Friday, June 16, 2017

نواز شریف ۔۔.....تخت یا تختہ.........زہریلا سچ..................نوشاد حمید





برصغیر کی تاریخ خونی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس تاریخ کے چند خون آلود اوراق ہیں مغلوں کی تخت نشینی اور اقتدار کی خاطر اپنے ہی بھائیوں اور بیٹوں کو جان سے محروم کرنے سے ذرا بھی دریغ نہ کرنا۔ ہمایوں اپنے بھائیوں کی ریشہ دوانیوں سے اس قدرعاجز آ گیا کہ آخر اُس نے انھیں اندھا کر قید خانے میں ڈلوا دیا۔ اکبر اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا اس لیے یہ مسئلہ اُسے درپیش نہ ہوا۔ جہانگیر کے اپنے بیٹے خسرو نے اُس کے خلاف بغاوت کر دی تو اُسے اس کے سات سو ساتھیوں سمیت سرِ عام پھانسی پر لٹکا دیا۔ شاہجہان کو بھی تاج و تخت پر براجمان ہونے کے لیے اپنے بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے پڑے مگر اس کے آخری ایام بھی قطعاً خوشگوار نہ تھے۔ اورنگزیب نے اُستخت یا تختہے قیدکرا کے اپنے باقی بھائیوں کو ٹھکانے لگایا اور پھر تقریباً نصف صدی تک بادشاہت پر قابض رہا۔ مگر شکّی اتنا تھا کہ اپنے بیٹوں کو معاملاتِ حکومت میں شریک نہ کیا۔ سو یہ ہے برصغیر میں تاج و تخت کے حصول کی خونی تاریخ۔ اقتدار کی ہوس انسان کی تمام تر انسانیت اور اخلاقیات پر غالب آ جاتی ہے۔ اس وقت بھی اقتدار پر ایک مغل شہنشاہ غالب ہے، اس کی مطلق العنانیت کے آگے ’باغی‘ اپوزیشن پُوری طرح بے بس نظر آتی ہے۔ مگر پھر بھی اس کا سفینۂ اقتدار ذلت و رُسوائی کے گرداب سے نکلنے کا نام نہیں لے رہا۔ پاناما لیکس، ڈان لیکس، فوٹو لیکس، کوئی نہ کوئی سیاسی بحران اس کے اقتدار کے آڑے آ رہا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ شہنشاہی نظام میں خطرہ باغیوں سے نہیں، بلکہ اپنوں سے ہوتا ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں جنم لینے والی سازشیں ہی تاج و تخت سے محرومی کا باعث بنتی ہیں۔ بحرانوں میں ساتھ کھڑے ہونے والے ہی حقیقتاً بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ پاناما لیکس میں اثاثوں کی تفصیلات عمران خان یا آصف زرداری نے مہیا نہیں کیں، بلکہ اس کے ڈانڈے گھر کے بھیدی سے جا ملتے ہیں۔ اقتدار کی لڑائی میں سگے بھائیوں کو معاف نہیں کیا جاتا، اور جہاں سوتیلا پن آ جائے، وہاں کسی رُو رعایت کی توقع کرنا محض خام خیالی ہی ہو سکتی ہے۔ تھوڑا بہت دید لحاظ والدین کی موجودگی میں ہو سکتا ہے، مگر اُن کے دُنیا سے چلے جانے کے بعد سب کھُل کھیلتے ہیں۔
نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا۔ ایک بار پھر وہی ’مظلومیت‘ پر مبنی گھسا پٹا بیان دِیا جو پاناما لیکس پر اپنے دفاع میں پارلیمنٹ میں دیا تھا۔’ محنت ‘کی کمائی کو 1971ء میں قومیانے کا ذکر کیا۔ پیپلز پارٹی کے دور کے ’احتساب‘ اور پرویز مشرف کے ’استحصالی ہتھکنڈوں‘ کے بعد ’بے سروسامانی‘ کے عالم میں جدہ کی خود ساختہ جلاوطنی کی دُہائیاں دیں کہ اس کے بعد کسمپرسی کے عالم میں ایک ’چھوٹی‘ سی سٹیل مِل بنائی اور دُنیا کے دیگر ملکوں میں بھی جائیدادیں خریدیں۔ بزرگوں کی عزت و وقار اس حد تک ملحوظِ خاطر ہے کہ منی ٹریل کی تمام تر ذمہ داری مرحوم والد پر ڈال دی کہ وہی جانیں کس طرح سے ایک لوہا فیکٹری سے آگے درجنوں کاروبار کھُل گئے۔ ایک لطیفہ بڑا برمحل ہے کہ ایک سِکھ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ٹرین کے سفر کے دوران ایک مسافر سے اُلجھ پڑا۔ مسافر نے سِکھ کو تھپڑ مارا تو سِکھ کہنے لگا مجھے تو تُو نے مار لیا، اب میرے بچے کو ذرا مار کے دکھا۔ مسافر نے بچے کے بھی ایک تھپڑ جڑ دیا۔ اب کی بار سِکھ نے کہا کہ کوئی با ت نہیں بچہ تو بچہ ہے، تُو میری بیوی جو میری عزت ہے، اُس کو ذرا ہاتھ لگا کے دکھا۔ مسافر نے بیوی کو بھی تھپڑ رسید کر دیا۔ ساتھ بیٹھے دیگر مسافروںنے پوچھا کہ تُو نے خود تو بے شرمی سے مار کھائی اور ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی ذلیل کروا دیا۔ سِکھ کہنے لگا اگر میں اکیلا مار کھاتا تو یہ مجھے گھر جا کر بزدلی کے طعنے دیتے۔ اب انہیں بھی مار پڑی ہے تو یہ شرم کے مارے چُپ ہی رہیں گے۔ سونواز شریف ذلت و رسوائی کے اس سمندر میں اکیلا ڈوبنے کو تیار نہیں، وہ اپنے تمام خاندان والوں کو اس میں گھسیٹنا چاہ رہا ہے۔ مگر شہباز شریف جو کہ دو عشروں سے دِل میں وزیر اعظم کا منتہائے مقصود بسائے بیٹھا ہے، اب کی بار خاموش تماشائی کا کردار نبھا رہا ہے، بلکہ صرف تماشائی نہیں بلکہ تماشا لگانے میں اس کا کردار مرکزی ہے۔ ابھی آہستہ آہستہ بہت سے حقائق سے پردہ اُٹھنا باقی ہے۔ اقتدار کی لڑائی میں برادرانہ اُلفت کہیں پیچھے جا کھڑی ہوئی، اب تو صرف اپنی اپنی اولادوں کو تخت اسلام آباد اور تخت لاہور پر متمکن کروانے کی ہوس ِبے پناہ رہ گئی ہے۔
ارادہ تو نواز شریف کا ایک بار پھر عدلیہ اور جے آئی ٹی پر گلو بٹوں کے ذریعے دھاوا بولنے کا تھا۔ مگر حالات بدل گئے ہیں۔ شہباز شریف ماضی کی مانند احترامِ پدری میں کسی ناکام مہم جوئی کا حصّہ بننے کو تیار نہیں۔ اُسے اپنی اولاد کے لیے اقتدار کے کیک میں سے بڑا حصّہ چاہیے۔ پیمانۂ قناعت پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ تک محدود نہیں ہے۔ چھوٹے بھائی کی کوری ’نہ‘ کے باعث نواز شریف کی جوڈیشل اکیڈمی میں آمد کے موقع پر احتجاجی کارکن دستیاب نہ ہو سکے۔ کیونکہ 1990ء سے لے کر اب تک ہونے والے سارے احتجاج اور لانگ مارچ چاہے وہ پیپلز پارٹی کے خلاف ہوں، یا مشرف کے خلاف، یا پھر عمران خان کا مشہورِ زمانہ اسلام آباد والا دھرنا، ان سب کے پیچھے شہباز شریف کی ’مین پاور‘ یا اشیرباد شامل تھی۔ نواز شریف کے پاس جو چمچے کڑچھے ہیں، اُن کی کوئی حیثیت نہیں، وہ تو صرف بھونکنے والے شیر ہیں۔ اُن سے میڈیا پر جتنا مرضی بکوا لیا جائے، ’سٹریٹ پاور‘ اُن کے پاس نہیں ہے۔کچھ دِن پہلے تک تو یہ جوڈیشل اکیڈمی کے باہر ہزاروں بندہ اکٹھا کرنے کے لیے فون کھڑکا رہے تھے۔ احکامات جاری کیے جاری تھے۔ مگر نواز لیگی کیمپ میں سے کوئی بھی ایم این اے دس بندے اکٹھے کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پنجاب نواز لیگ کی تمام تر تخریبی کارروائیوں کی انجام دہی کے لیے بیس کیمپ کا درجہ رکھتا ہے۔ اور یہ بیس کیمپ چھوٹے میاں کے قبضے میں ہے۔ سب افسران بالا کی ڈوریاں شہباز شریف کے ہاتھ میں ہیں۔ تمام محکموں پر سارا اختیار شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا ہے۔ ان کے پاس بندے مار پولیس افسران ہیں۔ پٹواریوں کی پُوری فوج ظفر موج موجود ہے۔ ہزاروں گلو بٹ رقم کے صندوقوں کے منہ کھولنے پر ہر قسم کی تخریبی کارروائی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ جبکہ اس معاملے میں نواز شریف مجبورِ محض ہے۔ سو شہباز شریف ماضی کی تمام محرومیوں کا بدلہ لینے کے لیے کھُل کر سامنے آ گیا ہے۔ اُسے ہر قیمت پر حمزہ شہباز کو اگلا وزیر اعظم بنانا ہے۔ جس کے لیے اُس نے کئی سالوں سے ہوم ورک کیا تھا جو اب ثمر آور ثابت ہو رہا ہے۔ 1999ء میں پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد بھی شہباز شریف نے خود کو طیارہ سازش کیس سے بری کروانے کے لیے درپردہ مشرف کی ٹیم سے مذاکرات کیے۔ پلان یہی تھا کہ نواز شریف جدہ چلا جائے گا تو مشرف کی چھتر چھایا میں اقتدار کی چُوری میں شہباز شریف کو بھی خاطر خواہ حصّہ مِل جائے گا۔ مگر میاں شریف کی ڈانٹ ڈپٹ نے شہباز شریف کو آخری وقت میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ نہ پہنانے دیااور وہ بھی بادلِ نخواستہ جدہ منتقل ہو گیا۔
مگر اب کی بار نواز شریف بحران کے اس وقت میں اپنی مبینہ کرپشن کے کیسز میں اکیلا کھڑا ہے۔ نیب میںموجود حدیبیہ پیپر ملز کا کیس کا ڈراوا شہباز شریف کو راہِ راست پر لانے کی ایک ناکام کوشش معلوم ہوتی ہے۔ دونوں کی راہیں جُدا ہو چکی ہیں۔ میڈیا پر دونوں بھائیوں کی اکٹھے فوٹیج آنا شراکت داروں کی مشترکہ کاروباری مفادات کی مجبوری سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ شہباز شریف وقت کی نبض پہچان کر آگے بڑھ رہا ہے۔ اب کی بار وہ نواز شریف کے ہراول دستے کا سپہ سالار نہیں، بلکہ اُس کے مخالفین کی فوج کے عقب میں کھڑا تمام تر کارروائی کو کنٹرول کر رہا ہے کیونکہ اقتدار کی لڑائی میں کامیابی تمام  رشتوں، اخلاقیات اور ضابطوں کو پامال کر کے ہی حاصل ہوتی ہے۔

Tuesday, June 13, 2017

چندہ.............. نوشاد حمید........... زہریلا سچ




آج جس چندہ کاذکر کیا جا رہا ہے یہ وہ چندہ نہیں جو مائیں اپنے بچوں کو پیار سے کہہ کر اُن کی بلائیں لیتی ہیں بلکہ وہ چندہ ہے جو لوگوں سے وصول کر کے اپنی بلائیں اُن پر ڈالی جاتی ہیں۔ چندہ ہمارے پُورے سماج میں دخیل ہو چکا ہے۔ ہر کوئی چندہ وصولی میں لگا ہوا ہے۔ یہ چندہ زیادہ تر اکٹھا کرنے والوں کی اپنی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کہیں مسجدوں کی تعمیر کے نام پر چندہ کھایا جاتا ہے۔ سکولوں کی حالت زار کا رونا رو کر والدین سے چندہ وصول کیا جاتا ہے۔ ناداروں، یتیموں اور مجبوروں کے نام پر چندہ ہڑپ کیا جاتا ہے۔ غرضیکہ وطنِ عزیز میں ہر طرف چندہ وصولیوں کا بازار گرم ہے۔یہاں پر اس چندے کا ذکر کیا جائے گا جو سیاسی، دفتری اور انتظامی سطح پر عوام اور بین الاقوامی طاقتوں سے وصول کیا جاتا ہے۔
ایک چندہ وہ بھی ہے جو ہمارے حکمران، عرب مُلکوں سے غریبوں کے مفت علاج معالجے کی مد میں وصول کرتے ہیں اور پھر اس سے اپنے ذاتی میڈیکل کمپلیکس بنا کر صرف امیروں کا علاج کر کے کروڑوں روپے سالانہ اپنے ذاتی اکائونٹ میں جمع کراتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے سربراہ چندے کی رقم کے نام پر بزنس مینوں سے خوب روپیہ بٹورتے ہیں۔ اور یہ بزنس مین کوئی فلاح یا خدا ترسی کے نام پر پیسے نہیں دیتے۔ بلکہ جب وہ پارٹی برسراقتدار آ جاتی ہے تو اس سے مختلف منصوبوں میں حصّہ مانگتے ہیں یا پھر اپنی انڈسٹری کی مشینری کی درآمد پر ایکسائز و دیگر ٹیکسوں میں رعایت کے طلب گار ہوتے ہیں۔
اس مُلک کا ایم این اے، ایم پی اس قوم کی خدمت کیا کرے، غریب کی غربت کیا دُور کرے۔ اُسے سیاست میں آ کر سب سے پہلے تو پارٹی سربراہ کی خدمت کرنی پڑتی ہے اور پھر ٹکٹ حاصل کرنے کے موقع پر کروڑوں روپے ’غریب‘ جماعت کے استحکام کی خاطر دینا پڑتے ہیںجو سارے کے سارے سربراہ کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔یہ جو پچاس ساٹھ ہزار روپے کی پارٹی ٹکٹ ہوتی ہے، صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہوتی ہے۔ لازمی بات ہے کہ یہ شخص جب پارلیمنٹ میں جاتا ہے تو پہلے اُسے اپنی لاگت پُوری کرنی ہوتی ہے۔ اس کے بعد جا کر کمائی کی باری آتی ہے۔ اس کے بعد وہ جب تک ایوان میں رہتا ہے، اُسے سربراہِ جماعت کی وقتاً فوقتاً مالی خدمت کرنا پڑتی ہے۔ یہاں تک کہ عوام کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز میں سے بھی ’پارٹی فنڈ‘ کے لیے چندے کی رقم نکالنا پڑتی ہے۔ ان حالات میں اس مُلک میں غریب آدمی بھلا کیا الیکشن لڑے گا، اور کیا پارلیمنٹ میں پہنچے گا۔ اسی باعث مڈل کلاس اور لوئر کلاس کے افراد کی پارلیمنٹ میں موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مغربی ممالک میں قدرے شفاف طریقہ اپنایا جاتا ہے اور وہ ہوتا ہے کہ پارٹیوں کے اُمیدوار ڈِنرز کا اہتمام کرتے ہیں جن کی مہنگی ٹکٹس کے ذریعے بھاری فنڈ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اگرچہ کچھ کاروباری شخصیات پسِ پردہ رہ کر بھی فنڈنگ کرتی ہیں تاکہ کل کو مخالف اُمیدوار برسراقتدار آ جائے تو ان کے کاروباری معاملات میں رکاوٹ نہ بنے۔
  چندے کی اور بھی کئی اقسام ہیں۔ ایک زبانی چندہ ہوتا ہے جو قطری خط کی صورت میں وارد ہوتا ہے۔ مگر کئی دفعہ یہ زبانی چندہ دینے والے خود بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں اور پھر اس سارے معاملے سے جان چھُڑانے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔
اگر عزت دار والدین کو پتا چل جائے کہ بیوروکریٹس، ٹیکنو کریٹس اور حکومت میں موجود لوگوں کو اپنے سے برتر لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کیسے کیسے عیاشی کے سامان مہیا کرنے ہوتے ہیں۔ ترقی کرنے اور سیاسی و معاشی کیریئر کو زندہ رکھنے کے لیے کیا کیا اخلاقی اور قانونی حدیں پھلانگنی پڑتی ہیں اور کن مذہبی اقدار کو پامال کرنا پڑتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو پڑھانے کی بجائے محنت مزدوری پر لگا دیں۔ یقیناً یہ ایک بہت شرمناک کہانی ہے جس کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں۔ مرضی کی جگہ پر پوسٹنگ، ترقی اور معاشی مفادات کی اس اندھی دوڑ میں وہی سب سے آگے ہوتا ہے جو اپنی غیرت، عزت آبرو اور ضمیر بکائو مال کی طرح بیچ چوراہے پر رکھ دے۔ کئی بار انہیں اپنے گھر کی ناموس و عزت کو سیڑھی بنا کر اعلیٰ ترین عہدے داروں کی خوشنودی حاصل کرنے سے ہی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔اس جسمانی چندے کے علاوہ دیگر تحفے تحائف بھی لازمی ہوتے ہیں۔ اس راہ پر چلنے والوں کے حصّے میں ’کامرانی‘ سو فیصد یقینی ہوتی ہے۔
ہمارے یہاں مُلک کے تمام معتبر اور مقتدر اداروں کے عہدے داروں کو بدعنوان بنانے اور انھیں اپنی مرضی کی لاٹھی سے ہانکنے کے لیے چندہ کے نام پر رشوت دیئے جانے کے جتن کیے جاتے ہیں۔ یہ بدعنوانی اس حد تک سرایت ہو گئی ہے کہ ادارے تباہی کے دہانے پر آن کھڑے ہیں۔
ایم این ایز اور ایم پی ایز کی کمائی کا ایک بڑا ذریعہ پٹواری، تھانیدار، تحصیلدار اور اسی قبیل کے دوسرے لوگ ہوتے ہیں۔علاقے میں اپنی مرضی کا تھانیدار، پٹواری اور دیگر عہدے دار تعینات کروا کے بدلے میں اُن سے اپنے ناجائز کام کروائے جاتے ہیں۔ پٹواری بادشاہ کی بدولت پارلیمنٹیرین کے نام ہزاروں ایکڑ زمین منتقل ہوجاتی ہے۔ تھانے دار کو بھی علاقے کے ممبران اسمبلی اور اعلیٰ افسران کی غربت ختم کرنے کی خاطر سالانہ کروڑوں روپے کا ’چندہ‘ اکٹھا کر کے پہنچانا ہوتا ہے۔ اور لازمی طور پر چندے کی اس رقم کے ہدف کی حصول کی خاطر علاقے میں لوٹ مار کی وارداتوں کو بڑھا یا جاتا ہے اور بے گناہ لوگوں کو پکڑ دھکڑ اُن سے سے بھاری رشوتیں وصول کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پارلیمینٹرین حضرات لوگوں کے جائز ناجائز کام کروانے کے لیے بھی بھاری چندہ وصول کرتے ہیں۔ رقم کی وصولی کے لیے انہوں نے آگے درجنوں کارندے رکھے ہوتے ہیں۔کسی کو سرکاری ملازم بھرتی کروانا ہو، پوسٹنگ کروانی ہو، ترقی دلوانی ہو، علاقے میں سی این جی، پٹرول پمپ لگوانا ہو، میرج ہال کی منظوری کروانی ہو، کسی نے اپنی مخالف پارٹی کو پولیس کو ہاتھوں ذلیل کروانا ہو، زمینوں پر ناجائز قبضہ ہو، غرضیکہ اسی نوعیت کے بیسیوں کام ہیں جو پارٹی چندے کے نام پر رقم وصولی کے بغیر کروانے قطعاً ممکن نہیں۔ انھی پیسوں میں سے پھر معقول حصّہ پارٹی کے سربراہ کو بھی حصّہ پہنچ جاتا ہے۔
چونکہ پاکستان میں چندے کی رقم کے آڈٹ کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے۔ اس وجہ سے دہشت گردی کا ناسُور پھیلنے میں بھی اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ لوگوں کو یہ پتا تک نہیں ہوتا کہ وہ جس تنظیم یا ادارے کو چندہ دے رہے ہیں، وہ اسے کسی اچھے مصرف میں لائے گی بھی یا نہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں عوام سے ہی چندے کی رقم وصول کر کے اُنھی کے خلاف فرقہ وارانہ اور دہشت گردی کی کارروائیوں کو انجام دینے میں مصروف ہیں۔ ’اعلیٰ‘ درجے کے منشیات فروش، سمگلر اور دیگر مکروہ دھندوں سے وابستہ افراد بھی سیاست دانوں پر وقتاً فوقتاً چندوں کی بارش کرتے رہتے ہیں کیونکہ اس صورت میں ان کے کاروبار کو تحفظ مِل جاتا ہے وہ قانون، احتسابی اداروں کے خوف سے بے نیاز ہو کر اپنے دھندے کو جاری رکھتے ہیں۔  ’قرض اُتارو مُلک سنوارو‘ کے نام پر ہتھیایا گیا چندہ غریب حکمرانوں کی قسمت بدلنے میں بہت ممد و معاون ثابت ہوا۔ لوگ بھی بھول بھال گئے کہ اُن کی محنت کی کمائی سے دیئے گئے اس چندے سے کتنی فیکٹریاں لگیں اور بیرون ملک اکائونٹس میں کتنی رقم جمع ہوئی۔ہمارے مُلک کی عوام بہت بھولی ہے یہ بیچارے مُلک میں زلزلہ زدگان اور سیلاب کی آفت سے متاثر اپنے غریب ہم وطنوں کی مدد کے لیے چندے اورامداد کے پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں مگر یہ سب امداد اصل حقداروں تک پہنچنے کے بجائے اعلیٰ سطح کے تقسیم کاروں کی تجوریوں کی زینت بن جاتا ہے۔ اب تو بیرونی ممالک بھی پاکستان میں کسی آفت کے موقع پر امداد براہِ راست دینے سے کنّی کترانے لگے ہیں۔
ایک پارٹی کے سربراہ نے چندے کی بدولت  50سی سی سے رولس رائس تک کا سفر کامیابی سے طے کیا۔ ایک پُورے شہر کو بھتے کی کارروائیوں سے یرغمال بنائے رکھا۔ قومیت کو مظلومیت سے نکالنے کی آڑمیں تمام شہر پر خوف اور دہشت کا راج قائم کیا۔ قربانی کی کھالوں اور فطرہ کے نام پر سالانہ اربوں روپے زبردستی اور دھونس کا چندہ اکٹھا کیا جاتا رہا۔ اس کا اپنا کوئی ذریعہ آمدنی بھی نہیں تھا۔ مگر دُنیا بھر کی عیاشیاں اور مہنگی ترین سیکیورٹی اس کی خدمت کے لیے حاضر رہیں۔ دُشمن مُلک کا آلۂ کار بنا۔اس کے کارندے گن پوائنٹ پر چندہ وصول کرتے، جو نہ دیتا اسے نشانِ عبرت بنا دِیا جاتا۔ اس کا مُلک دُشمن چہرہ بہت دیر سے بے نقاب ہوا۔ مگر ابھی اور بہت سے ایسے سیاست دان ہیں جن کے چہروں سے یہ نقاب ہٹنے باقی ہیں۔ ابھی تو بہت سے راز سربستہ ہیں۔ بہت سے مغربی اور ہمسایہ ملکوں نے یہاں کے اہم عہدے داروں اور سیاست دانوں میں اپنی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ جس کے باعث ان مُلکوں کو یہاں کے ترقیاتی منصوبو ں میں آسانی سے ٹھیکہ مل جاتا ہے۔ ان دُشمن اور ’دوست‘ ممالک نے وطنِ عزیز کے وسائل اور اثاثے ہتھیانے کے لیے طویل المدتی پالیسیاں تشکیل دی ہوئی ہیں جو آہستہ آہستہ رنگ لا رہی ہیں۔ سیاست دان ، بیورو کریٹس ، ٹیکنو کریٹس اور مذہبی رہنما سب کے سب این جی اوز اور رفاہی اداروں کے نام پر بیرونِ ملک سے خطیر چندہ سمیٹ کر اُن کے مفادات کی تکمیل کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔یہ سب کام ان کی بیگمات، برخورداروں اور دُختران کے ذریعے سے انجام دیا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک ہونے والی تمام تر چندے کی چھان بین کے عمل میں تیزی لائی جائے۔ چندے کے نام پر ہونے والی بدعنوانیوں کے تدارک کے لیے مؤثر قانون سازی کی جائے جو  یقینا کرپشن اور اقربا پروری کی دلدل میں لتھڑے جمہوری اور پارلیمانی نظام میں ممکن نظر نہیں آتی۔ 


بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...