Friday, July 21, 2017

بے لباس بادشاہ.....................نوشاد حمید................ زہریلا سچ



قارئین اس مشہور و معروف حکایت سے یقینا واقف ہوں گے جس میں ایک ایسے بادشاہ کا ذکر ہے جو دُوسرے مُلک سے آئے ٹھگوں کے ہاتھوں بے وقوف بنتا ہے۔ وہ یوں کہ ٹھگ بادشاہ سے کہتے ہیں کہ اُن کے پاس ایسا لباس ہے کہ جسے صرف عقلمند ہی دیکھ سکتے ہیں، بیوقوف کو وہ نظر نہیں آتا۔ اور یوں وہ بادشاہ کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا کر اُسے ننگا کر کے اپنا نام نہاد جادوئی لباس پہنانے کی اداکاری کرتے ہیں۔ چونکہ بادشاہ کے درباریوں میں سے کوئی بھی خود کو بیوقوف کہلوانے کو تیار نہیں ہوتا، اس لیے سارے بادشاہ کے تن پر اَن سجے لباس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیتے ہیں۔ بادشاہ ان ٹھگوں کو شاہی خزانے سے بیش بہا ہیرے جواہرات دے کر رخصت کر دیتا ہے اور پھر اپنے محل سے باہر نکل کر رعایا کو اس خاص لباس کے درشن دینے جاتا ہے۔ رعایا بادشاہ کو عریاں حالت میں دیکھ کر بھی خوف کے عالم میں زبان سے ایک لفظ ادا کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ مگر ہماری اس مملکتِ پاکستان میں ایک پٹھان، بادشاہ کو دیکھ کر پُکار اُٹھتا ہے کہ بادشاہ ننگا ہے۔ اس پٹھان کو چُپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر وہ پھر بھی پُکار رہا ہے۔ اب جا کر بادشاہ کو احساس ہوا ہے کہ اُسے ٹھگوں نے تو بے وقوف بنایا ہی بنایا ہے، مگر اس ناٹک میں اُس کے درباریوں نے بھی اُسے مطلق اندھیرے میں رکھا۔ یہ عقل مند بادشاہ ہے ماضی کا خود ساختہ امیر المومنین، قوم کا اِکلوتا نجات دہندہ اور قائد اعظم ثانی عزت مآب میاں محمد نواز شریف۔ ہر نااہل آدمی کے ساتھ یہی مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ اُسے اپنی قابلیت پر یقین نہیں ہوتا سو وہ اپنے ارد گرد ایسے خوشامدی اور مداری اکٹھے کر لیتا ہے جو اُسے اُس کے عظیم ترین ہونے کا یقین دلاتے رہیں۔ اُسے عقلِ کُل اور ناگزیرِ سلطنت قرار دیتے رہیں۔ ایک ایسی شخصیت جس کے بغیر خدانخواستہ مُلک کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ سو’مُلکی سا لمیت‘ اور ’عظیم تر قومی مفاد‘ کی خاطر شخصی اقتدار کو طول دینے کا ایک غیر جمہوری ایجنڈا اپنا کر ہر جائز ناجائز حربہ اپنایا جاتا ہے۔ مگر جس طرح کوئی بحری جہاز ڈوبنے لگے تو سب سے پہلے اس جہاز کے اندر چوہے اُسے چھوڑ کر رخصت ہوتے ہیں۔ یہی حال ان سیاسی چوہوں کا ہوتا ہے جو حکمران کو اندھیرے میں رکھ کر اقتدار کی چُوری میں سے اپنا حصّہ کُترتے رہتے ہیں مگر اقتدار کی نیّا ڈولنے لگے تو فٹا فٹ سب کچھ سمیٹ لپیٹ کر دُوسرے سیاسی بیڑے میں چھلانگ لگا دیتے ہیں اور اپنے سابق آقا کی سیاسی کشتی کی رُسوائی اور ذِلت کے سمندر میں غرقابی کے منظر کو دُور سے خندہ لب دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔ اور پھر خوشامدوں کا سلسلہ اگلے آقا کی سیاسی موت تک جاری رہتا ہے۔ 

نواز شریف موجودہ دور کا نیرو ہے۔ اس میں اقتدار کسی اور کو سونپنے کا حوصلہ نہیں۔ اب جب کہ اسے یقین ہو چلا ہے کہ اقتدار کا ہُما اُس کے سر سے رخصت ہونے والا ہے اور مستقبل میں اُس کے خاندان کے کسی اور فردکے سر پر حکمرانی کا تاج نہیں سجے گا تو اُس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ جاتے جاتے نیرو کی مانند مُلکی سلامتی، ریاست کے وقار اور اداروں کے تقدس کو اپنے انتقام کی آگ میں پُوری طرح بھسم کر کے جائے گا۔ آنے والے کے لیے اقتدار پھولوں کا تاج نہیں بلکہ کانٹوں کا جال ثابت ہو گا۔ اس اہم موڑ پر نواز شریف کو جتنا وقت زیادہ مِل رہا ہے، مُلک و قوم کے لیے اتنا ہی مہلک اور نقصان دہ ہے۔ کیونکہ اگر اسے اپنے خوفناک منصوبوں پر عمل درآ مد کا وقت مِل گیا تو پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر محاذ آرائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔ اس کے بیرونِ مُلک ہمدرد جن میں بہت سے پاکستان دُشمن افراد اور ادارے شامل ہیں، اس کی امداد میں کامیاب ہو گئے تو اگلے چند ماہ پاکستان کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاناما کیس کا فیصلہ جتنی جلدی آ جائے اُتنا ہی بہتر ہے۔
نواز شریف اپنے آخری دائو کھیل رہا ہے۔ ان آخری دائو میں سے ان کا ایک پسندیدہ اور آزمودہ دائو جلائو گھیرائوکے ذریعے سیاسی عدم استحکام کی صورتِ حال کو جنم دینا ہے۔ جس کی بدولت یہ ماضی میں مخالف حکومتوں کو گھُٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے رہے۔ مگر ایک پریشانی آ کھڑی ہوئی ہے۔ وہ یہ کہ آج ان کے پاس وہ ہزاروں سر پھرے کارکن نہیں ہیںجو ان کی ایک صدا پر اپنا تمام تر مستقبل اور معاش دائو پر لگانے کو تیار ہو جاتے تھے۔ جو شریفوں کے ایک اشارہ ابرو پر اپنی عزت وناموس کی پرواہ کیے بغیر میدانِ کارزار میں کُودجاتے تھے۔ سپریم کورٹ پر ہلّہ بولنا ہو، تحریک نجات میں پیپلز پارٹی کی حکومت اُلٹانی ہو، پولیس کی گولیوں اور ڈنڈوں سوٹوں کا مقابلہ کرنا ہو، عدلیہ بحالی تحریک کے پردے میں زرداری حکومت کی رِٹ کو متاثر کرنا ہو، سرکاری املاک کو نذرِ آتش کرنا ہو، مخالفین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا ہو، غرضیکہ جلائو گھیرائو اور محاذ آرائی کی سیاست کے انجن میں ان کارکنوں کے خون پسینے کو بطور ایندھن بھرا جاتا تھا اور پھر کام کی تکمیل کے بعد انہیں طاقِ فراموشی پر رکھ دیا جاتا تھا۔ کارکن اپنے لیڈروں کی تلاش میں سرگرداں رہتے، مگراقتدار کے چاند پر براجمان لیڈر زمین کی اس ادنیٰ مخلوق سے کیسے مِل سکتے تھے۔ 2013ء کے آر اوز الیکشن کے بعد انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب کارکنوں کی بھی ضرورت نہیں۔ بس پیسہ خرچو اور اُوپری سطح پر معاملات طے کر لو۔ پر خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ پاناما کیس تیار ہو گیا۔ جس نے معاملات کو نوّے کی دہائی کی سیاست میں لا کھڑا کیا۔ اب ان کی سیاسی گیم اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے تو آج انہیں دھتکارے، لتاڑے کارکنوں کی یاد بے طرح آ رہی ہے۔ فون کھڑکائے جا رہے ہیں۔ دروازوں پر جا کر رابطے کیے جا رہے ہیں۔ پتا لگتا ہے کہ کچھ بیچارے تو ذِلت اور بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر زندگی ہار بیٹھے۔ کچھ نے سیاست سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی۔ اور کچھ نے ایسی پارٹیوں میں جگہ بنالی جہاں اُنہیں مقام و مرتبہ مِلتا تھا ۔ یہ پُورا زور لگا رہے ہیں مگر انہیں کارکن دستیاب نہیں ہو رہے۔ چند خوشامدی وزراء و مشیران کے علاوہ ان کے ساتھ کوئی کھڑا نظر نہیں آ رہا۔اس وقت نواز شریف کو اپنے سیاسی جنازے پر بین ڈالنے والے بھانڈوں کی نہیں، بلکہ کفن پوش جنگجوئوں کی ضرورت تھی۔ نام نہاد یوتھ وِنگ کی جانب سے جے آئی ٹی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں پندرہ بیس سے زیادہ لوگ نظر نہیں آتے اور ’نوجوانوں‘ کے اس مظاہرے میں کوئی بھی پچاس سال کی عمر سے نیچے نہیں ہوتا۔ یہ ہے ان کی نوجوان نسل میں مقبولیت اور ان پر اثرات۔ فرعونِ وقت کی رعونت کس طرح پاش پاش ہو چکی ہے کہ یہ کارکنوں کو فون کرتے ہیں تو کوئی ان کا فون اُٹھانے کو تیار نہیں ہوتا۔ اور اُٹھا بھی لے تو آئیں بائیں شائیں کر کے ٹال رہا ہے۔ کیونکہ سارے ان کی فطرت سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ یہ کس طرح سے انہیں استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح دانستہ فراموشی کی ڈسٹ بِن میں پھینک دیں گے۔ یقینا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ شریف برادران جو کئی مرتبہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے عہدوں پر براجمان رہے۔ ہر سیاہ سفید کے مالک رہے۔ اُن کے پاس احتجاج کرنے کی خاطر چند سو کارکن بھی میسر نہیں۔ مان لیا کہ کرپٹ ہیں، جھوٹے ہیں، سازشی ہیں۔ مگر اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی والے بھی کرپٹ تھے، اس کے باوجود سندھ میں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان کارکن ان کے ایک اشارہ پر مر مٹنے کو تیار ہیں۔ نواز شریف نے کبھی عوام اور کارکنوں میں اپنی جڑیں بنانے کی کوشش ہی نہیں کیں، ہمیشہ پیسے کی چمک اور لوگوں کی خرید و فروخت پر انحصار کیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک بھی انہیں کارکنوں کی یاد نہ آئی کیونکہ اسی زعم میں مبتلا تھے کہ عدلیہ، میڈیا، انتظامیہ جہاں جہاں ضرورت پڑی، چمک کام دے جائے گی۔ مگر قدرت سب سے بڑی منصوبہ ساز ہے۔ اس کے فیصلوں کے آگے سارے قارون، فرعون و شداد بے بس ہو جاتے ہیں۔ آج ان پر ان کی کرتوتوں کی باعث بڑی مشکل آن پڑی ہے۔ کارکن تو بیچارے مظلوم تھے، کروڑوں اربوں سمیٹنے والے ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی بھی ان سے جان چھُڑانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔چند روز میں استعفوں کی مُوسلادھار بارش ہونے کو ہے۔ اطلاعات کے مطابق چند ایسی اعلیٰ شخصیات کے بھی استعفے تیار ہیں جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ یعنی گھر کے بھیدی ہی لنکا ڈھانے کو تیار ہیں۔ کوئی رشتے داری، کوئی قُربت کام نہیں آئے گی۔میڈیا پر ان کی صفائیاں پیش کرنے والے ممبران اسمبلی اور ترجمانوں میں سے ایک قبیل تو فصلی بٹیروں کی ہے جو بہت جلدی اُڑ جائیں گے دُوسرے کچھ مجبور قسم کے ممبرانِ اسمبلی ہیں جو جانتے ہیں کہ نواز شریف کی کرپشن کی صفائی پیش کرنا جُوئے شیر لانے سے کم نہیں، پھر بھی نوکری بچانے کی خاطر اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے وزیر مشیر تو نالائق تھے ہی، اس سے زیادہ نالائق ان کے وکلاء ہیں۔ جن کی ججوں کے سامنے بودے دلائل دیتے ہوئے گھگی بندھ جاتی ہے مگر باہر آ کر بڑھکیں مارتے پھرتے ہیں۔ اعتماد کا یہ عالم ہے کہ اخباری رپورٹس کے مطابق اس وقت ایک سول انٹیلی جنس ادارے کو اُن سو کے قریب ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی کی خفیہ نگرانی پر لگا دیا گیا ہے جن کے بارے میں قوی امکان ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کو عنقریب داغِ مفارقت دینے والے ہیں یا پھر اُن کا فارورڈ بلاک تشکیل پا رہا ہے۔ یہ ہے ان کی نام نہاد جمہوری پارٹی اور اپنے ممبرانِ اسمبلی پر اعتماد کی تشویش ناک صورتِ حال۔
سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کی ہنگامہ خیزی تو کچھ بھی نہیں،ابھی تو ہولناک انکشافات کے زیادہ خوفناک دھماکے ہوں گے۔ ابھی تو اور بہت سی دستاویزات زیرِ بحث ہی نہیں آئیں، جب ان پر بات ہو گی تو معلوم ہو گا کہ کرپشن کے پیسے کن گھنائونے اور انسانیت دُشمن کاموں میں استعمال ہوئے، بڑی دِل دہلا دینے وال داستانیں باہر آئیں گی۔ جے آئی ٹی ممبران کے پاس ایسے حقائق آ گئے ہیں، جن کی انہیں بھی توقع نہیں تھی۔وہ اس وقت خوف کی ایسی فضا میں ہیں کہ اپنی فیملیز کو سیکیورٹی خدشات کے باعث بیرونِ ملک شفٹ کر چکے ہیں اور خود بھی جان بچانے کی خاطر کچھ عرصہ مُلک سے باہر رہنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس وقت نواز شریف اکیلا کھڑا ہے اُس کے اپنے عزیز و اقارب بھی اس سیاسی بحران میں اُس سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔سپریم کورٹ میں ہونے والا فیصلہ وزیر اعظم کے خلاف نہیں، بلکہ پُوری مسلم لیگ نواز کٹہرے میں کھڑی ہے۔ نواز شریف اپنی ہی تخلیق کردہ بدعنوانی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ آج اُسے اپنے وہ جانثاراور سرفروش کارکن ضرور یاد آ رہے ہوں گے جن کے ساتھ اُس نے پُورے سیاسی کیریئر میں کبھی وفا نہیں کی۔ نواز شریف کی ہار اُس کے دُھتکارے ہوئے کارکنوں کی جیت ہے۔
کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا


Friday, July 7, 2017

کرائے کے حکمران...................... زہریلا سچ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,نوشاد حمید



کچھ دِنوں سے ریمنڈ ڈیوس کا نام دوبارہ سے خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ جی ہاں، وہی ریمنڈ ڈیوس جس نے 27 جنوری 2011ء کو دن دیہاڑے سڑک پر دو پاکستانیوں کو اپنی گن سے ہلاک کر ڈالا۔ اور اس کی مدد کو آئے امریکی سفارت خانے کے عملے نے موٹر سائیکل سوار حافظ عباد الرحمن کو امریکی نخوت کے نشے میں سرشار گاڑی کے بے رحم ٹائروں تھلے روند ڈالا۔ یہ غریب آدمی پرفیوم اور عطریت کے چھوٹے سے کاروبار سے وابستہ تھا اور بدقسمتی سے موٹر سائیکل پر سوار کہیں جا رہا تھا جب اُس کے ساتھ یہ انہونی بیت گئی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، اُس سب سے عوام میڈیا اور اخبارات کی بدولت اچھی طرح واقف ہیں۔ اس ڈرامے کا اختتام حسبِ توقع پاکستانی قانون و سالمیت اور عوام کی امریکا بہادر کے ہاتھوں حد درجہ رُسوائی اور ذلت پر منتج ہوا۔ امریکا بہادر بڑی شان کے ساتھ اپنے ایجنٹ کو واپس لے گیا۔ بیچارے عوام مُنہ تکتے رہ گئے۔

خیر یہ تو کہانی کے معلوم پہلو ہیں۔ آج کچھ نامعلوم اور چُشم کُشا پہلوئوں کو اُجاگر کیا جائے گا۔ غیظ و غضب میں ڈوبے عوام بے چارے اس بات پر چُپ کر گئے تھے کہ شاید مقتولین فہیم اشرف اور فیضان حیدر کے ورثاء نے کروڑوں روپے بطور دیت لے کر راضی نامہ کر لیا ہے، اس لیے اب احتجاج کا جواز نہیں رہتا۔ حقیقت میں سرے سے کوئی دیت کا معاملہ طے ہی نہیں پایا۔ امریکا کبھی اتنا کمزور نہیں تھا کہ اُسے اپنے ایجنٹ کو آزاد کروانے کے لیے دیت کا سہارا لینا پڑتا۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ ریمنڈ ڈیوس جو کہ بدنامِ زمانہ امریکی جاسوسی ادارے بلیک واٹر کا ایجنٹ تھا، اور اُسے سی آئی اے کی اشیر واد حاصل تھی۔ پاکستان میں کئی سالوں سے مقیم تھا اُس کے ذمے لشکر طیبہ اور دیگر کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کا سراغ لگانا تھا اور پاکستانی اعلیٰ ادارے آئی ایس آئی کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ رابطوں اور معاونت کا پتا چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ لازمی طور پر گوری چمڑی ہونے کے ناتے وہ صاف پہچانا جاتا تھا اور وہ بذاتِ خود کھُل کھُلا کر کالعدم تنظیموں کے زیر اہتمام مدارس اور دیگر مقامات پر نہیں جا سکتا تھا۔ سو اس کام کے لیے اُسے پاکستانی لوگوں سے ہی کام لینا تھا۔ اس مقصد کے لیے اُس نے فیضان اور فہیم کی خدمات حاصل کیں۔ یہ دونوں افراد غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ فیضان حیدر بے روزگار تھا جبکہ فہیم اشرف سبزی منڈی میں پلّے دار کے طور پر معمولی رقم کماتا تھا۔ اسی باعث جب انہیں ریمنڈ ڈیوس نے کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے کے لیے معقول پیسے دیئے تو انہوں نے اپنا کام شروع کر دیا۔ شاہدرہ کے علاقے برکت ٹائون میں پانچ ہزار روپے ماہانہ پر مکان حاصل کیا گیا۔ فیضان نے اس راز میں اپنے بڑے بھائی عمران حیدر کو بھی شامل کر لیا اور عمران حیدر نے ہی اپنے سُسرالی رشتہ دار حسن کو کالعدم تنظیموں کے دفاتر اور مدارس میں جا کر معلومات اکٹھی کرنے کا ٹاسک دیا۔ حسن کے باریش ہونے کے باعث ان لوگوں کا کام آسان ہو گیا۔ یہ لوگ ریمنڈ ڈیوس کو معلومات دیتے جن میں اہم معلومات کو فلٹر کر کے وہ اہم امریکی عہدے داروں تک پہنچاتاتھا۔ کچھ عرصے بعد فہیم اور فیضان کو احساس ہوا کہ ریمنڈ ڈیوس کے عزائم بہت خطرناک ہیں، سو انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پنجاب حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کو ریمنڈ ڈیوس کی مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع دینے کی ٹھان لی۔ یہ بات ابھی تک صیغہ راز میں ہے کہ انہوں نے کس اعلیٰ عہدے دار کو ریمنڈ ڈیوس کی مُلک دُشمن کارروائیوں سے آگاہ کیا اور اس نے کس اعلیٰ شخصیت تک یہ بات پہنچائی۔ مگر یہ بات طے ہے کہ فہیم اور فیضان نے جس کے آگے بھی راز اُگلا، وہ اور اس کا آقا پرلے درجے کے وطن فروش تھے جنہوں نے اپنے امریکی آقائوں کے حقِ نمک خوری کو دھیان میں رکھتے ہوئے ریمنڈ ڈیوس گروپ کو اس کی اطلاع کر دی۔ سو وقوعے والے دِن فہیم اور فیضان کو ریمنڈ ڈیوس نے ملاقات کے بہانے بُلایا اور پھر گولیاں مار کر ساری کارروائی کو ڈکیتی کی ناکام کوشش کا رنگ دے دیا۔ اُدھر جب فیضان کے بھائی عمران حیدر اور فہیم اشرف کے گھر والوں کو اس ساری کارروائی کی اطلاع مِلی تو وہ اپنے گھروں کو تالے لگا کر غائب ہو گئے۔ بلکہ عمران حیدر تو وہ کمپیوٹر اور کاغذات بھی اُٹھا کر فیملی سمیت گھر سے فرار ہو گیا جس میں اہم معلومات موجود تھی۔ یقینا قارئین بھی حیران ہوں گے کہ بجائے اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھوانے کے لواحقین گھروں کو تالے لگا کر کیوں مفرور ہو گئے۔ سو یہی وہ نکتہ تھا جسے منظرِ عام پر نہیں لایا گیا۔ عمران حیدر کو علم تھا کہ اُس کے پاس اہم معلومات ہیں سو اُسے بھی مار دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ اہم راز اور معلومات میڈیا کے ہاتھ لگ جاتے تو امریکا کا گھنائونا کردار کھُل کر سامنے آ جاتا اور پاکستان میں امریکا مخالف جذبات میں اضافہ ہو جاتا۔
دوسری جانب دن دیہاڑے امریکی غنڈے کے ہاتھوں دو پاکستانی نوجوانوں کی ہلاکت پر پُورا مُلک سراپا احتجاج بن گیا۔ اُدھر امریکا کی جانب سے پاکستان کی وفاقی حکومت پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے بھرپور دبائو ڈالا جا رہا تھا مگر پھر امریکیوں کو اندازہ ہو گیا کہ یہ کام پیپلز پارٹی کے بس کا نہیں، کیونکہ پنجاب میں شریف برادران کی حکومت ہے۔ پنجاب پولیس پر زرداری ٹولے کا کوئی بس نہیں چلتا تھا۔ اُدھر نواز شریف بھی اگلے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کر کے وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہا تھا، اور یہ خواب امریکنوں کی تائید اور حمایت کے بغیر شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا تھا۔ سو اپنے آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر شریفوں نے آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کیں۔
ریمنڈ ڈیوس کو جیل میں ہر ممکنہ سہولیات مہیا کی گئیں۔ اُدھر مقتولین کے گھروں سے بھاگے ورثاء کو تلاش کرنے کا عمل تیز کیا گیا۔ بالآخر پولیس کو کامیابی مِل گئی۔عمران حیدر کا پتا لگ گیا مگر اُس نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے حساس دستاویزات اور کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا پولیس کے حوالے نہ کیا۔سو پنجاب کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اُس کی منتوں ترلوں پر اُتر آئی۔ اب پُورے کا پُورا معاملہ امریکی انتظامیہ اور پنجاب حکومت کے مابین طے پا رہا تھا۔ ہائی پروفائل کیس ہونے کے باعث پنجاب حکومت اپنی تمام تر خواہش کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کو آزاد کرنے سے قاصر تھی۔ معاملہ عدالت میں چل رہا تھا۔پنجاب حکومت کو (Face Saving) بھی کرنا تھی اور آقائوں کے حکم کی تعمیل بھی بجا لانی تھی۔ سو اس موقعے پر پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے شریف برادران نے دیت کا ڈراما رچایا۔ حقیقت میں دیت کا کوئی معاملہ سرے سے طے ہی نہیں ہویا۔ مقتولین کے ورثاء کو دی جانے والی کروڑوں روپے کی رقم خون بہا کا عوضانہ نہیں تھا بلکہ عمران حیدر سے اہم دستاویزات حاصل کرنے کی قیمت تھی۔ اگر دیت کا معاملہ طے ہوا ہوتا تو سڑک پر بے گناہ مارے جانے والے حافظ عباد الرحمن کے ورثاء کو کیونکر خونِ ناحق کے بدلے میں بھاری رقم سے نہ نوازا گیا؟ عباد الرحمن کے ورثاء کو دیت کے نام پر ایک پائی بھی نہ مِل سکی۔ سو یہ ہے ’دیت‘ کے نام پر طے پایا جانے والا شرمناک معاملہ۔ قارئین کی یہ خوش فہمی بھی دُور کر دی جائے کہ دیت کے نام پر دیا جانے والا کروڑوں روپیہ امریکیوں نے اپنے قومی خزانے سے ادا کیا۔ قطعاً نہیں، یہ خطیر رقم پنجاب کے حکمرانوں نے پنجاب کے غریب عوام سے وصولے گئے ٹیکسز میں سے نکال کر اپنے امریکی آقائوں کی جوتیوں کے صدقے مقتولین کے ورثاء کو دے دی۔ اس قوم کی اس سے بڑی تذلیل اور رُسوائی اور کیا ہو سکتی ہے کہ قوم کے دو نوجوانوں کے غیر ملکی قاتل کو بچانے کے لیے حکمران اُسی قوم کا پیسہ پانی کی طرح بہا دیں۔ شریف برادران آقائوں کی عزت و حُرمت کو بچا کر اُن کی نظروں میں سُرخرو ٹھہرے اور اگلی حکومت بنانے کا لائسنس بھی مل گیا۔اس ڈرامے کا مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ تمام تر لعن طعن اور رُسوائی ناجائز طور پر اُس وقت کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے حصّے میں آئی، جن کا کردار اس سارے ڈرامے میں صرف تماشائی کا تھا۔ آج شریف برادران اور ان کے بھونپو للکاریں مارتے پھر رہے ہیں کہ جی پتا لگائیں کہ پیسے کس اکائونٹ سے ٹرانسفر ہوئے۔ کس نے کیے اور اس کہانی کے پس پردہ مقامی کرداروں کو بے نقاب کیا جائے۔ وزیر قانون کہتا ہے کہ جی ریمنڈ ڈیوس کے خلاف قتل کی ایف آئی آر ہم نے کٹوائی۔ ہمارے پنجاب میں ایک رویہ بہت عام ہے۔ وہ یہ ہے کہ بہن کو بھائی غیرت کے نام پر قتل کر دیتا ہے۔ یہ سب والدین کی ملی بھُگت سے ہوتا ہے۔ پھروالد ہی بیٹے کے خلاف قتل کیس کا مُدعی بن جاتا ہے۔ مُدعی بننے کے کچھ عرصہ بعد باپ عدالت میں بیان دیتا ہے کہ اُس نے کیس کے مُدعی کی حیثیت میں ملزم کو معاف کر دیا ہے۔ سو کیس ختم ہو جاتا ہے۔اس کی مشہور مثال قندیل بلوچ کا کیس ہے۔ بھائی نے قتل کیا اور باپ نے مُدعی بن کر اُسے بچانے کی کوشش کی۔ سو معاملہ کیا ہے زیادہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں۔ یہ شاید پہلا کیس تھا جس میں ریمنڈ ڈیوس کے خلاف حکومتی وکیل یعنی پراسیکیوٹر جنرل سید زاہد حُسین بخاری کو کروڑوں میں فیس ادا کی گئی۔ حالانکہ وہ تو پہلے ہی حکومت کا تنخواہ دار ہوتا ہے۔ یہ بلاجواز فیس کیوں اور کس نے کس مقصد کے لیے ادا کی، اس پر بھی سوال اُٹھتا ہے۔پراسیکیوٹر جنرل پر یہی نوازش نہیں ہوئی، بلکہ اُس کی ہونہار بیٹی جو دُوسری جماعت میں شامل تھی، اُسے نواز لیگ میں شامل کیا گیا جو کہ اس وقت بطور ایم پی اے نواز لیگ کی صفِ اول کی ترجمان بنی بیٹھی ہے۔اور اس کا خاوندشریف برادران کا تاحیات مشیر ہو چُکا ہے۔ یہ ہے امریکا بہادر کے ایجنٹ کی رہائی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دُور کرنے والے کا درخشندہ اور خوش آئند مستقبل۔
دُوسری جنگِ عظیم میں انگریز نے پنجاب میں موجود اپنے ٹوڈی جاگیرداروں اور چودھریوں کو کہہ کہلوا کر  زبردستی پنجابی نوجوان فوج میں بھرتی کروا کر جنگ کے آتش فشاں میں جھونک دیئے۔ ہزاروں پنجابی نوجوان ان جنگوں میں اپنی جانوں اور قیمتی اعضاء سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی کالے دور کی جبری بھرتی کے باعث آج تک پنجاب مخالفین پنجابیوں کو کرائے کے سپاہی کے خطاب سے نوازتے ہیں۔  حالانکہ اس سب میں پنجابیوں کی مرضی شامل نہ تھی، مگر یہ کلنک کا ٹیکہ ہمیشہ کے لیے پنجابیوں کا مقدر ٹھہرا۔ یہ تو تھی مجبوری کی غلامی۔ اور ایک غلامی ہے ہمارے موجودہ حکمرانوں کی، جن کے پاس پیسے، طاقت اور دبدبے کی کوئی کمی نہیں تھی، مگر پھر بھی گلے میں گوروں کی غلامی کا طوق ڈالنے سے باز نہ رہ سکے۔یہ باکرداری صرف موجودہ حکمرانوں کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ کہ جب ان کی چوری پکڑی جائے تو ’’الحمد للہ‘‘ کہتے ہیں۔ عدالت ان کے خلاف فیصلہ سُنائے تو یہ مٹھائیاں بانٹتے اور بھنگڑے ڈالتے ہیں۔اب ریمنڈ ڈیوس کی انکشافات سے مبنی کتاب ان حکمرانوں کی وطن فروشی کو آشکار کر بیٹھی ہے تو یہ خوشی سے جھومتے پھر رہے ہیں کہ دیکھا ہم نہ کہتے ہیں، ہمارا اس میں کوئی کردار نہیں۔ پاناما کیس کی بدولت ان کی ذہنی حالت مشکوک ہو گئی ہے۔ ایسے لوگوں کو اقتدار پر مزید فائز رکھنا مُلک و قوم کی سالمیت سے بہت بڑا کھلواڑ ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے جو کچھ لکھا، وہ سب امریکا، بھارت، افغانستان کے اس پاکستان مخالف ایجنڈے کا حصّہ ہے جس کا مقصد پاکستان کے قومی سلامتی اور دفاع کے اداروں کو بدنام کرکے اُن کا مورال گرانا ہے۔ اور اس منصوبے میں ہمارے موجودہ حکمران بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اس مُلک کو اصل خطرہ امریکا کے ریمنڈ ڈیوس سے نہیں، بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں سے ہے جو  دیسی چہرے کے نقاب تلے ریمنڈ ڈیوس کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جس دِن اس قبیل کے ریمنڈ ڈیوس قانون اور عوام کی گرفت میں آ گئے تو فہیم کی بیوہ شمائلہ کو انصاف اور ریاست کی بے بسی سے مایوس ہو کر خود کُشی نہیں کرنی پڑے گی۔اقبال کیا خوب فرما گئے
جعفر از بنگال، صادق از دکن
ننگِ قوم، ننگِ ملت، ننگِ وطن


How to drink Water in islam a Good message for drinking water

Sir Garfield Sobers ,Nottinghamshire, 1968 six ball six sixes,,a record...

Volcano and water ,amazing scene۔۔Subhan Allah

Beaware of Rats,food chain in pakistan rats easly enjoy the cakes of eid...

Anchor fall in live coverage in pakistan,lahore pti jalsa mall road

Pakistan Rangers discover arms and other explosives

Monday, July 3, 2017

سیاسی خود کش حملہ آور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زہریلا سچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نوشاد حمید


مسلم لیگی سینیٹر نہال ہاشمی نے سکرپٹ کے مطابق اپنے حصّے کی خود کش بمباری کا حق ادا کرتے ہوئے سیاسی شہادت دے دی۔ اشاروں میں نہیں، بلکہ کھُلے لفظوں میں جے آئی ٹی کے ممبران اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ آخر ایک سُلجھے اور جہاندیدہ پارلیمینٹرین کو کیا سُوجھی کہ ’بیٹھے بٹھائے‘ قائد کی اندھی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے بڑھک مارکر خود کو خاصی مشکل میں ڈال دیا۔ عدالت نے نوٹس لے کے طلب کر ڈالا اور ہاشمی کی معافی کو در خور اعتناء نہ سمجھتے ہوئے اس بیان کے پسِ پردہ محرکات و شخصیات کو بھی رگید ڈالا۔ ان سوالوں کا جواب بہت آسان ہے اور وہ یہ کہ جب کسی شہنشاہ کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولنے لگتا ہے تو نہال ہاشمی، پرویز رشید، طارق فاطمی اور اس طرح کے کئی غلاموں کو اپنی بقا کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ غلام بیچارہ کر بھی کچھ نہیں سکتا، کرے گا تو نیب میں اُس کے نام کی فائلیں تیار پڑی ہوتی ہیں۔ ان سیاسی غلاموں کو پتا ہے کہ ان کا اپنا قائد اپنے دورِ حکومت میں ہی ذرا سی حکم عدولی پر انہیں نیب جیسے خونخوار درندے کے آگے پھینک دے گا۔ سو یہ لوگ تو مجبورِ محض ہیں۔ سُوجھ بُوجھ والے ہیں مگر آلِ شریف کارپوریشن کے سربراہ کے چنگل میں ان کی جانیں اور سیاست یرغمال پڑی ہے۔ سو ترس تو آتا ہے دانیال عزیز، عابد شیر علی، مریم اورنگزیب، مشاہد اللہ، طلال چودھری، خواجہ سعد رفیق، نہال ہاشمی اور اسی طرح کے چند اور لوگوں پر جو شریفیہ ایمپائر کی بقا کے بُجھتے الائو میں بطور ایندھن استعمال کیے جا رہے ہیں اور آگے چل کر انہوں نے ہی عدالتیں بھُگتنی ہیں، توہینِ عدالت اور کرپشن کے کیسز کا ملبہ انہی پر پڑنا ہے اور سب سے بڑھ کر عوامی عتاب کا بیشتر نزلہ انہی پر گرنا ہے۔ مگر یہ بیچارے تو شریف کارپوریشن کے ملازم ہیں، اور ملازم نہ تو کر ہی نہیں سکتا۔ کارپوریشن نے تو پاکستان میں موجود اپنے تمام اثاثوں کو محفوظ بنانے کے لیے انہیں عنقریب منتقل کر دینا ہے۔ سرمایہ پاس ہو توکاروبار دُنیا کے کسی بھی مُلک میں چل ہی پڑے گا۔
طالبانی خود کش حملہ آوروں کی بعد از مرگ ویڈیوز جار ی ہوتی ہیں، جبکہ ان سیاسی خود کش حملہ آوروں کے ہر وقوعے کے بعد صرف استعفے ظاہر ہوتے ہیں، یوں یہ منظر عام سے غائب ہو جاتے ہیں۔ بیچارہ نہال ہاشمی تو ایک معمولی سا کارکن ہے ۔ یہ لوگ تو قائد کی نمک حلالی کا حق ادا کر رہے ہیں کہ اُس نے انہیں سیاسی کیریئر کی خاک سے عرش تک پہنچا دیا۔ ان کا کام تو صرف حکمرانوں کے غیظ و غضب اور تلملاہٹ کے اظہار کے لیے بطور مائوتھ پیس استعمال ہونا ہے۔ شہنشاہ معظم نے حالات کی سنجیدگی دیکھتے ہوئے اس طرح کے خود کش سپاہیوں کے لشکر کے لشکر تیار کر رکھے ہیں، مستقبل قریب میں مزید سیاسی کارکن ایک ایک کر کے اپنے آقا کے تخت و تاج کی حفاظت کی خاطر قربان کر دیئے جائیں گے۔
جب آلِ شریف جدہ منتقل ہو گئی تو مشرف نے اپنا سارا غصّہ نواز لیگ کے بچے کھُچے لیڈروں اور کارکنوں پر نکالا۔ بلاوجہ کی قید و بند اور مار پیٹ کی صعوبتیں خواجہ سعد رفیق، جاوید ہاشمی اور کئی دیگر لوگوں نے کاٹیں۔ سو یہ ہوتی ہے موروثی سیاست میں کارکنوں اور بیچارے لیڈروں کی اوقات۔ عدلیہ کے تیور دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ وہ نہال ہاشمی کی ’ذاتی‘ ہرزہ سرائی کو قطعاً معاف کرنے کے موڈ میں نہیں۔ معذرت سے جان چھُٹنے والی نہیں۔ پر کوئی بات نہیں سیاست کی شطرنج میں ’چھوٹے موٹے‘ پیادے پِٹ جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ یہاں تو عدلیہ تحریک کے دوران افتخار چودھری جیسا ہوشیار جج، پُوری وکلاء قیادت اور سب سے بڑھ کر اعتزاز احسن جیسا جہاندیدہ اور سیانا سیاست دان بھی شریفوں کے ہاتھوں یوں استعمال ہوئے کہ انہیں کئی سال بعد جا کر پُورے وقوعے کی سمجھ آئی کہ یہ تحریک حقیقتاً نواز شریف کی سیاست کو دوام بخشنے کا ایک چال تھی۔ عوام عدلیہ کی شان کی خاطر مر مٹنے کو تیار ہو گئی۔ شہباز شریف کا موقف یہ تھا کہ افتخار چودھری کو بحال کرنے کے چند روز بعد باعزت طریقے سے ریٹائر کر دیا جائے جبکہ نواز شریف نے یہ سوچ رکھا تھا کہ افتخار چودھری پر جو خطیر سرمایہ لگایا ہے، اُس انویسٹمنٹ کے ثمرات سمیٹے جائیں۔ چنانچہ افتخار چودھری کے ہاتھوں پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم کو رخصت کروایا گیا اور کئی دیگر معاملوں میں زرداری حکومت کو پریشان کیے رکھا جبکہ نواز شریف کے خلاف کیسز میں ہتھ ہولا رکھا۔ خواجہ شریف قتل سازش کیس میں بھی پیپلز پارٹی کی ایک اعلیٰ شخصیت کو پھنسانے کا ارادہ تھا مگر مشیتِ ایزدی سے یہ کام پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
آل شریف کی سیاسی فطرت میں تین باتیں شامل ہیں، اول یہ کہ مخالفین کو پیسے کی چمک سے خریدنے کی کوشش کرنا، اگر کام نہ بنے تو پھر یہ لوگ ڈرانے دھمکانے پر تُل جاتے ہیں، (جیسا کہ سابقہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ کیا گیا) اور اگر یہ حربہ بھی ناکام ہو جائے تو یہ بھاگ جاتے ہیں۔ سو یہ حربے باری باری آزمائے جا رہے ہیں۔ اور لگتا یہی ہے کہ اس وقت ان کے پاس صرف تیسرے آپشن کا راہ کھُلا ہے۔ دُختر ِاول برطانیہ میںبلاوجہ نہیں بیٹھی۔ حقیقت میں انہیں یقین ہونے لگا ہے کہ ان کی سیاسی وڈیو گیم کے سارے ٹوکن ختم ہو گئے ہیں۔ اب ان کو عوام، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ کہیں سے بھی سیاسی بقاء کے نئے ٹوکن نہیں مِلنے والے۔ یہ اس وقت ایک دو عرب مُلکوں میں سیاسی پناہ کے لیے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ ان کی تیاریاں مکمل ہیں۔ صندوق تیار کیے جا چکے ہیں۔ مگر اس سے پہلے یہ اپنے آخری پتّے چلیں گے۔ ایک پتہ تو ہو گا مسلم لیگی گُلو بٹوں کے ذریعے توڑ پھوڑ اور پُرتشدد مظاہرے و احتجاج کروانے کا۔ صورتِ حال کو انارکی کی طرف لے جانے کا۔ جوڈیشل اکیڈمی کے باہر مسلم لیگی گلو بٹوں کے ذریعے کرایا گیا احتجاج اس ڈرامے کا پانچ فیصد بھی نہیں۔ ابھی پکچر باقی ہے۔ آئندہ چند روز میں برپا ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں اپنے ہی کارکنوں کو خود ہی مروا کر عوام کی ہمدردی سمیٹنے کے جتن کیے جائیں گے۔ ایک اور آپشن یہ بھی ہو گا کہ اپنے یارِ خاص اور بھارتی ہم منصب مودی کے ذریعے بارڈرز پر اشتعال انگیزی میں اضافہ کروا کر سارا دھیان بارڈرز کی طرف منتقل کروا دینا۔ مگر یہ پُرانے حربے اب کام میں نہیں آنے والے۔ کیونکہ فعال میڈیا، آزاد عدلیہ اور باشعور عوام کے سامنے ان کی ایک نہیں چلنے والی۔ اگر عوام افتخار چودھری نامی ایک جج کی بحالی کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہو سکتے ہیں تو یہاں تو پھر کہیں زیادہ معتبر اور منصف جج صاحبان بیٹھے ہیں اور ساری اپوزیشن جماعتوں کی سپورٹ بھی انہیں حاصل ہو گی۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ شریفیہ ایمپائر کا مالک اپنی اربوں کھربوں کی کمائی کے منبع یعنی پاکستان کو اتنی آسانی سے ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ وزیر اعظم کے ترجمان آصف کرمانی کا بیان بھی ملاحظہ ہو کہ ’اگر ہمیں لگا کہ جے آئی ٹی میں ہمارے ساتھ کوئی ناروا سلوک برتا جا رہا ہے تو پھر ہم اپنا آئینی اور قانونی حق استعمال کریں گے۔‘‘ واضح اشارہ ہے کہ معاملات محاذ آرائی اور سول مارشل لاء کی طرف جا رہے ہیں۔ نواز شریف اپنے خصوصی اختیارات استعمال کر کے جے آئی ٹی وغیرہ کو کالعدم قرار دلوانے کا حربہ استعمال کرے گا۔ مگر اس وقت معاملات نواز شریف کے ہاتھ سے بالکل نکل چکے ہیں۔ نواز لیگی ممبرانِ اسمبلی بھی سیاسی منظر نامے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ شریفوں کی سیاست سے نالاں کئی ایم پی اے، ایم این ایز استعفے تیار کیے بیٹھے ہیں۔ فصلی بٹیروں کا تو بس نہیں چل رہا، وہ آج ہی کوئی اور پارٹی جوائن کر لیں، مگر ابھی بھی شریفوں کا دبدبہ اور خوف قائم ہے، اس لیے فی الوقت دُبکے بیٹھے ہیں۔
بس عوام کو ایک ہی دھڑکا لگا ہے، کہ جیسے ماضی کی طرح نواز شریف ہر بحران میں سے ’سُرخرو‘ ہو کر نکل آتا ہے، اس کو جو غیبی امداد کسی نہ کسے ادارے سے مل جاتی ہے، وہ ایک بار پھر نہ مِل جائے۔ کہیں ماضی کی طرح کوئی نظریۂ ضرورت نواز شریف کے حق میں انصاف کی تشریحات و توضیحات کو بدل نہ دے۔ مگر خاطر جمع رکھنی چاہیے ایک فعال اور آزاد عدلیہ نے معاملات کو یہاں تک پہنچایا ہے کہ نواز شریف بوکھلایا پڑا ہے۔ اب تو یہ انتظار ہے کہ اور کس سیاسی خود کُش حملہ آور کوعدلیہ یا جے آئی ٹی کے بارے میں ہرزہ سرائی کے میدان میں اُتارا جاتا ہے۔ کیا ظریفانہ صورتِ حال ہے کہ دودو سال پارلیمنٹ کو اپنی دِید کی حسرت میں مبتلا رکھنے والے شہنشاہ معظم کی اولاد کو آج انتظامیہ کے ’معمولی‘ افسران کے انتظار میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ خدا نے ان کے تکبر کو مٹی میں اتنی جلدی رولنا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔ پروٹوکول کے نام پر ٹریفک میں پھنسی منتظر عوام، سرکاری ہسپتالوں میں باری کے انتظار میں کھڑی عوام،لائٹ کے انتظار میں جھُلسی عوام، خوشیوں اور پیسوں کوترستی تاکتی مُرجھائے چہروں والی خلقت آج بہت شاداں و فرحاں ہے کہ اُنکے شہنشاہ معظم کی چہیتی اولاد کو پہلی بار انتظار کے کرب سے آشنا ہونا پڑا۔یہ سب کچھ ایک ناگزیر انقلاب کی نوید ہے جسے جلد حقیقت کا رُوپ دھارنا نصیب ہو گا۔

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...