Saturday, May 27, 2017

یومِ تکبیر: حقائق نامہ...۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.نوشاد حمید کا زہریلا سچ



یوم تکبیر آن پہنچا ہے۔اخبارات اس دِن کی اہمیت کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن چھاپیں گے جبکہ چینلز پر بھی خصوصی پیکج دکھائے جائیں گے۔ پھر اس دِن کو ’تاریخی‘ اور ’جرأت مندانہ‘ فیصلہ لینے والے قوم کے ’مقبول و محبوب ‘ لیڈر نواز شریف کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جائیں گے۔ سڑکیں بازار نواز لیگی متوالوں کے اپنے لیڈر کی شان میں لگائے بینروں سے آراستہ نظر آئیں گے۔ چند خوشامدی درباری اینکرز و اخبار نویس لیڈر کے ذکرِ عظمت کو دُہراتے دُہراتے نہیں تھکیں گے۔ غرضیکہ سارا دِن اسی ’نواز نمائی‘ میں گزر جائے گا۔ قوم کے ذہنوں سے محو ہو گئی عظمتِ نواز کی پھر سے تجدید ہو جائے گی۔ بظاہر تو یہ دِن پاکستان کی دفاعی حیثیت کے اعتبار سے ایک سنگِ میل کے طور پر گردانا جاتا ہے۔ مگر اس دِن کی اہمیت کے پسِ پردہ محرکات کے بارے میں بھی جاننا چاہیے۔ یہ وہ دِن تھا جب پاکستان نے بھارت کے 12 مئی 1999ء کو کیے گئے ایٹمی دھماکوں کا جواب ایٹمی دھماکوں کے تجربات سے کیا۔ چونکہ اس وقت مُلک کا چیف ایگزیکٹو موجودہ وزیر اعظم ہی تھا، اس لیے اُنہوں نے ان دھماکوں کا خصوصی کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایٹمی دھماکے کیوں کیے گئے؟ جبکہ بھارت نے 12 مئی کو پہلی بار ایٹمی دھماکا نہیں کیا تھا بلکہ وہ 1975ء میں ہی ایٹمی دھماکے کر کے اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کر چکا تھا۔ حقیقتاً یہ امریکی ایجنڈا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی دھماکے کریں تاکہ اس کے بعد دونوں مُلکوں کے درمیان ایٹمی اسلحے کی نئی دوڑ شروع کروا کر انہیں اپنے ہتھیار بیچ کر کروڑوں اربوں ڈالر ہتھیائے جائیں۔ سو امریکا کے کہنے پر ہی انڈیا نے دھماکے کیے اور پھر پاکستان کو بھی آرڈر دیا گیا کہ وہ فوراً حکم کی تعمیل کرے ۔ سو امریکا کے یس مین نے آقائوں کا حکم بجا لاتے ہوئے اس حکم کی تعمیل کر ڈالی۔ چونکہ اس موقع پر اپنی ذات کی نمائش مقصود تھی لہٰذا بے جا پروپیگنڈا کیا گیا کہ وزیر اعظم نوازشریف امریکی صدر کلنٹن کے پانچ بار فون آنے پر بھی اپنے جرأت مندانہ موقف سے پیچھے نہیں ہٹے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز بخشا۔ ’’کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ!‘‘ پاکستان کے کسی بھی حکمران کو آج تک امریکا بہادر کے حکم کو ٹالنے کی جرأت نہیں ہوئی اور اگر کسی نے یہ جرأت کی بھی تو اسے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ نواز شریف تو ہمیشہ آیا ہی امریکی اشیرباد سے ہے، اُس کی کیا مجال کہ وہ حکم سے سرتابی کر سکے۔ اس ’جری‘ مرد کی فقید المثال بہادری کا اس سے ہی اندازہ لگا لیں کہ کارگل کے مسئلے پر جب ذرا سا امریکی پریشر آیا تو اس کے پسینے چھُوٹ گئے ۔ اور پھر باقی کی تھوڑی بہت ہمت کلنٹن کی ایک فون کال کے آگے ڈھیر ہو گئی۔ فوراً طیارہ پکڑا اور جا پہنچاامریکا کے وائٹ ہائوس معافی مانگنے۔ پیر پکڑ کر کارگل کارروائی کا سارا الزام جنرل پرویز مشرف کے سر تھوپ کر سُرخرو ہونے کا جتن کیا۔ اگر اس وقت یہ مردِ مومن ہمت دکھاتا تو کشمیر جو کہ اس وقت پُوری دُنیا کا فلیش پوائنٹ بنا ہوا تھا، ایک بین الاقوامی مسئلے کے طور پر جاندار طریقے سے اُبھر آتا۔ بھارت کو گھٹنے ٹیک کر مذاکرات پر مجبور ہونا پڑتا۔مگر اس شخض نے ’’قومے فروختند و چہ ارزے فروختند‘‘ کے مصداق کشمیری قوم کے جذبۂ حُریت کو اپنے اقتدار کی بھٹّی میں جھونک دیا۔ مشرف کو مجاہدین اور فوجی بھائیوں کی مدد کے لیے فضائیہ کی خدمات حاصل کرنے سے زبردستی روک دیا اور یوں کارگل میں محصور شیر دِل جوانوں کو بھارتی درندوں کی وحشیانہ بمباری کے سپرد کر دیا گیا۔ جس کے باعث پُوری قوم کا مورال زمین بوس ہو گیا۔ اسی غداری کے باعث نواز حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات اس حد تک بگڑے کہ بالآخر حکومت کی معزولی پر منتج ہوئے۔ سو اس عظیم لیڈر کی اولوالعزمی اور بلند ہمتی سب کے سامنے ہے۔ اس پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہے۔
قصّہ کوتاہ، ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکا نے پاکستان پر نام نہاد پابندیاں عائد کر دیں۔ مُلک سختی میں آیا مگر شریفوں کی چاندی ہو گئی۔ انہوںنے عوام کو لوٹنے کا ایک نیا کھیل رچایا ’’قرض اُتارو مُلک سنوارو‘‘۔ اس نعرے سے بھولے پاکستانیوں نے متاثر ہو کر کروڑوں روپے امداد دی۔ مائوں نے اپنے زیور بیچ دیئے۔ غریبوں نے اپنی روز کی دیہاڑی میں سے رقوم جمع کروائیں۔لوگوں کے حُب الوطنی سے سرشار جذبے سے جمع ہونے والی رقم کو جس بے شرمی اور ڈھٹائی سے شریف برادران ہڑپ کر گئے، اُس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں مِلتی۔ آج تک اس پیسے کا آڈٹ نہیں کیا گیا، اگر ہو جاتا تو شریفوں کی رسوائی میں مزید اضافہ ہو جاتا۔
کچھ لوگ ایٹمی دھماکوں کے پسِ پُشت بیان کردہ محرکات سے اتفاق نہ کریں تو ان کے لیے موجودہ دور کی مثال حاضر ہے کہ امریکا اپنے مفادات کے کھیل کو کس طرح سے آگے بڑھاتا ہے۔ بظاہر تو امریکا اور ایران ایک دوسرے سے متصادم و متخاصم نظر آتے ہیں مگر خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے معاملے میں ان کا ایجنڈا مشترک ہے۔ ایران ہمیشہ اسرائیل کو للکارتا رہتا ہے یہاں تک کہ اُس پر ایٹمی میزائل برسانے کی دھمکی
دیتا ہے پھر بھی امریکا نے کوئی سٹریٹجک سٹرائیک نہیں کی۔ جب کہ عراق جس کے پاس کیمیائی ہتھیاروں کے ہونے کا صرف شبہ تھا، اسے کھنڈروں میں بدل دیا گیا اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عراق کی تباہی کے لیے ایران نے امریکا سے انٹیلی جنس شیئرنگ کی۔ عراق کی تباہی سے ایران مزید طاقتور ہو کر اُبھرا۔ سو خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کی اس کھیل میں ایران امریکا کے مفادات کی تکمیل میں بہت عمدہ کردار ادا کر رہا ہے۔حقیقت میں امریکا وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ سو ارب ڈالر کا معاہدہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
قومی سلامتی اور مُلکی سا لمیت کے تحفظ کی بڑی بڑی بڑھکیں مارنے والوں نے ریمنڈ ڈیوس معاملے میں کیا سہانا کردار نبھایا، وہ بھی عام لوگوں سے اوجھل ہی رہا۔ اگرچہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر ساری بدنامی اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے حصّے میں آئی، تمام توپوں کا رُخ اُنہی کی جانب رہا۔ ان کے لیڈروں کو غدار اور وطن فروش کہا گیا۔ جبکہ مقتولین کے ورثاء پر دبائو ڈالنے اور ’دیت‘ کے معاملات طے کرانے میں سارا کردار پنجاب حکومت اور نواز شریف کا تھا۔ شریف برادران کے ذریعے ہی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے سارے معاملات اور مراحل طے کیے گئے۔ سو وہ دِن بھی آ گیا جب امریکا بڑے دھڑلے کے ساتھ اپنے اس ایجنٹ کو پاکستان سے باہر لے گیا۔ سو کوئی پوچھے کہ اس وقت شریفوں کی غیرت نہ جاگی، کیوں کہ اس وقت یہ امریکا بہادر کے ایک سپاہی کو بچانے کے معاملے میں مصروفِ عمل تھے۔ مُلک کا قانون و آئین پُوری طرح پامال ہو گئے۔ جبکہ یہی ریمنڈ ڈیوس امریکا پلٹنے کے کچھ عرصہ بعد ایک بار میں اپنے ہم وطن کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرتا ہے تو اسے جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ سو امریکا کے نزدیک یہاں کے رہنے والوں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کی نہیں ہے۔ وہ پاکستانی کی نظریاتی و جغرفیائی حدوں کو   مونگ پھلی کے دانے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ سلالہ چیک پوسٹ کے 26 فوجی جوانوں کی شہادت کا معاملہ ہو یا اُسامہ بن لادن کو مارنے کی کارروائی، امریکا بہادرہر موقع پر تمام بین الاقوامی قانون اور اخلاقیات روند کر پاکستان کی ممکنہ حد تک تذلیل کا مرتکب ہوا۔
جب ایسے سنہرے کردار کے حامل لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہیں ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے بدلے میں پاکستان کا سارا قرضہ معاف کرنے کی آفر کی گئی اور کروڑوں ڈالر مزید دینے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی جو انہوں نے قومی مفاد میں ٹھکرا دی، تو ان کی باتوں پر یقین کرنے کو دِل نہیں کرتا۔ کیونکہ یہ موصوف تو چند ڈالر کے لیے پوری قوم کو بیچ سکتے ہیں، کروڑوں ڈالر تو بہت بڑی رقم ہے۔ بھلا یہ کیسے ان کروڑوں ڈالر کو ٹھکرا دیتے، جن میں سے آدھی پونی رقم انہوں نے مختلف منصوبوں میں خرچ کرنے کے نام پر ہڑپ کر جانی تھی۔ جو لوگ گلی محلوں میں ہونے والے پیچ
ورک میں بھی کمیشن کھاتے ہیں، وہ بھلا ڈالروں کو کیا معاف کرتے۔ سو ان پر یقین کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ کردار کی ’بلندی‘ کا یہ عالم کہ جب ان کا عدالت میں مواخذہ ہونے لگتا ہے تو پارلیمنٹ میں اپنے بیان کو سیاسی بیان کہہ کر مُکر جاتے ہیں۔ ڈیل کے معاملے میں بھی یہ آخر وقت تک مُکرتے رہے یہاں تک کہ لبنان کے سعد حریری کو نواز شریف کی جانب سے دستخط شدہ ڈیل دکھانا پڑی تب کہیں جا کر دُنیا کو یقین آیا۔ یہ تو اپنے بولے جھوٹ سے بھی مُکر جاتے ہیں۔ ان کی اسی دروغ گوئی پر ظفر اقبال ظفر کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
جھوٹ بولا ہے تو اس پر قائم بھی رہو ظفر
کہ آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
سو اس دِن  نواز شریف کی کامیابی کا ڈنکا بجانے والوں کو چاہیے کہ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ پاکستان کم از کم ایک دہائی پہلے ایٹمی پاور بن چکا تھا، اس دِن تو بس رسمی دھماکے کر کے ایٹمی حیثیت ڈیکلیئر کی گئی۔ بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ کارگل ایشو پر شور مچانے کے باوجود انہوں نے آج تک اس معاملے پر کمیشن نہیں بنایا، کیونکہ کمیشن کی فائنڈنگز نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے شریفوں کی مزید ذلت افزائی کرنی تھی۔
نواز شریف کی پوری زندگی وطن فروشی سے عبارت ہے۔ یہ موصف ہر روز کشمیریوں کی ہونے والی ہلاکتوں پر زبان ہلانا تک پسند نہیں کرتے، کشمیریوں کے خون سے اسی غداری کی وجہ سے انڈین میڈیا نواز شریف کی تعریوں کے پُل باندھتا نہیں تھکتا۔ وہی بھارت جو ہمیں نیست و نابود کرنے کے چکروں میں رہتا ہے، ہمارا یہ محبوب لیڈر اُس دیس میں جا کر کھُلے عام فوج کو بدنام کرتے ہوئے کہتا ہے کہ فوج اور پرویز مشرف نے کارگل معاملے میں اس کی پشت میں چھُرا گھونپا۔ نواز شریف کے بظاہر معصوم اور بھولے چہرے کے پیچھے کتنا سفاک، گھنائونا اور پاکستان مخالف چہرہ چھُپا ہے، یہ بات صرف اس کے قریبی  لوگ جانتے ہیں۔ کلبھوشن کے بارے میں اس نے ایک لفظ نکالنے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ امریکی ایجنٹ شکیل آفریدی کو عنقریب اس کے آقائوں کے حوالے کرنے کی خبریں بھی گردش میں ہیں۔ بدقسمتی ہے پاکستان ہر چیز سے مالا مال ہے مگر اسے مُلک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو قائم رکھنے والا سچا لیڈر میسر نہیں۔ نواز شریف کی مثال بارہ سروں والے راون کی سی ہے۔ کوئی بھی سکینڈل اس کے کسی ایک سر کو نشانہ بناتا ہے تو باقی کے گیارہ اور نکل آتے ہیں۔ کوئی طاقت اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ بدقسمتی سے اس راون کی جان کی سلامتی کا ٹھیکا امریکا بہادر نے لے رکھا ہے۔ اس سانچ کو کبھی آنچ نہیں۔ اگلی باری بھی اسی کی ہے۔ آصف علی زرداری، عمران خان اور شہباز شریف کی وزیر اعظم بننے کی خواہش ان کے دِلوں کے پاتال میں ہی کہیں دم توڑ چکی ہے۔ 


Saturday, May 13, 2017

سیکیورٹی رِسک....................نوشاد حمید کا زہریلا سچ





چند روز قبل وزیر اعظم ہائوس کی جانب سے ڈان لیکس پر نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ جس کی رُو سے قومی سلامتی کونسل کی میٹنگ کی کارروائی کی خبر باہر آنے کی ذمہ داری طارق فاطمی اوررائو تحسین پر ڈال کر انہیں اُن کے عہدوں سے فارغ کر دیا گیا۔ نوٹیفکیشن کے جاری ہوتے ہی آئی ایس پی آر کے ترجمان کی جانب سے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کی گئی کہ وزیر اعظم ہائوس کی جانب سے جاری ہونے والا نوٹیفکیشن نامکمل ہے، اوراس میں انکوائری بورڈ کی سفارشات پرعمل درآمد نہیں کیا گیا، اس وجہ سے یہ نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے۔ 
بس اس کے بعد تو ہر طرف چہ میگوئیوں کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔کیونکہ لوگ ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کے مہینوں سے منتظر تھے اور اس بات پر حیران تھے کہ آخر ایک سادہ سی بات پتا لگانی تھی کہ خبر کہاں سے لیک ہوئی؟ پھر اس پر مہینوں کیوں لگ گئے ؟ اور مہینوں کے بعد بھی تیار شدہ رپورٹ شائع کیوں نہ ہوئی۔ جبکہ حکومت کی جانب سے رپورٹ پر ایک ہی موقف سامنے آتا کہ فائنڈنگز اور سفارشات کے معاملے میں حکومت اور فوجی حلقوں میں کچھ نکات پر اتفاقِ رائے ہونا باقی ہے۔ اس کے بعد ہی رپورٹ کو پبلک کیا جائے گا۔ جن دو عہدے داروں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ ان میں سے طارق فاطمی نے پریس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا پچاس سالہ سفارتی کیریئر بے داغ اور حب الوطنی سے لبریز ہے۔ کبھی کسی کو اُن کی پیشہ ورانہ کارکردگی اور پاکستانیت پر انگشت نمائی کا موقع نہیں مِلا۔ دُوسری جانب رائو تحسین نے اپنی برطرفی کے فیصلے کو عدالت عالیہ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
فوجی ادارے کی جانب سے ٹویٹ کیے جانے کے بعد نواز لیگی ماجے ساجے اپنے خالص سلطان راہی انداز میں تنقید کے گنڈاسے لے کر فوج کے خلاف پِل پڑے۔ کسی نے کہا جی اداروں کو اہم معاملوں پر ٹویٹس کے ذریعے ردِ عمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔ آپس میں مِل بیٹھ کر ’افہام و تفہیم‘ کی فضا میں اختلافی امور کو حل کرنا چاہیے۔ کوئی کہنے لگا ادارے اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ وزیر اعظم ہائوس کسی رپورٹ کو شائع کرنے کا کُلی طور پر مجاز ہے وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ ایک اہم عہدے پر فائز وفاقی وزیر نے تو دو قدم آگے نکلتے ہوئے اپنے ہی ماتحت سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی کو غیر تسلّی بخش قرار دیتے ہوئے اندر کا خوب ساڑ نکالا۔شاید ایسے ہی موقعوں کے لیے شاعر نے کہہ رکھا ہے  
شرم تم کو مگر نہیں آتی
موصوف سے کوئی پوچھے کہ اگرآپ کی وزارت کے ماتحت ادارے اپنا کام ٹھیک نہیں کر رہے تو کیا آپ پچھلے تین چار سالوں سے فائلوں کی مٹی جھاڑنے کی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ایسی بات پر تو آپ کو استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا چاہیے تھا ۔اداروں کو اپنی حد میں رہنے کے بھاشن جھاڑنے والے نواز لیگ کے آدھ درجن ’خوش گفتار‘ اور ’حد درجہ مہذب‘ ترجمانوں سے بھی یہ سوال ہے کہ مریم نواز کس حیثیت میں حکومتی معاملات دیکھتی ہے اور حکومتی موقف کی ترجمانی کا فریضہ ادا کرتی ہے؟ اس وقت محکمہ اطلاعات و نشریات عملاً معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ تمام حکومتی پالیسیوں کی نشر و اشاعت کی ذمے داری دُخترِ اول کے سپرد کر دی گئی ہے۔ باقی جہاں تک رہی یہ بات کہ ڈان لیکس کے پیچھے اصل کردار کون سی ہستی ہے، تو اُس بارے میں تو کچھ بھی ڈھکا چھُپا نہیں رہا۔ ڈان لیکس کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا، بلکہ حقیقت میں فوج کو بدنام کرنے کا ایک اور نواز لیگی حربہ تھا۔ان کا مقصد فوج کو بیک فُٹ پر لے جا کر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچا کر اسے اپنے نیچے لگانا تھا۔ ایک اہم قومی سلامتی کی میٹنگ کی باتوں کو توڑ مروڑ کر لِیک کرنے کا مقصد عوام کی نظروں میں مظلوم بن کر یہ ثابت کرنا تھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ’جمہوری‘ اور ’منتخب‘ حکومت کو عوامی اُمنگوں کی تکمیل کے لیے کام کرنے نہیں دے رہی۔ 
نواز شریف کا پُورا سیاسی کیریئر مخالفین پر الزام تراشیوں سے بھرا پڑا ہے۔ سابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید چاہے اقتدار میں ہوتیں یا اقتدار سے باہر، نواز لیگ کی جانب سے مسلسل اُن کی ذات کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا اور انہیں مُلکی سلامتی کے لیے ایک بڑا سیکیورٹی رِسک قرار دیا جاتا۔ حالانکہ نواز شریف کے وجود سے زیادہ اس مُلک کی سلامتی کو کسی اور سے خطرات لاحق نہیں رہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے ہر دور میں قومی اداروں کے ساتھ متکّے اور محاذ آرائی کا چلن اپنایا۔ جنرل آصف نواز ہوں یا جہانگیر کرامت، جنرل پرویز مشرف ہوں یا جنرل راحیل شریف۔ نواز شریف نے ہر کسی کو اپنا ’’کاما‘‘ بنانے کی کوشش کی اور ناکامی پر پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی محافظ پاک فوج کے تمام تر ادارے کو مُلکی و غیر مُلکی سطح پر بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ واقفانِ حال یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کارگل کا ایڈونچر جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ نواز شریف کو اس معاملے پر پُوری طرح سے ڈی بریف کیا گیاتھا۔ مگر جب کارگل کی جنگ وسعت اختیار کر گئی اور امریکا و دیگر غیر مُلکی طاقتوں کا پریشر پاکستان اور نواز شریف پر پڑا تو اس نے اس سارے معاملے سے ہاتھ کھینچ کر تمام تر ذمہ داری پرویز مشرف پر عائد کر دی۔ اور اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ دُنیا بھر سے ہمدردیاں سمیٹنے کی خاطر خود کو امن کا پرچارک اور پاکستانی فوج کو بُرائی اور جارحیت کا منبع قرار دینے کی نیت سے دُنیا بھر میں "Rogue Army"  کے نام سے پمفلٹ چھپوا کر بانٹے گئے۔ یہیں پر بس نہ کی، بلکہ مشرف کو ہٹانے کی کارروائی کے دوران اس کے طیارے کو پاکستان میں اُترنے کی اجازت نہ دی گئی۔ اور طیارے کو دُشمن مُلک بھارت کے کسی شہر میں اُتارنے کا کہا گیا۔ اگر طیارہ دہلی میں اُتر جاتا تو اس وقت بھارت کے ساتھ جو معاملات تھے، اُس میں بہت ممکن تھا کہ پرویز مشرف کو نواز شریف کی ایماء پر بھارتی حکومت گرفتار کر کے اُ س سے بہت سے قیمتی فوجی راز اُگلوانے اور کارگل معاملے کا بدلہ لینے کی کوشش کرتی۔مگر تائید ایزدی سے مشرف کو طیارہ پاکستان میں ہی اُتروانے میں کامیابی حاصل ہو گئی۔ 
نواز شریف اپنی جلاوطنی کے دوران اور بعد کے سالوں میں بھی یہی واویلا مچاتا رہا کہ مشرف نے اُس کی حکومت کارگل معاملے کے باعث ختم کی تھی اور اس معاملے پر کمیشن بنا کر مشرف کو کڑی سزا دینی چاہیے۔ مگر اس معاملے پر کمیشن بنتا کیسے؟ یہاں تک کہ اپنے دورِ اقتدار میں بھی انہوں نے کمیشن تشکیل نہیں دیا کیوں کہ اگر غیر جانبدار کمیشن تحقیقات کرتا تو نواز شریف مجرم ثابت ہو جاتا۔ سو یہی ان کی کذب بیانی کی تاریخ ہے۔ جو لوگ شریف برادران کی نفسیات سے واقف ہیں وہ اس بات کی تائید کریں گے کہ شریف برادران کے طریقہ ہائے واردات میں سب سے پہلا حملہ مخالفین و مظلومین کو ڈرانا دھمکانا ہوتا ہے۔ اگر تب بھی بات نہ بنے تو پھر یہ سودے بازی پر اُتر آتے ہیں۔ اور ناکامی کی صورت میں اگر انہیں نظر آ جائے کہ معاملہ ان کی بربادی کی جانب جا رہا ہے تو یہ بھاگنے میں عافیت جانتے ہیں یا دُشمن ملک میں موجود اپنے ساتھیوں سے مدد لیتے ہیں۔ عمران خان کے اسلام آباد کے تاریخی دھرنے کے دوران پتا نہیں کیوں بھارتی فوجوں کی جانب سے سرحدی جارحیت اور فائرنگ کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا تھا پھر اس کے بعد جب سے پاناما لیکس کا معاملہ گرم ہوا تو ایک دفعہ پھر بھارت کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی اور معصوم پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے واقعات میں تیزی آ گئی ہے۔ ان حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے جندال کا پاکستان آ کر نواز شریف سے ملنا جانے مستقبل کی کس ریشہ دوانی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ نواز شریف ایک تاجر ہے اور تاجر کے آگے صرف تجارتی مفادات ہوتے ہیں، چاہے وہ مُلک کے اندر ہوں یا دُشمن مُلک کے اندر۔ نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں جیسی اصطلاحات اس کی نظر میں بہت بے معنی اور بیکار ہو تی ہیں۔ نواز شریف اور اس کا تمام تر خاندان، وزراء، مشیران اور اہم عہدوں پر فائز افراد سب کے سب نواز شریف کی پاکستان کی سالمیت کے خلاف سرگرمیوں کی بناء پر سیکیورٹی رسک بن چکے ہیں۔ 
خیر، ڈان لیکس پر فوجی ترجمان کی جانب سے حکومت موقف کی نفی میں ٹویٹ آنے کے بعد عوام بہت پُراُمید ہو گئے تھے کہ یقینا نواز شریف کو اپنے کیے کا پھل مِلنے والا ہے۔ اور لوگوں کا یہ شک یقین میں بھی بدل گیا تھا کہ یقینا حکومت کی جانب سے یکطرفہ نوٹیفکیشن جاری کر کے کسی خاص شخصیت کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر گزشتہ چند روز سے اخباروں میں خبر گردش کرنے لگی کہ بالآخر حکومتی ٹیم نے عسکری قیادت کو ڈان لیکس پر ’متفقہ موقف‘ اختیار کرنے پر راضی کر لیا ہے۔ یعنی ’مفاہمت‘ ہو گئی ہے۔ پتا نہیں یہ مفاہمت ہوئی ہے یا نہیں؟ مگر اس وقت سوشل میڈیا پر تمام تر توپوں کا رُخ فوج کی طرف ہو گیا ہے۔ پہلے پاناما لیکس کے فیصلے پر عدلیہ کا وقار سوشل میڈیا پر رُل گیا اور اب فوج جیسا معتبر ادارہ زیرِ عتاب آ چکا ہے۔ فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں ایسی ایسی شرمناک باتیں کی جا رہی ہیں اُن کی اہلیت اور صلاحیت پر ایسے ایسے تبرے کیے جا رہے ہیں کہ اُنہیں احاطۂ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ آج نواز شریف نے اپنی جلاوطنی کا بدلہ پاک فوج سے لے لیا ہے۔ نواز شریف جیت گیا ہے ، عوام اور اداروں کا وقار ہار گئے ہیں۔ مُلک کا چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناتے نواز شریف کی کرپشن اور مطلق العنانیت  کے تلے دب کر تمام اداروں کی ساکھ کا کچومر نکل گیا ہے۔
خاطر جمع رکھیے، یہ سب تو ابھی ایک شروعات ہے۔  شیر اب سب کو بھیڑ بکری بنا کر نگل رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی پاناما کیس پر تاریخی فیصلہ سُنا کر جے آئی ٹی بنوا دی۔ یقین مانیے پاناما کا کیس اب نواز اینڈ کمپنی کا کچھ بھی بگاڑنے والا نہیں ہے۔ اگر مُلک کے مقتدر اور بااختیار ادارے ڈان لیکس اور پاناما لیکس پر نواز شریف کا بال بیکا نہیں کر سکے تو جے آئی ٹی میں شامل محکوم محکموں کے اٹھارویں اُنیسویں گریڈ کے افسروں کی کیا مجال ہے کہ شہنشاہِ وقت کو کوئی نقصان پہنچا سکیں یا اُن کا احتساب کر سکیں۔ قوم کو کسی خوش اُمیدی میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی ترقی اور خوش حالی کے خواب شریف خاندان کی جھولی میں یرغمال ہوئے پڑے ہیں۔ افسوس اس مُلک میں تبدیلی اب صرف جابر اور مقتدر حکمران کے اختیار و اقتدار میں مزید اضافے کا نام ہی بن کر رہ گئی ہے۔

Thursday, May 4, 2017

سوداگر.....,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,.......نوشاد حمید,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, زہریلا سچ





چند روز قبل تحریک انصاف کے بانی قائد عمران خان کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ نواز شریف نے اُنہیں پاناما لیکس کے
معاملے سے پیچھے ہٹنے کے لیے دس ارب روپے کی آفر ایک شخصیت کے ذریعے کی تھی۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے عمران خان کے اس بیان کو آڑے ہاتھوں لیا گیا اور اُنہیں حسب سابق ’الزام خان‘ اور ’جھوٹا‘ کے القابات سے نواز ا گیا۔ اس پر عمران خان نے مزید بیان داغا کہ اُنہیں یہ آفر لاہور میں مقیم ایک شخصیت کے ذریعے کی گئی اور اگر معاملہ عدالت میں گیا تو وہ اس معاملے پر مزید لب کشائی کے لیے تیار ہیں۔ کیونکہ بصورتِ دیگر اس شخصیت کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد سے حکومتی حلقوں کی جانب سے ایک پُراسرار خاموشی سادھ لی گئی ہے۔ عمران خان ٹھیک کہہ رہا ہے یا غلط، اس بات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ لیکن ماضی کے قرائن و شواہد کے پلڑے میں اس کے الزام کی صداقت خاصی وزنی معلوم ہوتی ہے۔ نواز شریف کا تمام سیاسی کیریئر سودے بازیوں اور ضمیروں کی خرید سے اٹا پڑا ہے۔ مارشل لاء کے دور میں پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی کو پتا نہیں گوالمنڈی کے ایک گول مٹول سفید چہرے والے نوجوان کی کونسی ادا بھا گئی، جانے اُس کی شخصیت میں کونسا ایسا نابغۂ عصر نظر آ گیا کہ سیدھا اُسے پنجاب کے وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز کر کے پاکستان کی کئی نسلوں کو دہائیوں پر محیط غلامی کی دلدل میں دھکیل دِیا۔اپنے والد کی لوہافیکٹریوں سے مال اُتروانے والا کروڑوں لوگوں کے مقدر ہتھیا کر اُن کے مال و زر کا مالک بنا بیٹھا ہے۔ اپنے سیاسی مربیّ جنرل ضیاء الحق اور پھر محمد خان جونیجوکی پے در پے اموات نے اسے ایک تیار بر تیار پکی پکائی مسلم لیگ کا وارث بنا دیا۔ اس وارث نے مسلم لیگ کی صدارت ہتھیانے کے لیے جونیجو کی رسمِ قُل کے ختم ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا۔
1988ء کے انتخابات میں سوداگر کو ابھی مال بیچنے کا سلیقہ پُوری طرح نہیں آیا تھا، اس لیے اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ مالی اور انتظامی حمایت کے باوجود حکومت بنانے میں کامیابی حاصل نہ ہوئی، مگر یہی دور سوداگر کو خریداری کا سلیقہ سکھانے میں بڑا معاون ثابت ہوا اور بالآخر پُوری تیاری کے ساتھ اپنے دائو پیچ کھیل کر 1990ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوا اور انتخابی عمل میں کامیابی کے ضامن بزرجمہروں کو ساتھ مِلا کر اقتدار کے ایوانوں میں جا پہنچا۔ جہاں کچھ کمی نظر آئی وہاں آٹے کے تھیلوںاور گھی کے ڈبوں کے ٹرک کے ٹرک اُنڈیل کر’عوامی رائے عامہ‘ کو اپنے حق میں ہموار کیا۔ یہی تو جمہوریت کا حُسن ہے کہ جہاں افلاس کا راج ہو، جہاں غربت کی طوائف جگہ جگہ ناچتی ہو، جہاں مجبوریاں ہاتھ پھیلائے اناج کے چند دانوں کی سوالی ہوں وہاں سیاسی سوداگروں کا کاروبار خوب چمکتا ہے۔ سو اقتدار کا تاج اپنے سر پر سجا لیا مگر مزاج کی رعونت حکومت کی مُدت پُوری کرنے کے آڑے آئی۔ مُلکی اداروں اور صدر مملکت سے براہِ راست محاذ آرائی اقتدار کا دورانیہ قلیل کرنے کا باعث بنی۔ اگرچہ کہ عدالت سے اپنی حکومت کی برطرفی کا صدارتی فیصلہ غلط ثابت کروا کے حکومت بحال کروالی۔ دُنیا حیران بھی ہوئی کہ بے نظیر بھٹو 1990ء میں اپنی حکومت کی برطرفی کو چیلنج کرنے عدالت گئی مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، جبکہ عزت مآب نواز شریف کو انہی نوعیت کے الزامات میں عدالت نے سُرخرو کر دیا۔ وہ الگ بات کہ انتہا کو پہنچی کشیدگی اور محاذ آرائی کے باعث بات نہ بن سکی اور انتخابات ہو کر ہی رہے۔ ان کے پہلے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں بس ایک موٹر وے بنی اور دوسری پیلی ٹیکسیاں سڑکوں پر دوڑنے لگیں۔ یہ دونوں منصوبے کرپشن کی خوفناک حدوں کو پار کر گئے تھے۔کِک بیکس اور کمیشن کے ذریعے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا گیا۔
1993ء میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی۔ سوداگر کے کاروبار سے اقتدار کی راس نکل گئی تو خاصی مندی آ گئی۔ جس کے ازالے کے لیے پھر سے شطرنج کی بساط بچھا دی گئی۔ اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز افراد کی بولیاں لگنے لگیں۔ بے نظیر کی کردار کشی اور اسے سیکیورٹی رسک قرار دینے کے لیے صحافت کے پیشے سے جُڑے معززین کی نیلامیاں کی گئیں۔ لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے اور تخریبی و شر انگیز کارروائیوں کے لیے غنڈہ عناصر پر خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے۔ کہاں کہاں پر ’رسائی‘ نہ کی گئی۔ اور پھر دُنیا گواہ بنی کہ بے نظیر کی حکومت کو اُس کے اپنے ہی صدر نے رخصت کر دیا۔ سوداگر کامیاب و کامران ٹھہرا۔
1997ء کا سال سوداگر کے سیاسی کیریئر کے عروج کا سال تھا۔ ایک تہائی اکثریت کا زعم ، پھر مزاج حد درجہ آمرانہ، کس کا دِل خود کو امیر المومنین کہلوا کر ’مطلق مختار‘ بننے کو نہیں چاہے گا۔ سپریم کورٹ آڑے آئی تو پتا نہیں سوداگر کی شخصیت کی کونسی ’چمک‘ تھی کہ اقتدارِ شریفیہ کو للکارنے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس کے اپنے ہی ساتھی ججوں نے جبراً رخصت کر دیا۔ مرزا یار اقتدار کی سُنجی گلیوں میں اکیلا ہی مزے سے پھرنے لگا۔ مگر اقتدار کی ہوس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ اپنے محسن فاروق لغاری کو بھی چلتا کیا۔ افسر شاہی کی تذلیل و توہین کے بغیر ناشتہ ہضم نہ ہوتا۔ جنرل جہانگیر کرامت کے ایک معمولی سے بیان کو بنیاد بنا کر آرمی چیف کے عہدے سے فارغ کیا۔ واسطہ پرویز مشرف سے پڑا۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ طیارہ سازش کیس میں دھر لیا گیا۔ دو تہائی اکثریت کی خماری راس نہیں آئی تھی۔ سو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ یہاں پھرسوداگروں والی ڈیل کام آئی اور جدہ پہنچ گیا۔ مقدس دھرتی پر ایمان کی برکتیں بھی سمیٹیں اور کاروبار کو بھی رفعتوں سے ہمکنار کیا۔ مگر یہاں سودے بازی اور چھانگا مانگا کی سیاست کے سواد سے محرومی سوہانِ رُوح بن گئی۔ عوامی ٹیکسوں سے کی جانے والی عیاشی کی سنہری یادوں نے آنسوئوں کی جھڑی لگا دی، مگر کیا کرتا کہ سیاست کی منڈی میں خرید و فروخت پر نئے آڑھتی اور سوداگر قابض ہو چکے تھے۔
والد محترم میاں شریف جدہ میں قیام کے دوران وفات پا گئے۔ پرویز مشرف نے انسانی ہمدردی کی بناء پر تمام دُشمنی بالائے طاق رکھ کر ایک مؤقرروزنامے کی مالک مشہور صحافتی شخصیت کے ذریعے سوداگر کو پیغام بھجوایا کہ باپ کو دفنانے کی خاطر چند روز کے لیے پاکستان آ سکتے ہو۔ سوداگر نے سوچا، مرحوم باپ سے اب کیا فائدہ مِل سکتا ہے۔ اگر پاکستان میں آخری رسومات میں شرکت کی تو مشرف کے سیاسی قد کاٹھ اور وقار میں اضافہ ہو گا اور جرنیل کو بدنام کرنے کا یہ موقع کہاں ہاتھ لگے گا کہ اس نے مرحوم باپ کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے بیٹوںکو پاکستان بھی نہیں آنے دِیا۔ سو سیاسی منفعت ، اُلفتِ پِسری پر غالب آ گئی۔ والد مرحوم کی وفات سیاسی و عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کا بہترین سودا ثابت ہوئی۔
وکلاء تحریک مشرف کے اقتدار کو زوال کی گھاٹی میں دھکیلنے پر گامزن ہوئی۔ معاملہ چونکہ دُشمنِ اول سے بدلہ چکانے کا تھا سو تحریک میں جان ڈالنے کے لیے میڈیا اور وکلاء لیڈروں کے لیے بوریوں کے منہ کھُل گئے۔ سول سوسائٹی اور وکیلوں کی قربانیوں اور عزم کے صدقے مشرف کو ہزیمت کا راستہ دیکھنا پڑا۔ 2008ء کے الیکشنز میں برسراقتدار آنے کی پُوری ’تیاری‘ ہو چکی تھی مگر بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت نے عوامی ہمدردیوں کا رُخ پیپلز پارٹی کی جانب موڑ دیا اور سوداگر کو پنجاب کی حکومت سازی پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ کئی بار حکومت کے خلاف تحریک کھڑی کرنے کو دل چاہتا مگر فوجی طالع آزمائوں کے ڈر سے پانچ سال صبر کے کڑوے گھونٹ بادلِ نخواستہ پینے ہی پڑے۔ اس دوران عوامی افلاس و عزلت کی قیمت شناسی میں مہارت اپنے درجہ کمال کو پہنچ گئی۔ میٹرو بس، لیپ ٹاپس ، وظیفے اور بیسیوں ترغیبات و تحریصات کے جال میں عوام کو پھنسا لیا گیا۔ سابقہ حکومت کی نااہلی ان کے لیے باعثِ برکت ثابت ہو گئی۔آر او الیکشنز کے نتیجے میں اقتدار میں آتے ہی وہی پُرانے وتیرہ، وہی فرعونی رعونت، وہی ضمیروں کی خرید و فروخت کا بازار کھُل گیا۔ اپنی مطلق العنانیت کا اظہار مقصود تھا سو ماڈل ٹائون میں کھُلے عام میڈیا کی آنکھوں کے سامنے نہتے مردوں بیبیوں کے سروں میں گولیاں ماری گئیں۔ وارثوں کے شور مچانے پر پہلے تو انہیں دھونس دھمکی سے خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ بات نہ بنی تو بھاری دیت کی آفر کے ذریعے خود کو بری الذمہ کرانے اور لواحقین کو خریدنے کے جتن شروع ہو گئے۔ میگا پراجیکٹس کی آڑ میں اربوں روپے ہتھیانے کی گھنائونی کرتوتوں کا ایک بار پھر سے آغاز ہو گیا۔ میڈیا نے شور مچایا تو سرکاری اشتہارات کی بھرمار کے ذریعے قابو کر لیا گیا ۔ کوئی کسر رہ گئی تو اینکرز کو اپنے راستے پر لانے کے لیے انہیں سرکاری عہدوں پر کھپایا گیا۔ ابصار عالم چیئرمین پیمرا، افتخار احمد سی ڈی اے اور نجم سیٹھی پی سی بی میں پہنچ گئے۔ باقی ماندہ کو لفافے باقاعدگی سے جاتے ہیں۔ ڈھٹائی کا عالم تو یہ ہے کہ پنجاب کے عوام کے پیسوں میں سے ڈھائی کروڑ روپے کی خطیر رقم سندھ کے صحافیوں کی رپورٹنگ اور تجزیوں پر اثر انداز ہونے کی خاطر شہباز شریف کی جانب سے کراچی پریس کلب کو ’ہدیہ‘ کی گئی۔
پاناما لیکس کا ہنگامہ شروع ہوا ۔ تو سوداگر نے وہ کر دکھایا جس کی کوئی توقع نہیں کر سکتا۔ اپنی تمام تر دو نمبر کمائی کی منی ٹریل ثابت کرنے میں ناکامی پر تمام کرپشن کا ملبہ والد مرحوم پر ڈال دیا۔ بیٹے والدین کی عزت و آبرو پر قربان ہو جاتے ہیں اور یہاں مرحوم والد کی ساکھ اور ناموس کو اپنی سیاسی بقاء کی سُولی پر چڑھا دیا گیا۔ الیکشن قریب آتے ہی اپنے ان ’بھائیوں‘ کی تشفی کی خاطر نوکریوں پر سے پابندی ہٹا لی گئی ہے۔ عوام کی نظروں میں کھوئی ہوئی ساکھ کی بحالی اور عنقریب الیکشنز میں کامیابی کی خاطر دھڑا دھڑ گیس کنکشنز، بجلی کنکشنر، نوکریوں اور قرضوں کے ذریعے عوام مینڈیٹ کو خریدنے کے جتن اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ ترقیاتی فنڈز کو عوام کو رشوت کی خاطر دھڑا دھڑ استعمال کیا جا رہا ہے۔ جن ایم پی ایز اور ایم این ایز کو برسوں شرفِ دیدار بخشنا پسند نہیں کرتے، انہیں کوٹے پر کوٹے جاری کیے جا رہے ہیں۔ مگر عوام بہلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ سوشل میڈیا پر عوامی نفرت اور بیزاری کے ہزاروں لاکھوں پوسٹس ان کے بھاری مینڈیٹ کی قلعی کھول چکے ہیں۔ لوگ پریشان ہیں کہ ووٹ کسی اور کو پڑتا ہے اور جیت ہمیشہ یہ کیوں جاتے ہیں؟ جب بھی شریفوں پر بُرا وقت آتا ہے تو دُشمن مُلک کی جانب سے سرحدوں پر فوجی جارحیت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاناما کیس کے فیصلہ کُن موڑ پر بھی پڑوسی دُشمن مُلک کا جندال ان سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔ جانے اب کیا تیاریاں چل رہی ہیں، خدا ہی جانے۔
شاید یہ قومجان لیتی کہ ہزاروں سال پہلے ہی افلاطون نے کہہ دِیا تھا کہ کسی تاجر کو اعلیٰ حکومتی عہدے پر فائز کرنا ریاست کی بربادی کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ تاجر صرف اپنے نجی مفاد کو ہی بالاتر رکھتا ہے۔ اُس کے اندر جرأت مندانہ فیصلے لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ کسی جنگی کیفیت میں اپنے وہ دُشمن کے آگے فوراً گھٹنے ٹیک دیتا ہے (کارگل کی طرح)۔ آج پُورا مُلک شریف خاندان کا ایک بیگار کیمپ بن چُکا ہے۔ وہ بیگار کیمپ جہاں کے کرتا دھرتا عوام کو بس اتنی روٹی دیتے ہیں کہ وہ اپنے مالکوں کے لیے زیادہ سے زیادہ پیداوار اور دولت اکٹھی کریں، مریں نہ مگر مُردوں جیسے ہوں۔ تن اور جان کا بس برائے نام رشتہ ہو۔ سوداگر جانتا ہے کہ ہر صورت میں مُلک میں غربت، ننگ اور افلاس کو زندہ رکھنا ہے۔ کیونکہ غربت کے ہاتھوں بلکتی روحیں ہی ان کے آگے سوالی بن کر کھڑی ہوتی ہیں، انہی پھیلے ہاتھوں کی  فراوانی ہی ان کے اقتدار کو قائم و دائم رکھنے کی کنجی ہے۔ 


بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...