Sunday, October 31, 2021

عثمانیوں کی بہترین عادات،،،،قہوہ اور پانی

 
 جب عثمانی ترکوں کے پاس کوئی مہمان آتا تو وہ اس کے سامنے قہوہ اور سادہ پانی پیش کرتے اگر مہمان پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا وہ سمجھ جاتے کہ مہمان کو کھانے کی طلب ھے تو پھر وہ بہترین کھانے کا انتظام کرتے اور اگر وہ قہوہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ جان لیتے کہ مہمان کو کھانے کی حاجت نہیں ھے 
 گھر کے باہر پھول اگر کسی گھر کے باہر پیلے رنگ کے پھول رکھے نظر آتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس گھر میں مریض موجود ھے آپ اس مریض کی وجہ سے گھر کے باہر شور شرابہ نہ کریں اور عیادت کو آسکتے ہیں اور اگر گھر کے باہر سرخ پھول رکھتے ہوتے تو یہ اشارہ ہوتا کہ گھر میں بالغ لڑکی ہے لہذا گھر کے آس پاس بازاری جملے نہ بولے جائیں اور اگر آپ پیغامِ نکاح لانا چاہتے ہیں تو خوش 
آمدید! 



 ہتھوڑا گھر کے باہر دو قسم کے ڈور بیل (گھنٹی نما) ہتھوڑے رکھے ہوتے ایک بڑا ایک چھوٹا اگر بڑا ہتھوڑا بجایا جاتا تو اشارہ ہوتا کہ گھر کے باہر مرد آیا ھے لہذا گھر کا مرد باہر جاتا تھا اور اگر چھوٹا ہتھوڑا بجتا تو معلوم ہوتا کہ باہر خاتون موجود ہے لہذا اس کے استقبال کے لئیے گھر کی خاتون دروازہ کھولتی تھی 
 صدقہ عثمانی ترکوں کے صدقہ دینے کا انداز بھی کمال تھا کہ ان کے مالدار لوگ سبزی فروش یا دوکانداروں کے پاس جا کر اپنے نام سے کھاتہ کھلوا لیتے تھے اور جو بھی حاجت مند سبزی یا راشن لینے آتا تو دوکاندار اس سے پیسہ لیئے بغیر اناج و سبزی دے دیتا تھا یہ بتائے بغیر کہ اس کا پیسہ کون دے گا کچھ وقت بعد وہ مالدار پیسہ ادا کر کے کھاتہ صاف کروا دیتا 



تریسٹھ سال اگر کسی عثمانی ترک کی عمر تریسٹھ سال سے بڑھ جاتی اور اس سے کوئی پوچھتا کہ آپکی عمر کیا ہے؟؟؟ تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیاء و ادب کرتے ہوئے یہ نہ کہتا کہ میری عمر تریسٹھ سال سے زیادہ ہوگئی ھے بلکہ یہ کہتا بیٹا ھم حد سے آگے بڑھ چکے ہیں اللہ اللہ کیسا ادب کیسا عشق تھا ان لوگوں کا کیسی بہترین عادات تھی ان لوگوں کی یہی وجہ تھی کہ عالم کفر نے سلطنت عثمانیہ کے غداروں سے مل کر ٹکڑے کر ڈالے مگر سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے کہ وہ شیر پھر بیدار ہوگا۔۔۔

Wednesday, October 20, 2021

حضور کے دنیا سے پردہ کر جانے کا ایمان افروز واقعہ

 وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ "میری بیویوں کو جمع کرو۔" تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: "کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟" سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔ پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے 



 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔ اور فرماتی ہیں: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔" مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ "لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔" اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔




 نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا: "یہ کیسی آوازیں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔ پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔ فرمایا: " اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟" سب نے کہا: "جی ہاں اے اللہ کے رسول" ارشاد فرمایا: "اے لوگو۔۔! تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں، اے لوگو۔۔۔! مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔" پھر مزید ارشاد فرمایا: "اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔" (یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔) پھر فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔" 





مزید فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے" اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔ جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھہ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔ "ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان....." روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔" آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا: "اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔ اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ: "اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔" پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔ اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔ فرماتی ہیں: " آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔" أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں: "پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔" پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔" دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا: "فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔ جس پر میں رو دی۔۔۔۔" جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے: "فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔" جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں: پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا: "عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے: مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔) صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: "میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔" جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے: "یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔" آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا: "جبریل! اسے آنے دو۔۔۔" ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا: "السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟" فرمایا: "مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔" ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: "اے پاکیزہ روح۔۔۔! اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔! الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔! راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!" سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں: پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔ "رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!" مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔ ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔ ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔ اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے: "خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔" اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔ کہہ رہے تھے: وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه (ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!) پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا: "یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔" سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا: "جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔" سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔ عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں: پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟" پھر کہنے لگیں: "يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه." (ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔) اللھم صل علی محمد کما تحب وترضا۔ copiedوفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ "میری بیویوں کو جمع کرو۔" تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: "کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟" سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔ پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔ اور فرماتی ہیں: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔" مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ "لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔" اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔ نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا: "یہ کیسی آوازیں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔ پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔ فرمایا: " اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟" سب نے کہا: "جی ہاں اے اللہ کے رسول" ارشاد فرمایا: "اے لوگو۔۔! تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں، اے لوگو۔۔۔! مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔" پھر مزید ارشاد فرمایا: "اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔" (یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔) پھر فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔" مزید فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے" اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔ جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھہ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔ "ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان....." روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔" آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا: "اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔ اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ: "اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔" پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔ اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔ فرماتی ہیں: " آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔" أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں: "پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔" پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔" دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا: "فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔ جس پر میں رو دی۔۔۔۔" جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے: "فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔" جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں: پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا: "عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے: مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔) صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: "میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔" جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے: "یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔" آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا: "جبریل! اسے آنے دو۔۔۔" ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا: "السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟" فرمایا: "مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔" ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: "اے پاکیزہ روح۔۔۔! اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔! الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔! راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!" سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں: پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔ "رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!" مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔ ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔ 





ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔ اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے: "خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔" اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔ کہہ رہے تھے: وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه (ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!) پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا: "یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔" سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا: "جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔" سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔ عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں: پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟" پھر کہنے لگیں: "يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه." (ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہجنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔) اللھم صل علی محمد کما تحب وترضا۔ 

Thursday, October 14, 2021

ڈپریشن کا علاج

 ایک 50 سالہ شریف آدمی ڈپریشن کا شکار تھا اور اس کی بیوی نے ایک ماہر نفسیات سے ملاقات کی۔ بیوی نے کہا: "وہ شدید ڈپریشن میں ہے ، براہ کرم مدد کریں"

  

ڈاکٹر نے اپنی مشاورت شروع کی۔  اس نے کچھ ذاتی باتیں پوچھی اور شریف آدمی کی بیوی کو باہر بیٹھنے کو کہا، صاحب بولے میں بہت پریشان ہوں دراصل میں پریشانیوں سے مغلوب ہوں، ملازمت کا دباؤ بچوں کی تعلیم اور ملازمت کا تناؤ، ہوم لون، کار لون، مجھے کچھ پسند نہیں دنیا مجھے پاگل  سمجھتی ہے لیکن میرے پاس اتنا سامان نہیں جتنا کہ ایک کارتوس میں، بہت اداس اور پریشان ہوں.


یہ کہہ کر اس نے اپنی پوری زندگی کی کتاب  ڈاکٹر کے سامنے کھول دی۔ 


  پھر ڈاکٹر نے کچھ سوچا اور پوچھا، "آپ نے دسویں جماعت کس سکول میں پڑھی، شریف آدمی نے اسے سکول کا نام بتایا۔ ڈاکٹر نے کہا: آپ کو اس اسکول میں جانا ہے۔ اپنے اسکول سے آپ اپنی دسویں کلاس کا رجسٹر تلاش کرنا ہے اور اپنے ساتھیوں کے نام تلاش کرنے ہیں اور ان کی موجودہ خیریت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہیں۔ ایک ڈائری میں تمام معلومات لکھیں اور ایک مہینے کے بعد مجھ سے ملیں۔


 شریف آدمی اپنے اسکول گیا، رجسٹر ڈھونڈنے میں کامیاب رہا، اور اسے کاپی کروایا۔ اس میں 120 نام تھے۔  اس نے ایک مہینے میں دن رات کوشش کی، لیکن وہ بمشکل 75-80 ہم جماعتوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے میں کامیاب رہا۔ 


  حیرت !!!

  ان میں سے 20 مر چکے تھے۔ 7 رنڈوے اور 13 طلاق یافتہ تھے۔ 10 ایسے نکلے جو کہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ 5 اتنے غریب نکلے کہ کوئی ان کا جواب نہ دے سکا۔ 6 اتنے امیر نکلے کہ اسے یقین ہی نہیں آیا۔ کچھ کینسر میں مبتلا تھے، کچھ فالج کا شکار تھے، ذیابیطس ، دمہ یا دل کے مریض تھے، کچھ لوگ بستر پر تھے جن کے ہاتھوں/ٹانگوں یا ریڑھ کی ہڈی میں چوٹیں آئی تھیں۔ کچھ کے بچے پاگل، آوارہ یا بیکار نکلے. ایک جیل میں تھا۔ ایک شخص دو طلاق کے بعد تیسری شادی کی تلاش میں تھا۔ ایک ماہ کے اندر ، دسویں جماعت کا رجسٹر خود قسمت کی اذیت بیان کر رہا تھا۔ 


ڈاکٹر نے پوچھا: "اب بتاؤ تمہارا ڈپریشن کیسا ہے؟"


  شریف آدمی سمجھ گیا کہ اسے کوئی بیماری نہیں تھی، وہ بھوکا نہیں تھا، اس کا دماغ کامل تھا، اسے عدالت \ پولیس \ وکلاء  کا کئی مسئلہ نہ تھا،  اس کی بیوی اور بچے بہت اچھے اور صحت مند تھے، وہ خود بھی صحت مند  تھا *اس آدمی کو احساس ہوا کہ واقعی دنیا میں بہت زیادہ دکھ ہے، اور وہ بہت خوش قسمت ہے کے اُسے تو کوئی تکلیف نہی ہے۔*


  *دوسروں کی پلیٹوں میں جھانکنے کی عادت چھوڑیں، اپنی پلیٹ کا کھانا پیار سے لیں۔ دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ نہ کریں ہر کسی کی اپنی قسمت ہوتی ہے۔*


*اور پھر بھی، اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ڈپریشن میں ہیں، تو آپ کو بھی اپنے سکول جانا چاہیے، دسویں جماعت کا رجسٹر لائیں اور ......*


Tuesday, October 5, 2021

گناہ کی قدرت ہوتے گناہ نہ کرنا

 امام شافعیؒ کے زمانے میں ایک خلیفہ نے اپنی بیوی کو عجیب طریقے سے طلاق دے دی، اور یہ طلاق بعد ازاں فقہ کا بہت بڑا مسئلہ بن گئی۔

بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ہنسی مذاق میں اُس نے ملکہ سے پوچھ لیا کہ، "تمہیں میری شکل کیسی لگتی ہے❓❣️

ملکہ جو بادشاہ کی عزیز ترین بیگم تھیں، وہ مذاق کے موڈ میں بولی، "مجھے آپ شکل سے جہنمی لگتے ہیں"۔

یہ فقرہ سننے کے بعد بادشاہ کو غصہ آ گیا اور بولا، "میں اگر جہنمی ہوں تو تمہیں تین طلاقیں دیتا ہوں۔۔۔،❗

" ملکہ نے یہ سنا تو اُس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ بادشاہ کو بھی کچھ دیر بعد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اگلے دِن بادشاہ سلامت نے ملک کے تمام علماء، مفتی صاحبان اور اماموں کو دربار میں بلا لیا۔ اور اُن سے پوچھا کہ، "کیا اِس طریقے سے میری طلاق ہو چکی ہے❓ ❣️

سب کا باری باری یہی کہنا تھا کہ، "ہاں، آپکی طلاق ہو چکی ہے، اور شریعت کی روشنی سے ملکہ عالیہ اب آپ کی زوجہ نہیں رہیں۔۔۔❗"،

لیکن اِس محفل میں ایک نوجوان مفتی بھی موجود تھے، وہ ایک طرف ہو کر بالکل خاموش بیٹھے رہے۔ بادشاہ نے اُن سے بھی یہی سوال پوچھا تو انہوں نے عرص کیا، "جناب، یہ طلاق نہیں ہوئی، کیونکہ آپ نے مشروط طور پر کہا تھا، کہ اگر میں جہنمی ہوں تو میں تمہیں تین طلاقیں دیتا ہوں، اور ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ آپ جہنمی ہیں کہ نہیں ہیں، آپ کو اگر کوئی شخص جنتی ہونے کی ضمانت دے دے تو آپکی یہ طلاق نہیں ہوگی۔"

بادشاہ سلامت نے جوشیلے انداز میں پوچھا، "لیکن مجھے اِس چیز کی ضمانت کون دے گا۔۔۔❓"

سب علماء کرام نے اِس سوال کے جواب پر اپنے سر جھکا لیے، کہ دنیا میں کون شخص جنتی ہے اور کون جہنمی ہے اِس کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔

نوجوان مفتی نے جب تمام علماء کرام کو خاموش دیکھا تو وہ بادشاہ سلامت سے مخاطب ہوئے، "بادشاہ سلامت❗ میں آپکو یہ گارنٹی دے سکتا ہوں، لیکن اِس کیلئے میں آپ سے ایک سوال پوچھوں گا، اگر آپکا جواب "ہاں" ہوا تو میں آپکو جنتی ہونے کا ضمانت نامہ دے دونگا۔۔❗"۔ بادشاہ نے کہا، "ہاں، پوچھو۔۔۔،❗"

نوجوان مفتی نے پوچھا، "کیا آپکی زندگی میں کبھی کوئی ایسا موقع آیا تھا، کہ آپ گناہ پر قادر تھے، لیکن آپ نے صرف اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے وہ گناہ چھوڑ دیا تھا۔۔۔❓"

بادشاہ نے سر اُٹھایا اور کہا، "ہاں، ایک بار ایسا ہوا تھا، میں اپنی خوابگاہ میں داخل ہوا تھا اور وہاں ایک نوکرانی صفائی کر رہی تھی، وہ لڑکی انتہائی خوبصورت تھی، میں بھٹک گیا، میں نے دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ میں غلط نیت سے اُس لڑکی کی طرف بڑھا تو اُس نے رونا شروع کر دیا، اور وہ چلّا کر بولی،

"اے بادشاہ❗ اللّٰہ سے ڈرو، وہ تم سے زیادہ طاقتور ہے"۔

میں نے جب یہ سنا تو میرے اُوپر اللّٰہ تعالیٰ کا خوف طاری ہو گیا۔ میں اگرچہ بادشاہ تھا، وہ لڑکی میرے کمرے میں تھی، میں نے دروزے کو اندر سے کنڈی لگائی ہوئی تھی، اور اُس وقت دنیا کی کوئی طاقت مجھے بُرائی کرنے سے نہیں روک سکتی تھی۔ لیکن میں نے صرف اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے دروازہ کھول دیا، اور اُس لڑکی کو جانے کی اجازت دے دی۔۔۔❗"


یہ سب سن کر وہ نوجوان مفتی مسکرائے اور اُنہوں نے قرآن پاک کی سورہ النٰزعٰت کی آیت نمبر 40 اور 41 کی تلاوت فرمائی،


"وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ o فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ" 📖🌹⁦❤️⁩

ترجمہ: جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر گیا اور اُس نے اپنے نفس کو خواہشات میں پڑنے سے بچا لیا تو ایسے شخص کا ٹھکانہ جنت ہوگا"

اِس کے بعد نوجوان نے بادشاہ سلامت سے کہا، "میں آپکو  ضمانت دیتا ہوں کہ آپ جنتی بھی ہیں، اور آپکی طلاق بھی نہیں ہوئی

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...