تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ نے جو پیسے عثمان کو دیے ہیں وہ اس لئے نہیں دیے کہ عثمان کی اولادیں عیش مستی کرتی پھیرے میرے مالک نے مجھے نوازا ہے تاکہ میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کہ نوکروں کی نوکری کروں۔

شخص کہتا ہے میں دروازے تک گیا تو میں نے کہا شکریہ!

کہتا ہے ابھی میں نے بتایا نہیں تھا کہ مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بھیجا ہے کہ آپ فرمانے لگے کہ شکریہ ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالی عنہ) کا ادا کرنا جس نے تجھے یہ راستہ دکھایا ہے۔

شخص کہتا ہے کہ میں نے کہا حضور آپ کو تو میں نے بتایا ہی نہیں کے مجھے ۔۔۔۔تو آپ رضی اللہ تعالی عنہہ مسکرا کر فرمانے لگے چھوڑوں آپ کا کام ہو گیا 

{ماخذ سیرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ}

Thursday, September 16, 2021

پہلے زمانے کے چور بھی وقت کے فقیہ ہوتے تھے


امام جوزی رحمہ اللہ نے قاضی انطاکیہ کا ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ ایک دن اپنے کھیتوں کو دیکھنے شہر سے نکلے تو شہر کے باہر ایک چور  نے دھر لیا۔ چور  نے کہا کہ جو کچھ ہے میرے حوالے کر دیجئے ورنہ میری طرف سے سخت مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قاضی نے کہا : خدا تیرا بھلا کرے ۔ میں عالم آدمی ہوں اور دین میں اس کی عزت کا حکم دیا گیا ہے ساتھ میں قاضی شہر بھی ہوں لہذا مجھ پر رحم کر۔

چور نے کہا : الحمدللہ ! ایسا شخص جو بیچارہ فقیر نادار ہو اور اپنا نقصان پورا نہ کرسکے کے بجائے آج ایک ایسے شخص کو اللہ نے میرے قابو میں دیا ہے کہ اگر اس کو میں لوٹ بھی لوں تو شہر واپس جاکر اپنا نقصان پورا کرسکتا ہے ۔

قاضی نے کہا : خدا کے بندے تو نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی کہ دین وہ ہے جسے اللہ نے مقرر کیا اور مخلوق سب اللہ کے بندے ہیں اور سنت وہی ہے جو میرا طریقہ ہے۔ پس جس نے میرا طریقہ چھوڑ کر کوئی بدعت ایجاد کی تو اس پر اللہ کی لعنت ۔

تو اے چور ! ڈاکے ڈالنا اور لوگوں کو راستے میں لوٹنا یہ بدعت ہے نبی کریم ﷺ کا طریقہ اور دین نہیں ۔میں آپ کا خیر خواہ ہوں آپ کو چوری سے منع کرتا ہوں کہ مبادا نبی کریم ﷺ کی اس لعنت والی وعید میں آپ شامل نہ ہوجائیں ۔

چور نے کہا : میری جان ! یہ حدیث مرسل ہے ( جو شوافع کے ہاں حجت نہیں ) اور بالفرض اس حدیث کو درست بھی مان لیا جائے تو آپ کا اس ’’چور‘‘ کے بارے میں کیا خیال ہے جو بالکل ’’قلاش‘‘ ہو فاقوں نے اس کے گھر میں ڈیرے ڈال دئے ہو ں اور ایک وقت کے کھانے کا بھی کوئی آسرا نہ ہو؟۔ ایسی صورت میں ایسے شخص کیلئے آپ کا مال بالکل پاک و حلال ہے کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت فرمایا کہ دنیا اگر محض خون ہوتی تو مومن کا اس میں سے کھانا حلال ہوتا۔نیز علما کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر آدمی کو اپنے یا اپنے خاندان کے مارے جانے کا خوف ہو تو اس کیلئے دوسرے کا مال حلال ہے۔اور اللہ کی قسم میں اسی حالت سے گزر رہا ہوں لہذا شرافت سے سارا مال میرے حوالے کردو۔

قاضی نے کہا : اچھا اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو مجھے اپنے کھیتوں میں جانے دو وہاں میرے غلام و خادم  نے آج جو اناج بیچا ہوگا اس کا مال میں ان سے لیکر واپس آکر آپ کے حوالے کردیتا ہوں ۔

چور نے کہا : ہرگز نہیں آپ کی حالت اس وقت پرندے کی مانند ہے جو ایک دفعہ پنجرے سے نکل گیا پھر اسے پکڑنا مشکل ہے ۔مجھے یقین نہیں کہ ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد آپ دوبارہ واپس لوٹیں گے۔

قاضی نے کہا: میں آپ کو قسم دینے کو تیار ہوں کہ ان شاء اللہ میں نے جو وعدہ آپ سے کیا ہے اسے پورا کروں گا۔

چور نے کہا : مجھے حدیث بیان کی مالک رحمہ اللہ نے انہوں نے نافع رحمہ اللہ سے سنی انہوں نےعبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ : یمین المکرہ لاتلزم ( مجبور کی قسم کا اعتبار نہیں )

اسی طرح قرآن میں بھی ہے الامن اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان مجبور آدمی زبان سے کلمہ کفر بول سکتا ہے تو مجبوری کی حالت میں جب کلمہ کفر بولنے کی اجازت ہے تو جھوٹی قسم بھی کھائی جاسکتی ہے ۔لہذا فضول بحث سے پرہیز کریں اور جوکچھ ہے آپ کے پاس میرے حوالے کردیں۔

قاضی اس پر لاجواب ہوگیا اور اپنی سواری ،مال کپڑے سوائے شلوار کے اس کے حوالے کردیا۔

چور نے کہا : شلوار بھی اتار کر دیں۔

قاضی نے کہا : اللہ کے بندے نماز کا وقت ہوچکا ہے ۔ اور بغیر کپڑوں کے نماز جائز نہیں۔ قرآن کریم میں بھی ہے خذو زینتکم عند کل مسجد (اعراف ،۳۱)اور اس آیت کا معنی تفاسیر میں یہی بیان کیاگیا ہے کہ نماز کے وقت کپڑے پہنے رکھو۔

نیز شلوار حوالے کرنے پر میری بے پردگی ہوگی جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ وہ شخص ملعون ہے جو اپنے بھائی کے ستر کو دیکھے۔

چور نے کہا : اس کا آپ غم نہ کریں کیونکہ ننگے حالت میں آپ کی نماز بالکل درست ہے کہ مالک رحمہ اللہ نے ہم سے حدیث بیان کی وہ روایت کرتے ہیں نافع رحمہ اللہ سے وہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ سے کہ

العراۃ یصلون قیاما و یقوم امامھم وسطہم

ننگے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں اور ان کا امام بیچ میں کھڑا ہو۔

نیز امام مالک رحمہ اللہ بھی ننگے کی نماز کے جواز کے قائل ہیں مگر ان کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نہیں پڑھیں گے بلکہ متفرق متفرق پڑھیں گے اور اتنی دور دور پڑھیں گے کہ ایک دوسرے کے ستر پر نظر نہ پڑے۔جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نہیں بلکہ بیٹھ کر پڑھیں ۔

اور ستر پر نظر پڑنے والی جو روایت آپ نے سنائی اول تو وہ سندا درست نہیں اگر مان بھی لیں تو وہ حدیث اس پر محمول ہے کہ کسی کے ستر کو شہوت کی نگاہ سے دیکھاجائے۔ اور فی الوقت ایسی حالت نہیں اور آپ تو کسی صورت میں بھی گناہ گار نہیں کیونکہ آپ حالت اضطراری میں ہے خود بے پردہ نہیں ہو رہے ہیں بلکہ میں آپ کو مجبور کررہا ہوں ۔لہذا لایعنی بحث مت کریں اور جو کہہ رہاہوں اس پر عمل کریں۔

قاضی نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم قاضی اور مفتی تو تجھے ہونا چاہئے ہم تو جھگ مار رہے ہیں ۔ جو کچھ تجھے چاہئے لے پکڑ لاحول ولاقوۃالاباللہ ۔اور یوں چور سب کچھ لیکر فرار ہوگیا۔

( کتاب الاذکیا ،لابن الجوزی ،ص۳۸۹ )

Sunday, September 12, 2021

دعا کی قبولیت کا راز ,,قدرت اللہ شہاب کی زبانی


‎قدرت اللہ شہاب "شہاب نامہ" میں بتاتے ہیں کہ "ایک بار میں کسی دور دراز علاقے میں گیا ہوا تھا وہاں پر ایک چھوٹے سےگاؤں میں ایک بوسیدہ سی مسجد تھی۔ میں جمعہ کی نماز پڑھنے اس مسجد میں گیا وہاں ایک نیم خواندہ سے مولوی صاحب اردو میں بے حد طویل خطبہ دے رہے تھے۔ ان کا خطبہ گزرے ہوئے زمانوں کی عجیب وغریب داستانوں سے اٹاٹ بھرا ہوا تھا۔ کسی کہانی پر ہنسنے کو جی چاہتا تھا، کسی پر حیرت ہوتی تھی، لیکن ایک داستان کچھ ایسے انداز سے سنائی کہ تھوڑی سے رقت طاری کر کے وہ سیدھی میرے دل میں اتر گئی۔ یہ قصہ ایک باپ اور بیٹی کی باہمی محبت واحترام کا تھا۔ باپ حضرت محمد ﷺ تھے اور بیٹی حضرت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا  تھیں۔ مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ حضور رسولِ کریم ﷺ جب اپنے صحابہ کرام ؓ کی کوئی درخواست یا فرمائش منظور نہ فرماتے تھے تو بڑے بڑے برگزیدہ صحابہ کرام ؓ بی بی فاطمہ س کی خدمت میں حاظر ہو کر ان کی منّت کرتے تھے کہ وہ ان کی درخواست حضور ﷺ کی خدمت میں لے جائیں اور اسے منظور کروا لائیں۔ حضور نبی کریم ﷺ کے دِل میں بیٹی کا اتنا پیار اور احترام تھا کہ اکثر اوقات جب بی بی فاطمہ س ایسی کوئی درخواست یا فرمائش لے کر حاضر خدمت ہوتی تھیں تو حضور ﷺ خوش دلی سے منظور فرما لیتے تھے۔ اس کہانی کو قبول کرنے کے لیے میرا دل بے اختیار آمادہ ہو گیا۔

‎جمعہ کی نماز کے بعد میں اسی بوسیدہ سی مسجد میں بیٹھ کر نوافل پڑھتا رہا۔ کچھ نفل میں نے حضرت بی بی فاطمہ س   کی روح مبارک کو ایصالِ ثواب کی نیّت سے پڑھے۔پھر میں نے پوری یکسوئی سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگی، ”یا اللہ میں نہیں جانتا کہ یہ داستان صحیح ہے یا غلط لیکن میرا دل گواہی دیتاہے کہ تیرے آخری رسول کے دل میں اپنی بیٹی خاتون جنت کے لیے اس سے بھی زیادہ محبت اور عزت کاجذبہ موجزن ہو گا۔ اس لیے میں اللہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حضرت بی بی فاطمہ س کی روح کو اجازت مرحمت فرمائیں کہ وہ میری ایک درخواست اپنے والد گرامی ﷺ کے حضور میں پیش کرکے منظور کروالیں۔

‎درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں،  مجھے روحانیت کے راستے پہ چلنے کی توفیق عطا کر۔۔۔۔

‎اس بات کا میں نے اپنے گھرمیں یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا۔ چھ سات ہفتے گزر گئے اور میں اس واقعہ کو بھو ل بھال گیا، پھر اچانک سات سمندر پار کی میری ایک جرمن بھابھی کا ایک عجیب خط موصول ہوا۔ جو  مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں اور نہایت اعلیٰ درجہ کی پابندِ صوم و صلوٰة خاتون تھیں۔ انہوں نے لکھا تھا:

‎رات میں نے خوش قسمتی سے فاطمہ س بنتِ رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا انہوں نے میرے ساتھ نہایت تواضع اور شفقت سے باتیں کیں اور فرمایا کہ اپنے دیور قدرت اللہ شہاب کو بتا دو کہ میں نے اس کی درخواست اپنے برگزیدہ والد گرامی ﷺ کی خدمت میں پیش کر دی تھی۔ انہوں نے ازراہ نوازش منظور فرما لیا ہے“۔

‎یہ خط پڑھتے ہی میرے ہوش وحواس پر خوشی اورحیرت کی دیوانگی سی طاری ہوگئی، مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں۔ یہ تصور کہ اس برگزیدہ محفل میں ان باپ بیٹی کے درمیان میر ا ذکر ہوا۔ میرے روئیں روئیں پر ایک تیز وتند نشے کی طرح چھاجاتا تھا، کیسا عظیم باپ ﷺ ! او ر کیسی عظیم بیٹی! دو تین دن میں اپنے کمرے میں بند ہو کر دیوانوں کی طرح اس مصرعہ کی مجسّم صورت بنا بیٹھا رہا۔

‎ع۔ مجھ سے بہتر ذکر میرا ہے کہ اس محفل میں ہے !

‎اس کے بعد کچھ عرصہ تک مجھے خواب میں طرح طرح کی بزرگ صورت ہستیاں نظر آتی رہیں جن کو نہ تو میں جانتا تھا نہ ان کی باتیں سمجھ میں آتی تھیں اور نہ ان کے ساتھ میرا دل بھیگتا تھا پھر ایک خواب میں مجھے ایک نہایت دلنواز اور صاحب جما ل بزرگ نظر آئے جو احرام پہنے ایک عجیب سرور اورمستی کے عالم میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے ، میرا دل بے اختیار ان کے قدموں میں بچھ گیا ،وہ بھی مسکراتے ہوئے میری جانب آئے اور مطاف سے باہر حطیم کی جانب ایک جگہ مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور بولے ”میر انام قطب الدّین بختیار کاکی ہے تم اس راہ کے آدمی تو نہیں ہو لیکن جس دربار  سے تمہیں منظوری حاصل ہوئی ہے اس کے سامنے ہم سب کا سر تسلیم خم ہے۔“


‎(یہ میرا بھی آزمودہ نسخہ ہے کہ خاتون جنت 

‎س کی وساطت سے مانگی گئی دعائیں رد نہیں ہوتیں، خدا ہم سب کو خاتون جنت سیدہ کونین کے صدقے ہر قسم کی پریشانیوں ،بلاوں سے محفوظ رکھیں آمین )

منقول ۔

شہاب نامہ۔

Intrduction of Galaxies and how many in the Universe

A galaxy is a large group of stars, gas, and dust bound together by gravity. Our solar system resides in the Milky Way galaxy, a spiral galaxy that is part of a group of galaxies called the Local Group. There are billions of galaxies in the Universe, but only three outside our Milky Way Galaxy can be seen without a telescope - the Large and Small Magellanic Clouds and the Andromeda galaxy. The Large and Small Magellanic Clouds are about 160,000 light years away and are satellites of the Milky Way. They can be seen from the southern hemisphere. The Andromeda Galaxy is a larger galaxy that is about 2.5 million light years away and can be seen from the northern hemisphere with good eyesight and a very dark sky. The other galaxies are even further away from us and can only be seen through telescopes.

The smallest galaxies may contain only a few hundred thousand stars and be several thousand light years across, while the largest galaxies have trillions of stars and may be hundreds of thousands of light years across. Galaxies can be found by themselves, in small groups and in large clusters.

Galaxies sometimes collide with each other.These collisions can trigger bursts of star-formation in addition to changing the shapes of the galaxies that collide. However, when galaxy collisions occur, individual stars do not collide, due to the vast distances between them.

Galaxies are classified by shape. There are three general types: elliptical, spiral, and irregular.

Beautiful galaxies by Hubble

Credit: NASA, ESA

Thursday, September 9, 2021

ما حول یا تربیت

وزیر کی جان پہ بنی ہوئی تھی فقیر بات ہی نئیں سُن رہا تھا  اۤخر طویل مِنت سماجت کے بعد فقیر نے سر اٹھایا 

ہاں بول کیا کہنا ہے ؟

وزیر نے ہاتھ جوڑے اور بتانا شروع کیا؛

ایک مہینہ پہلے ہمارے بادشاہ سلامت نے اچانک دربار میں ایک سوال اُچھالا کہ کامیاب کردار کے لئے تربیت زیادہ کارآمد ہے یا ماحول؟ 

میرے ایک ہم منصب وزیر نے جھٹ کہا کہ عالی جاہ ! تربیت جبکہ میں نے اُجلت میں کہا جناب ! ماحول ماحول تربیت پر فوقیت رکھتا ہے۔ 

بادشاہ سلامت نے ہماری طرف رعونت سے دیکھا اور فرمایا تم دونوں کو اپنا اپنا جواب عملی طور پر ثابت کرنا ہو گا جو ثابت نہ کر سکا اس کا سر قلم کر دیا جائے گا اور اس کے لئے ہمیں ایک ماہ کی مہلت دے دی

ہم دونوں اپنے جواب کی عملی تعبیر تلاشنے میں لگ گئے 

 میں سوچ سوچ کے پاگل ہونے کے قریب تھا، مگر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ٢۴ دن بعد اچانک میرے ہم منصب وزیر نے میری موت کے پروانے پر دستخط کرتے ہوئے دربار میں اپنے جواب کو عملی طور پر ثابت کرنے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر اس نے دربار میں کھڑے ہو کر تالی بجائی تالی بجتے ہی ایک ایسا منظر سامنے آیا کہ بادشاہ سمیت تمام اہلِ دربار کی سانسیں سینہ میں اٹک گئیں۔ دربار کے ایک دروازے سے دس بِلیاں منہ میں پلیٹیں لئے جن میں جلتی ہوئی موم بتیاں تھیں ایک قطار میں خراماں خراماں چلتی دربار کے دوسرے دروازے سے نکل گئیں، نہ پلیٹیں گریں اور نہ موم بتیاں بجھیں۔ دربار تعریف و توصیف کے نعروں سے گونج اٹھا۔ میرے ہم منصب نے بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا ، حضور ! یہ سب تربیت ہی ہے کہ جس نے جانور تک کو اس درجہ نظم و ضبط کا عادی بنا دیا۔


بادشاہ نے میری جانب دیکھا، مجھے اپنی موت سامنے نظر آ رہی تھی، میں دربار سے نکل آیا۔ تبھی ایک شخص نے آپ کا نام لیا کہ میرے مسئلے کا حل آپ کے پاس ہی ہوسکتا ہے۔ میں دو دن کی مسافت کے بعد یہاں پہنچا ہوں، دی گئی مدت میں سے چار دن باقی ہیں، اب میرا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

فقیر نے سر جھکایا اور آہستہ سے بولا، واپس جاؤ اور بادشاہ سے کہو کہ 30ویں دن تم بھرے دربار میں ماحول کی افادیت ثابت کرو گے 

مگر میں تو یہ کبھی نہ کر سکوں گا ۔ وزیر نے لا چارگی سے کہا؛

اۤخری دن مَیں خود دربار میں آؤں گا۔ فقیر نے سر جھکائے ہوئے کہا۔

وزیر مایوسی اور پریشانی کی حالت میں واپس دربار چلا آیا۔


مقررہ مدت کا اۤخری دن تھا دربار کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ وزیر کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ سب کی نظریں بار بار دروازے کی طرف اٹھتی تھیں کہ اچانک ایک مفلوک الحال سا شخص اپنا مختصر سامان کا تھیلا اٹھائے دربار میں داخل ہوا۔ بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا ، وقت کم ہے میں نے واپس جانا ہے۔ اس وزیر سے کہو تربیت کی افادیت کا ثبوت دوبارہ پیش کرے۔ تھوڑی دیر بعد ہی دوسرے وزیر نے تالی بجائی اور دوبارہ وہی منظر پلٹا۔ دربار کے دروازہ سے دس بلیاں اسی کیفیت میں چلتی ہوئی سامنے والے دروازے کی طرف بڑھنے لگیں۔ سارا مجمع سانس روکے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وزیر نے امید بھری نگاہوں سے فقیر کی طرف دیکھا جب بلیاں عین دربار کے درمیان پہنچیں تو فقیر آگے بڑھا اور ان کے درمیان جا کے اپنا تھیلا اُلٹ دیا تھیلے میں سے موٹے تازے چوہے نکلے اور دربار میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے بلیوں کی نظر جیسے ہی چوہوں پر پڑی انہوں نے منہ کھول دیئے، پلیٹیں اور موم بتیاں دربار میں بکھر گئیں۔ ہر طرف بھگدڑ مچ گئی بلیاں چوہوں کے پیچھے لوگوں کی جھولیوں میں گھسنے لگیں۔ لوگ کرسیوں پر اچھلنے لگے دربار کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا۔


فقیر نے بادشاہ کی طرف دیکھا بولا؛ آپ کسی جنس کی جیسی بھی اچھی تربیت کر لیں، اگر اس کے ساتھ اسے اچھا ماحول فراہم نہیں کریں گے تو تربیت کہیں نہ کہیں اپنا اثر کھو دے گی کامیاب کردار کے لئے تربیت کے ساتھ ساتھ بہتر ماحول بے حد ضروری ہے۔

 اس سے پہلے کہ بادشاہ اسے روکتا فقیر دربار کے دروازے سے نکل گیا تھا۔


ہمارے ہاں ساری ذمہ داری استاد کی تربیت پر ڈال دی جاتی ہے، گھروں کا کیا ماحول ہے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی 


_

بچوں کو عیش و عشرت کے بجائے تعلیم وتربیت پر زور دینا چاہیے

 عبدالستار ایدھی مرحوم سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا، آپ نے ہزاروں لاوارث لاشیں دفنائیں، کبھی کسی لاش کی بگڑی حالت یا اس پر تشدد دیکھ کر رونا آیا؟


انھوں نےآنکھیں بند کرکے گہری سوچ میں غوطہ زن ہوتے ہوئے کہا تشدد یا بگڑی لاش تو نہیں البتہ ایک مرتبہ میرے رضاکار ایک صاف ستھری لاش لے کر آئے جو تازہ انتقال کئے بوڑھے مگر کسی پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانے کی لگ رہی تھی. اس کےسفید چاندی جیسے بالوں میں تیل لگا ہوا تھا. اور سلیقے سے کنگھی کی ہوئی تھی. دھوبی کے دھلے ہوئے سفید اجلے کلف لگے سوٹ میں اس کی شخصیت بڑی باوقار لگ رہی تھی. مگر تھی وہ اب صرف ایک لاش، ایدھی صاحب پھر کچھ سوچتے ہوئے گویا ہوئے.


ہمارے پاس روزانہ کئی لاشیں لائی جاتی ہیں. مگر ایسی لاش جو اپنے نقش چھوڑ جائے. کم ہی آتی ہیں اس لاش کو میں غور سے دیکھ رہا تھا. کہ میرے رضاکار نے بتایا. اس نے کراچی کی ایک پوش بستی کا نام لے کر کہا کہ یہ لاش اس کے بنگلے کے باہر پڑی تھی.


ہم جونہی بنگلے کے سامنے پہنچے تو ایک ٹیکسی میں سوار فیملی جو ہمارا ہی انتظار کر رہی تھی اس میں سے ایک نوجواں برآمد ہوا اور جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک لفافہ ہمیں تھماتے ہوئے بولا۔ یہ تدفین کے اخراجات ہیں۔ پھر وہ خود ہی بڑبڑایا۔ یہ میرے والد ہیں۔ انکا خیال رکھنا اچھی طرح غسل دے کر تدفین کر دینا۔ اتنے میں ٹیکسی سے آواز آئی۔ تمھاری تقریر میں فلائٹ نکل جائے گی۔ یہ سنتے ہی نوجواں پلٹا اور مزید کوئی بات کئے ٹیکسی میں سوار ہو گیا اور ٹیکسی فراٹے بھرتی ہوئی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔


ایدھی صاحب بولے اس لاش کے متعلق جان کر مجھے بہت دکھ ہوا اور میں ایک بار پھر اس بدقسمت شخص کی جانب دیکھنے لگا تو مجھے ایسے لگا جیسے وہ بازو وا کئے مجھے درخواست کر رہا ہو کہ ایدھی صاحب ساری لاوارث لاشوں کے وارث آپ ہوتے ہیں مجھ بدقسمت کے وارث بھی آپ بن جائیں میں نےفوراً فیصلہ کیا کہ اس لاش کو غسل بھی میں دونگا اور تدفین بھی خود کرونگا پھر جونہی غسل دینے لگا تو اس اجلے جسم کو دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ جو شخص اپنی زندگی میں اس قدر معتبر اور حساس ہوگا۔ اس نے اپنی اولاد کی پرورش میں کیا ناز و نعم نہ اٹھائے ہونگے۔ مگر بیٹے کے پاس تدفین کا وقت بھی نہ تھا۔ اسے باپ کو قبر میں اتارنے سے زیادہ فلائٹ نکل جانے کی فکر تھی۔ اور یوں اس لاش کو غسل دیتے ہوئے میرے آنسو چھلک پڑے۔ پھر وہ اپنے کندھے پر رکھے کپڑے سے آنسو پونچھتے ہوئے بولے، اس دن میں انسانیت کی ڈوبتی نیٌا پر رو پڑا. 


 خدارا  اپنی اولادوں کی عیش و عشرت کی بجائے بہتر تعلیم و تربیت پر زیادہ فوکس کریں۔


صحرائے تھر کے بچے کی لاجواب زہانت

 اشفاق احمد صاحب فرماتے ہیں کہ سندھ میں صحرائے تھر میں کسی مقام پر ڈیرا لگا رکھا تھا، ایک بستی سے بہت سے لوگ نکلتے بکریاں جانور چرانے جاتے کچھ شہر کو جاتے کچھ مختلف اجناس بیچنے جاتے۔


اُن ہی لوگوں میں ایک نو عمر لڑکا پندرہ سولہ سال کا سر پر تربوز کا ٹوکرہ رکھ کر نکلتا اور اس کے پیچھے پیچھے ایک ننھی سی بچی جس کی عمر پانچ چھ سال ہوگی وہ چلتی۔ 


میں نے پوچھا تو پتہ چلا کہ ماں باپ مرچکے ہیں اس لیے یہ لڑکا تربوز اور کبھی خربوزے دوسری بستیوں میں جا کر بیچتا ھے اور بہن کو بھی ساتھ رکھتا ھے گھر اکیلے نہیں چھوڑتا۔


ایک دن صبح اشفاق صاحب نے اُسے بُلایا اور پوچھا کہ ایک بات تو بتاو صبح تم جب جاتے ہو تو تماری بہن تمارے پیچھے جب واپس آتے ہو تب بھی یہ تمارے پیچھے چلتی ھے حالانکہ اسے تمارے آگے تماری آنکھوں کے سامنے چلنا چاہیے اس طرح یہ تمارے دھیان میں رہے گی۔


اس پر اُس لڑکے نے جو جواب دیا وہ  جگر چھلنی کر گیا، کہنے لگا:

*“جناب آپکو پتا ھے گرمی سخت ھے اور سورج آگ برساتا ھے۔ جب میں سر پر ٹوکرا رکھ کر چلتا ہوں تو ٹوکرے سمیت میرا سایہ بڑا بنتا ھے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ میری بن ماں باپ کی بہن، میرے سایے میں رہے، میرے سائے میں چلے اور دھوپ سے بچی رہے۔”*


اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ آنسو تو روکے نہ رکتے  تھے۔ ساتھ آہیں بھی نکل پڑیں۔ اُس صحرائی بچے کے یہ جملے سن  کر، بس اس ان پڑھ نو عمر  بچے نے عبادت کے ڈھنگ، بہنوں کے حقوق، چھوٹوں پر شفقت،  یتیم کی رکھوالی اور انسانیت؛ سب کچھ ان دو جملوں میں سمجھا دیا تھا

عورت کیا ہے


میں نہر کے کنارے بنے ڈھابے پہ مردہ دِلی کے ساتھ بیٹھا چائے کا انتظار کررہا تھا۔ دِل عجیب بوجھل سا تھا اور چہرے پہ بارہ بج رہےتھے۔

گاؤں کے ایک باباجی میرے پاس آ کے بیٹھ جاتےہیں اور کہتے ہیں  پُتر خیر ہے بڑا پریشان لگ رہا ہے۔ 

میں کمزور سی آواز میں کہتاہوں کہ بس بابا جی کیا بتاؤں ، گھر سے لڑ کر آیاہوں۔

میری بیوی کو پتہ نہیں کیوں میری باتیں سمجھ ہی نہیں آتیں۔ صحیح کہتےہیں عورت کی عقل اُس کے گھُٹنوں میں ہوتی ہے۔

بابا جی مسکرائے اور بولے جا وے جھلّیا تیرا وی کوئی حال نہیں۔

پَر پُتر یہ جس نے مثال بنائی ہے نہ کہ عورت کی عقل گھٹنوں میں ہوتی ہے وہ خود کوئی پاگل ہی ہو گا۔

میں نے کہا "نہ بابا جی نہ آپ نہیں جانتے اِن عورتوں کو۔“

بابا جی بولے نہیں  پُتر تُو نہیں جانتا اصل میں عورت کو عورت کی شان کو ۔

یہ تو وہ ہے جس کے ساتھ رب اپنی محبت کو ملا رہا ہے۔

اتنے میں لڑکا چائے لے کر آ جاتا ہے اور میں چائے کی چُسکی لےکر پھر بابا جی کی طرف متوجہ ہو جاتا ہوں ۔

بابا جی اپنی چائے پِرچ میں ڈال کر ٹھنڈی کرنے لگ جاتے ہیں۔

بابا جی پِرچ سےہی چائے کی چُسکی لگا کے کہتے ہیں کہ واہ مزہ آ گیا چائے کا۔

چائے کی تعریف کرنے کے بعد بابا جی کہتے ہیں کہ سُن پُتر رب وہ ذات ہے جسے کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اُس ذات نے خود کی محبت کے بارے میں بتانا تھا کہ وہ انسان سے کتنی محبت کرتا ہے تو اُس نے ماں کا نام لیا کہ وہ ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ جب کہ ماں ایک عورت ہے۔ 

بیٹی کواللّٰہ نے اپنی رحمت قرار دےدیا جبکہ بیٹی بھی ایک عورت ہے۔

پُتر میرا ماننا یہ ہے کہ ہم مرد، عورت کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔ کہاں عورت اعلیٰ ظرف اور فراغ دِل کی مالک اور کہاں ہم کَم ظرف اور تنگ دِل مرد۔

مجھے بابا جی کی باتیں لبھانے لگ گئیں تھیں۔

بابا جی بولےکہ عورت ہی وہ ہستی ہے جس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی بس اسی بات سے ہی تو عورت کی شان کا اندازہ لگا لے۔

جب وہ آس سے ہوتی ہے تو اپنی پسندکی سب چیزیں چھوڑ دیتی ہے اپنی اولاد کے لیے۔ جب اولاد جنم دیتی ہے تو زندگی اورموت کی کشمکش میں ہوتی ہے، پتہ ہی نہیں ہوتا کہ جیے گی یا مَر جائے گی۔

پتہ ہے پُتر بائیس ہڈیاں بیک وقت ٹوٹنے کے جتنا درد سہتی ہے ایک بچے کو جنم دیتے وقت۔ اتنا درد کبھی محسوس بھی کیا ہے تم نے۔؟

میں بابا جی کی باتوں سے لاجواب ہوتا جا رہاتھا اور آج عورت کے اصل مقام کا پتہ چل رہا تھا مجھے۔

بابا جی بولےابھی آگے سُن پُتر اورکلیجے پہ ہاتھ رکھ کے سُنِیں ذرا کہیں کلیجہ پھٹ ہی نہ جائے تیرا یہ کڑوا سچ سُن کے۔

پتہ ہے عورت کی سب سے بڑی خُوبی کیا ہے وہ بات بات پہ مرد کی طرح مردانگی نہیں دکھاتی، وہ مرد پہ تھپڑوں کی بارش نہیں کرتی۔

وہ مرد کو اُس کی اولاد کے سامنے گندی گالیاں نہیں دیتی۔ وہ غیرت کے نام پہ مردوں کے قتل نہیں کرتی۔ وہ بھوکے بھیڑیے کی طرح کسی پہ جھپٹ کے اس کا ریپ نہیں کرتی۔

وہ مردکو غُصے میں طلاق نہیں دیتی۔ وہ گلیوں بازاروں میں مرد پہ آوازیں نہیں کَستی۔

بابا جی کی باتیں سُن کے میں شرمندہ ہونے لگ گیا اور آنکھیں جھک گئیں میری۔ پسینے کی بوندیں میرے ماتھے پہ نمودار ہونا شروع ہو گئیں۔

بابا جی نے شاید میری شرمندگی محسوس کر لی تھی، اِسی لیے وہ تھوڑی دیر کے لیے چُپ ہو گئے۔

پھر بابا جی نے ڈھابے والے کو چائے کے کپ واپس لے جانے کے لیے آواز دےدی۔

اور پھر دوبارہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ پُتر تُو سمجھدار لڑکا ہے۔ بس ذرا جذباتی ہو جاتا ہے۔ 

بات کی نوعیت کو سمجھا کر اور پھر فیصلے کیا کر۔

پُتر ایک گھر میں روزانہ سب سے زیادہ بار جو نام لیا جاتا ہے وہ ایک ماں کا ہوتا ہے یا بڑی بہن کا اور یہ دونوں عورت ذات ہیں۔

ہمارے گھروں کا وجود عورتوں سےہے۔ گھر مرد نہیں بساتے پُتر عورتیں بسایا کرتی ہیں۔ گھر کی رونقیں عورتوں کے ہی توسط سے ہوتی ہیں بیٹا۔

ہر چیز سلیقے سے ملتی ہے، کپڑے صاف ستھرے ملتے ہیں، برتن دُھلےدُھلائے ملتے ہیں، بہترین کھانے ہمیں نصیب ہوتے ہیں۔

چھوٹے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال بخوبی سر انجام دی جاتی ہے تو پُتر یہ سارا جادو ایک عورت ہی چلاتی ہے ورنہ تو ایک سَگا باپ بھی اپنے چھوٹے بچے کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتا۔

بچہ زیادہ روئے تو شوہر اپنی بیوی سے کہہ دیتا ہے کہ اِسے کمرے سے باہر لے جاؤ میری نیند میں خلل پڑ رہا ہے۔

پُترعورت بہت ہی پیاری چیز ہے۔ یہ مرد کے کردار پہ اُنگلیاں نہیں اُٹھاتی، یہ مرد کو اُس کے ماضی کے طعنے نہیں دیتی۔

پُتر عورت بیٹی ہے تو رب کی رحمت ہے۔ ماں ہے تو قدموں تلے جنت لیے پھرتی ہے۔

بابا جی کی باتیں سُن کے پتہ چل رہا تھا کہ عورت دنیا کی کتنی انمول دولت ہے 

وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ 

”وجود زَن سے ہے کائنات میں رنگ “

پھر بابا جی بولے کہ جا پتر گھر چلا جا تیرا چہرہ بتا رہا ہے کہ تو سب سمجھ گیا ہے اور اب تیرا جلدی گھر جانے کو دل کر رہا ہے۔

میں بابا جی کے قدموں میں بیٹھ گیا اور بابا جی کے ہاتھ چوم کے بولا کے شکریہ بابا جی آپ نے میری غلطی کو 

دیکھ کے کوئی سزا نہیں سنائی بلکہ میری غلطی کو سدھارا اور احساس کروایا کہ میں غلط ہوں 

مجھے سب کی عزت کرنی چاہیے

بابا جی مسکرائے اور میرے سر پہ ہاتھ پھر کے بولے جیتا رہے پُتر اور اب گھر جا ،گھر والے تیرا انتظار کررہے ہونگے۔

واپس گھر جاتے ہوئے میرے قدموں میں اعتماد تھا اور دل مطمئن۔

افغانستان کی نئی حکومت اور وزراء 2021

‏افغانستان  کے نئے وزرا کی مکمل فہرست

چیف آف آرمی سٹاف 

قاری فصیح الدین


وزیراعظم: ملا محمد حسن اخند

نائب وزیراعظم اول: ملا عبدالغنی برادر

نائب وزیراعظم دوم: ملا عبدالسلام حنفی

وزیردفاع: مولوی محمد یعقوب

وزیرداخلہ: سراج الدین حقانی

وزیرخارجہ: مولوی امیرخان متقی

وزیرخزانہ: ملا ہدایت اللہ بدری‏وزیرتجارت: قاری دین حنیف

وزیرقانون: مولوی عبدالحکیم

وزیرتعلیم: مولوی نوراللہ منیر

وزیراطلاعات: ملا خیراللہ خیرخواہ

وزیرحج و اوقاف: مولوی نورمحمد ثاقب

وزیرسرحدات و قبائل: ملا نوراللہ نوری

وزیرمہاجرین: حاجی خلیل الرحمن حقانی

وزیرمواصلات: نجیب اللہ حقانی

وزیرہائیرایجوکیشن: عبدالباقی

‏وزیرمعدنیات: ملا محمد یونس اخندزادہ

وزیر پٹرولیم و کان کنی: ملا محمد عیسی اخند

وزیرپانی و بجلی: ملا عبداللطیف منصور

وزیر شہری ہوا بازی اور ٹرانسپورٹ: ملا حمیداللہ اخندزادہ

وزیر دعوت و ارشاد(امربالمعروف و نھی عن المنکر): شیخ محمد خالد

وزیر فوائد عامہ: ملا عبدالمنان عمری

ہندوستان کے حکمرانوں کی تاریخ

 

غوری سلطنت سے نریندر مودی تک,

*غوری سلطنت*

1 = 1193 محمد غوری

2 = 1206 قطب الدین ایبک

3 = 1210 آرام شاہ

4 = 1211 التتمش

5 = 1236 ركن الدين فیروز شاہ

6 = 1236 رضیہ سلطان

7 = 1240 معیزالدین بہرام شاہ

8 = 1242 الہ دين مسعود شاہ

9 = 1246 ناصرالدين محمود

10 = 1266 غیاث الدین بلبن

11 = 1286 رنگ كھشرو

12 = 1287 مذدن كےكباد

13 = 1290 شمس الدین كےمرس

*غوری سلطنت اختتام*

(دور حکومت -97 سال تقریبا)

 *خلجي سلطنت*

1 = 1290 جلال الدین فیروز خلجی

2 = 1292 الہ دین خلجی

4 = 1316 شھاب الدین عمر شاہ

5 = 1316 قطب الدین مبارک شاہ

6 = 1320 ناصر الدین خسرو شاہ

*خلجی سلطنت اختتام*

(دور حکومت -30 سال تقریبا)

 *تغلق سلطنت*

1 = 1320 غیاث الدین تغلق (اول)

2 = 1325 محمد بن تغلق (دوم)

3 = 1351 فیروز شاہ تغلق

4 = 1388 غیاث الدین تغلق (دوم)

5 = 1389 ابوبکر شاہ

6 = 1389 محمد تغلق (سوم)

7 = 1394 الیگزینڈر شاہ (اول)

8 = 1394 ناصر الدین شاہ (دوم)

9 = 1395 نصرت شاہ

10 = 1399 ناصرالدين محمدشاہ (دوم)

11 = 1413 دولت شاه

*تغلق سلطنت اختتام*

(دور حکومت -94 سال تقریبا)

 *سعید سلطنت*

1 = 1414 كھجر خان

2 = 1421 معیزالدین مبارک شاہ (دوم)

3 = 1434 محمد شاہ(چہارم)

4 = 1445 الہ دين عالم شاہ

*سعید سلطنت اختتام*

(دور حکومت -37 سال تقریبا)

*لودھی سلطنت*

1 = 1451 بهلول لودھی

2 = 1489 الیگزینڈر لودھی (دوم)

3 = 1517 ابراہیم لودھی

*لودھی سلطنت اختتام*

(دور حکومت -75 سال تقریبا) 

*مغلیہ سلطنت*

1 = 1526 ظہیرالدين بابر

2 = 1530 ہمایوں

*مغلیہ سلطنت اختتام*

*سوري سلطنت*

1 = 1539 شیر شاہ سوری

2 = 1545 اسلام شاہ سوری

3 = 1552 محمود شاہ سوری

4 = 1553 ابراہیم سوری

5 = 1554 پرویز شاہ سوری

6 = 1554 مبارک خان سوری

7 = 1555 الیگزینڈر سوری

*سوری سلطنت اختتام*

(دور حکومت -16 سال تقریبا)

*مغلیہ سلطنت دوبارہ*

1 = 1555 همايوں(دوبارہ گدی نشین)

2 = 1556 جلال الدين اکبر

3 = 1605 جہانگیر سلیم

4 = 1628 شاہ جہاں

5 = 1659 اورنگزیب

6 = 1707 شاہ عالم (اول) 

7 = 1712 بهادر شاہ

8 = 1713 پھاروكھشير

9 = 1719 ريپھد راجت

10 = 1719 ريپھد دولا

11 = 1719 نےكشييار

12 = 1719 محمود شاہ

13 = 1748 احمد شاہ

14 = 1754 عالمگیر

15 = 1759 شاہ عالم

16 = 1806 اکبر شاہ

17 = 1837 بہادر شاہ ظفر

*مغلیہ سلطنت اختتام*

(دور حکومت -315 سال تقریبا)

 *برطانوی راج*

1 = 1858 لارڈ كینگ

2 = 1862 لارڈ جیمز بروس یلگن

3 = 1864 لارڈ جهن لورےنش

4 = 1869 لارڈ رچارڈ میو

5 = 1872 لارڈ نورتھبك

6 = 1876 لارڈ ایڈورڈ لٹین

7 = 1880 لارڈ جيورج ریپن

8 = 1884 لارڈ ڈفرین

9 = 1888 لارڈ هنني لےسڈون

10 = 1894 لارڈ وکٹر بروس یلگن

11 = 1899 لارڈ جيورج كرجھن

12 = 1905 لارڈ گلبرٹ منٹو

13 = 1910 لارڈ چارلس هارڈج

14 = 1916 لارڈ فریڈرک سےلمسپھورڈ

15 = 1921 لارڈ ركس ايجےك رڈيگ

16 = 1926 لارڈ ایڈورڈ ارون

17 = 1931 لارڈ پھرمےن وےلگدن

18 = 1936 لارڈ اےلےكجد لنلتھگو

19 = 1943 لارڈ اركبالڈ وےوےل

20 = 1947 لارڈ ماؤنٹ بیٹن

*برطانوی سامراج کا اختتام*🇮🇳بھارت، وزرائے اعظم,,

1 = 1947 جواہر لال نہرو

2 = 1964 گلزاری لال نندا

3 = 1964 لال بهادر شاستری

4 = 1966 گلزاری لال نندا

5 = 1966 اندرا گاندھی

6 = 1977 مرارجی ڈیسائی

7 = 1979 چرن سنگھ

8 = 1980 اندرا گاندھی

9 = 1984 راجیو گاندھی

10 = 1989 وشوناتھ پرتاپسه

11 = 1990 چندرشیکھر

12 = 1991 پيوينرسه راؤ

13 = 1992 اٹل بہاری واجپائی

14 = 1996 چڈيدے گوڑا

15 = 1997 ايل كےگجرال

16 = 1998 اٹل بہاری واجپائی

17 = 2004 منموھن سنگھ 

18 = 2014 نریندر مودی

*764 سالوں تک مسلم بادشاھت ہونے کے باوجود بھی ہندو، ھندوستان میں باقی ہیں. مسلمان حکمرانوں نے کبھی بھی ان کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا*

اور ۔۔۔۔

*ھندوں کو اب تک 100 سال بھی نہیں ہوئے اور یہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں*


روح کے ڈاکٹر سے بھی علاج ضروری ہے

 " آپ مجھے صرف ساٸنسی طور پر سمجھا دیں کہ ہم مسلمان اگر کسی مردے کو دفناتے وقت زمین سے یہ کہ دیں کہ یہ جسم امانتا” دفن کیا جا رہا تو سالوں بعد بھی اس میت کی منتقلی کے وقت جب زمین کھودی جاتی ہے تو وہ مرا ہوا جسم کیوں تازہ ہوتا ہے ؟ جب کہ سائنس  کے اصولوں کے مطابق تو اس جسم کو گل سڑ جانا چاہییے تھا   وہ کون سی چیز ہے جو زمین کو اسے کھانے سے روکتی ہے ؟ " 

فون یا ایس ایم ایس کے ذریعے ایک پل میں دنیا کے دوسرے کونے تک ہیغام پہنچنے کے تو معترف ہیں لیکن ایک ماں کے دل سے نکلی ایک پکار پر ہزاروں میل دور بیٹھے اس کے بچے کے دل کی دھڑکن اچانک تیزہونے کے جواز ڈھونڈتے ہیں .چھوٹی سی ٹی وی سکرین پر لہروں کے ذریعے پہنچی زندہ تصویر پر تو یقین کرتے ہیں لیکن بند آنکھوں اور من کے اندر لگی سکرین جو دل سے دل کے تار جڑنے پر روشن ہوتی ہے قابل بھروسا نہیں سمجھتے ؟؟ ریکی اور ہاتھ سے نکلتی لہروں کے ذریعے علاج کو تو مانتے ہیں لیکن کوی ہاتھ تھام کر اس پر دم کرکے پھونک دے تو ہم شک میں پڑ جاتے ہیں ۔۔۔ اس دنیا کے ساتھ ایک متوازی دنیا بھی موجود ہے اس دنیا کو جاننے کے لیے بھی ایک ساٸنس موجود ہے جسے روحانیت کہتے ہیں  اور اس دنیا کے ساٸنس دانوں کو صوفی کہلاتا ہے۔ جیسے جسمانی درد کو دور کرنے  پین کلر کھاتے ہیں ویسے ہی وہاں کے ساٸنس روح کے درد کے لیے دعا ۔ دم ۔عبادت اور ورد کی شکل میں پین کلر تجویز کرتے ہیں " 

 ہاشم  ندیم کا فکر انگیز ناول " عبدالله " سے اقتباس

ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں

 اگر آپ صحت مند ہیں تو اللہ کا  ہر لمحہ شکر ادا کریں


ہمارے ملک کے ایک  نامور سیاست دان نے بتایا کہ‘ آصف علی زرداری نے انہیں کھانے کی دعوت دی‘ یہ دعوت پر پہنچے تو ٹیبل پر درجنوں قسم قسم کے  کھانے لگے تھے‘ان کے بقول میں نے اپنی پلیٹ اٹھائی  اور مختلف قسم کے کھانے اپنی پلیٹ میں ڈالنے لگا۔ اتنی دیر میں  زرداری صاحب کا سیکرٹری آیا اور ان کا کھانا ان کے سامنے رکھ دیا‘ چھوٹی چھوٹی کولیوں میں تھوڑی سی بھنڈی‘ دال‘ ابلے ہوئے چاول اور آدھی چپاتی تھی‘ زرداری صاحب نے چند لقمے لیے اورخانساماں ٹرے اٹھا کر لے گیا‘ میں نے ان سے ان کی سادہ خوراک کے بارے میں پوچھا تو وہ ہنس کر بولے ’’میری خوراک بس بھنڈی اور سادہ چاول تک محدود ہے‘ میں ان کے علاوہ کچھ نہیں کھا سکتا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیاآپ گوشت نہیں کھاتے‘‘ وہ مسکرائے اور بولے ’’میں گوشت کھا ہی نہیں سکتا‘‘  

میں کھانا کھا کر واپس آگیا لیکن آپ یقین کریں میں اس کے بعد جب بھی کھانا کھانے لگتا ہوں تو مجھے زرداری صاحب کی ٹرے یاد آ جاتی ہے اور میں کھانا بھول جاتا ہوں۔


جاوید چودھری لکھتے ہیں کہ ارشاد احمد حقانی پاکستان کےسینئر صحافی اور کالم نگارتھے‘ روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے تھے‘میں نے  ان سے لکھنا سیکھا‘ شاہ صاحب نے بتایا میں 1998ء میں ایران جا رہا تھا‘ ارشاد احمد حقانی سے ملاقات ہوئی‘ انہوں نے پوچھا‘ کیا آپ مشہد بھی جائیں گے؟ میں نے عرض کیا ’’جی جاؤں گا‘‘ انہوں نے فرمایا ’’آپ میرے لیے وہاں خصوصی دعا کیجیے گا‘‘میں نے وعدہ کر لیا لیکن اٹھتے ہوئے پوچھا ’’آپ خیریت سے تو ہیں؟‘‘ حقانی صاحب دکھی ہو کر بولے ’’میری بڑی آنت کی موومنٹ رک گئی ہے‘ پاخانہ خارج نہیں ہوتا‘ میں روز ہسپتال جاتا ہوں اور ڈاکٹر مجھے بیڈ پر لٹا کر مشین کے ذریعے میری بڑی آنت سے پاخانہ نکالتے ہیں اور یہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے‘‘ شاہ صاحب نے اس کے بعد کانوں کو ہاتھ لگایا‘ توبہ کی اور کہا ’’ہمیں روز اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے‘ ہم اپنے منہ سے کھا بھی سکتے ہیں اور ہمارا کھایا ہوا ہمارے پیٹ سے نکل بھی جاتا ہےورنہ دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ اپنی مرضی سے کھا سکتے ہیں اور نہ نکال سکتے ہیں‘‘


 یہ بات سن کر مجھے بے اختیار چودھری شجاعت حسین یاد آگئے‘ چودھری صاحب خاندانی اور شان دار انسان ہیں‘ میرے ایک دوست چند دن قبل ان کی عیادت کے لیے گئے‘ چودھری صاحب خوش تھے اور بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے‘ میرے دوست نے صحت کے بارے میں پوچھا تو چودھری صاحب نے جواب دیا ’’میں بہت امپروو کر رہا ہوں‘ میں اب اپنے منہ سے کھا بھی لیتا ہوں اور اپنےپائوں پر کھڑا بھی ہو جاتا ہوں‘‘ دوست نے پوچھا ’’ آپ کی حالت اس سے پہلے کیسی تھی؟‘‘ چودھری صاحب بولے ’’میری ٹانگیں میرا بوجھ نہیں اٹھاتی تھیں اور میرے پیٹ میں ٹیوب لگی ہوئی تھی‘ ڈاکٹر مجھے اس کے ذریعے کھلاتے تھے‘ میں منہ کے ذائقے کو ترس گیا تھا‘ الحمد للہ میں اب تھوڑا تھوڑا کر کے کھا بھی لیتا ہوں اور چل پھر بھی سکتا ہوں‘‘ 

جاوید چودھری لکھتے ہیں کہ

 میں بینک کے ایک مالک کو جانتا ہوں‘ یہ صبح جاگتا ہے تو چار بندے ایک گھنٹہ لگا کر اسے بیڈ سے اٹھنے کے قابل بناتے ہیں‘ یہ اس کے پٹھوں کا مساج کر کے انہیں اس قابل بناتے ہیں کہ یہ اس کے جسم کو حرکت دے سکیں‘ اس کی گاڑی کی سیٹ بھی مساج چیئر ہے‘ یہ سفر کے دوران اسےہلکا ہلکا دباتی رہتی ہے اوران کے دفتر اور گھر دونوں جگہوں پر ایمبولینس ہر وقت تیار کھڑی رہتی ہے‘ آپ دولت اور اثرورسوخ دیکھیں تو آپ رشک پر مجبور ہوجائیں گے اور آپ اگر اس کی حالت دیکھیں تو آپ دو دوگھنٹے توبہ کرتے رہیں‘ 


اسی طرح پاکستان میں ہوٹلز اور موٹلز کے ایک ٹائی کون ہیں‘ صدرالدین ہاشوانی‘ یہ پانچ چھ برسوں سے شدید علیل ہیں‘ ڈاکٹر اورفزیو تھراپسٹ دونوں ہر وقت ان کے ساتھ رہتے ہیں‘ ان کے پرائیویٹ جہاز میں ان کے ساتھ سفر کرتے ہیں‘ فزیو تھراپسٹ دنیا جہاں سے ان کے لیے فزیو تھراپی کی مشینیں تلاش کرتے رہتے ہیں‘ مجھے جرمنی کے شہر باڈن جانے کا اتفاق ہوا‘ یہ مساج اوردیسی غسل کا ٹاؤن ہے‘ شہر میں مساج کے دو دو سو سال پرانے سنٹرہیں اور دنیاجہاں سے امیر لوگ مالش کرانے کے لیے وہاں جاتے ہیں‘ چھ چھ ماہ بکنگ نہیں ملتی ‘ آپ وہاں لوگوں کی حالت دیکھیں تو آپ کی نیند اڑ جائے گی‘ مریض کے پروفائل میں دس دس بلین ڈالر کی کمپنی ہوتی ہے لیکن حالت دیکھیں گے تو وہ سیدھا کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں ہوتا‘ہم انسان ایک نس کھچ جانے کے بعد اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہتے‘ ہم چمچ تک نہیں اٹھا پاتے اور نگلنے کے قابل نہیں رہتے‘ یہ ہماری اصل اوقات ہے۔

تو پھر کس بات کا غرور اور فخر 

توبہ کرتے رہیں معافی مانگتے رہیں 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے رہیں 

اور اس کے سامنے اپنا سر جھکاتے رہیں۔

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...