Friday, June 16, 2017

نواز شریف ۔۔.....تخت یا تختہ.........زہریلا سچ..................نوشاد حمید





برصغیر کی تاریخ خونی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس تاریخ کے چند خون آلود اوراق ہیں مغلوں کی تخت نشینی اور اقتدار کی خاطر اپنے ہی بھائیوں اور بیٹوں کو جان سے محروم کرنے سے ذرا بھی دریغ نہ کرنا۔ ہمایوں اپنے بھائیوں کی ریشہ دوانیوں سے اس قدرعاجز آ گیا کہ آخر اُس نے انھیں اندھا کر قید خانے میں ڈلوا دیا۔ اکبر اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا اس لیے یہ مسئلہ اُسے درپیش نہ ہوا۔ جہانگیر کے اپنے بیٹے خسرو نے اُس کے خلاف بغاوت کر دی تو اُسے اس کے سات سو ساتھیوں سمیت سرِ عام پھانسی پر لٹکا دیا۔ شاہجہان کو بھی تاج و تخت پر براجمان ہونے کے لیے اپنے بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے پڑے مگر اس کے آخری ایام بھی قطعاً خوشگوار نہ تھے۔ اورنگزیب نے اُستخت یا تختہے قیدکرا کے اپنے باقی بھائیوں کو ٹھکانے لگایا اور پھر تقریباً نصف صدی تک بادشاہت پر قابض رہا۔ مگر شکّی اتنا تھا کہ اپنے بیٹوں کو معاملاتِ حکومت میں شریک نہ کیا۔ سو یہ ہے برصغیر میں تاج و تخت کے حصول کی خونی تاریخ۔ اقتدار کی ہوس انسان کی تمام تر انسانیت اور اخلاقیات پر غالب آ جاتی ہے۔ اس وقت بھی اقتدار پر ایک مغل شہنشاہ غالب ہے، اس کی مطلق العنانیت کے آگے ’باغی‘ اپوزیشن پُوری طرح بے بس نظر آتی ہے۔ مگر پھر بھی اس کا سفینۂ اقتدار ذلت و رُسوائی کے گرداب سے نکلنے کا نام نہیں لے رہا۔ پاناما لیکس، ڈان لیکس، فوٹو لیکس، کوئی نہ کوئی سیاسی بحران اس کے اقتدار کے آڑے آ رہا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ شہنشاہی نظام میں خطرہ باغیوں سے نہیں، بلکہ اپنوں سے ہوتا ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں جنم لینے والی سازشیں ہی تاج و تخت سے محرومی کا باعث بنتی ہیں۔ بحرانوں میں ساتھ کھڑے ہونے والے ہی حقیقتاً بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ پاناما لیکس میں اثاثوں کی تفصیلات عمران خان یا آصف زرداری نے مہیا نہیں کیں، بلکہ اس کے ڈانڈے گھر کے بھیدی سے جا ملتے ہیں۔ اقتدار کی لڑائی میں سگے بھائیوں کو معاف نہیں کیا جاتا، اور جہاں سوتیلا پن آ جائے، وہاں کسی رُو رعایت کی توقع کرنا محض خام خیالی ہی ہو سکتی ہے۔ تھوڑا بہت دید لحاظ والدین کی موجودگی میں ہو سکتا ہے، مگر اُن کے دُنیا سے چلے جانے کے بعد سب کھُل کھیلتے ہیں۔
نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا۔ ایک بار پھر وہی ’مظلومیت‘ پر مبنی گھسا پٹا بیان دِیا جو پاناما لیکس پر اپنے دفاع میں پارلیمنٹ میں دیا تھا۔’ محنت ‘کی کمائی کو 1971ء میں قومیانے کا ذکر کیا۔ پیپلز پارٹی کے دور کے ’احتساب‘ اور پرویز مشرف کے ’استحصالی ہتھکنڈوں‘ کے بعد ’بے سروسامانی‘ کے عالم میں جدہ کی خود ساختہ جلاوطنی کی دُہائیاں دیں کہ اس کے بعد کسمپرسی کے عالم میں ایک ’چھوٹی‘ سی سٹیل مِل بنائی اور دُنیا کے دیگر ملکوں میں بھی جائیدادیں خریدیں۔ بزرگوں کی عزت و وقار اس حد تک ملحوظِ خاطر ہے کہ منی ٹریل کی تمام تر ذمہ داری مرحوم والد پر ڈال دی کہ وہی جانیں کس طرح سے ایک لوہا فیکٹری سے آگے درجنوں کاروبار کھُل گئے۔ ایک لطیفہ بڑا برمحل ہے کہ ایک سِکھ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ٹرین کے سفر کے دوران ایک مسافر سے اُلجھ پڑا۔ مسافر نے سِکھ کو تھپڑ مارا تو سِکھ کہنے لگا مجھے تو تُو نے مار لیا، اب میرے بچے کو ذرا مار کے دکھا۔ مسافر نے بچے کے بھی ایک تھپڑ جڑ دیا۔ اب کی بار سِکھ نے کہا کہ کوئی با ت نہیں بچہ تو بچہ ہے، تُو میری بیوی جو میری عزت ہے، اُس کو ذرا ہاتھ لگا کے دکھا۔ مسافر نے بیوی کو بھی تھپڑ رسید کر دیا۔ ساتھ بیٹھے دیگر مسافروںنے پوچھا کہ تُو نے خود تو بے شرمی سے مار کھائی اور ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی ذلیل کروا دیا۔ سِکھ کہنے لگا اگر میں اکیلا مار کھاتا تو یہ مجھے گھر جا کر بزدلی کے طعنے دیتے۔ اب انہیں بھی مار پڑی ہے تو یہ شرم کے مارے چُپ ہی رہیں گے۔ سونواز شریف ذلت و رسوائی کے اس سمندر میں اکیلا ڈوبنے کو تیار نہیں، وہ اپنے تمام خاندان والوں کو اس میں گھسیٹنا چاہ رہا ہے۔ مگر شہباز شریف جو کہ دو عشروں سے دِل میں وزیر اعظم کا منتہائے مقصود بسائے بیٹھا ہے، اب کی بار خاموش تماشائی کا کردار نبھا رہا ہے، بلکہ صرف تماشائی نہیں بلکہ تماشا لگانے میں اس کا کردار مرکزی ہے۔ ابھی آہستہ آہستہ بہت سے حقائق سے پردہ اُٹھنا باقی ہے۔ اقتدار کی لڑائی میں برادرانہ اُلفت کہیں پیچھے جا کھڑی ہوئی، اب تو صرف اپنی اپنی اولادوں کو تخت اسلام آباد اور تخت لاہور پر متمکن کروانے کی ہوس ِبے پناہ رہ گئی ہے۔
ارادہ تو نواز شریف کا ایک بار پھر عدلیہ اور جے آئی ٹی پر گلو بٹوں کے ذریعے دھاوا بولنے کا تھا۔ مگر حالات بدل گئے ہیں۔ شہباز شریف ماضی کی مانند احترامِ پدری میں کسی ناکام مہم جوئی کا حصّہ بننے کو تیار نہیں۔ اُسے اپنی اولاد کے لیے اقتدار کے کیک میں سے بڑا حصّہ چاہیے۔ پیمانۂ قناعت پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ تک محدود نہیں ہے۔ چھوٹے بھائی کی کوری ’نہ‘ کے باعث نواز شریف کی جوڈیشل اکیڈمی میں آمد کے موقع پر احتجاجی کارکن دستیاب نہ ہو سکے۔ کیونکہ 1990ء سے لے کر اب تک ہونے والے سارے احتجاج اور لانگ مارچ چاہے وہ پیپلز پارٹی کے خلاف ہوں، یا مشرف کے خلاف، یا پھر عمران خان کا مشہورِ زمانہ اسلام آباد والا دھرنا، ان سب کے پیچھے شہباز شریف کی ’مین پاور‘ یا اشیرباد شامل تھی۔ نواز شریف کے پاس جو چمچے کڑچھے ہیں، اُن کی کوئی حیثیت نہیں، وہ تو صرف بھونکنے والے شیر ہیں۔ اُن سے میڈیا پر جتنا مرضی بکوا لیا جائے، ’سٹریٹ پاور‘ اُن کے پاس نہیں ہے۔کچھ دِن پہلے تک تو یہ جوڈیشل اکیڈمی کے باہر ہزاروں بندہ اکٹھا کرنے کے لیے فون کھڑکا رہے تھے۔ احکامات جاری کیے جاری تھے۔ مگر نواز لیگی کیمپ میں سے کوئی بھی ایم این اے دس بندے اکٹھے کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پنجاب نواز لیگ کی تمام تر تخریبی کارروائیوں کی انجام دہی کے لیے بیس کیمپ کا درجہ رکھتا ہے۔ اور یہ بیس کیمپ چھوٹے میاں کے قبضے میں ہے۔ سب افسران بالا کی ڈوریاں شہباز شریف کے ہاتھ میں ہیں۔ تمام محکموں پر سارا اختیار شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا ہے۔ ان کے پاس بندے مار پولیس افسران ہیں۔ پٹواریوں کی پُوری فوج ظفر موج موجود ہے۔ ہزاروں گلو بٹ رقم کے صندوقوں کے منہ کھولنے پر ہر قسم کی تخریبی کارروائی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ جبکہ اس معاملے میں نواز شریف مجبورِ محض ہے۔ سو شہباز شریف ماضی کی تمام محرومیوں کا بدلہ لینے کے لیے کھُل کر سامنے آ گیا ہے۔ اُسے ہر قیمت پر حمزہ شہباز کو اگلا وزیر اعظم بنانا ہے۔ جس کے لیے اُس نے کئی سالوں سے ہوم ورک کیا تھا جو اب ثمر آور ثابت ہو رہا ہے۔ 1999ء میں پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد بھی شہباز شریف نے خود کو طیارہ سازش کیس سے بری کروانے کے لیے درپردہ مشرف کی ٹیم سے مذاکرات کیے۔ پلان یہی تھا کہ نواز شریف جدہ چلا جائے گا تو مشرف کی چھتر چھایا میں اقتدار کی چُوری میں شہباز شریف کو بھی خاطر خواہ حصّہ مِل جائے گا۔ مگر میاں شریف کی ڈانٹ ڈپٹ نے شہباز شریف کو آخری وقت میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ نہ پہنانے دیااور وہ بھی بادلِ نخواستہ جدہ منتقل ہو گیا۔
مگر اب کی بار نواز شریف بحران کے اس وقت میں اپنی مبینہ کرپشن کے کیسز میں اکیلا کھڑا ہے۔ نیب میںموجود حدیبیہ پیپر ملز کا کیس کا ڈراوا شہباز شریف کو راہِ راست پر لانے کی ایک ناکام کوشش معلوم ہوتی ہے۔ دونوں کی راہیں جُدا ہو چکی ہیں۔ میڈیا پر دونوں بھائیوں کی اکٹھے فوٹیج آنا شراکت داروں کی مشترکہ کاروباری مفادات کی مجبوری سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ شہباز شریف وقت کی نبض پہچان کر آگے بڑھ رہا ہے۔ اب کی بار وہ نواز شریف کے ہراول دستے کا سپہ سالار نہیں، بلکہ اُس کے مخالفین کی فوج کے عقب میں کھڑا تمام تر کارروائی کو کنٹرول کر رہا ہے کیونکہ اقتدار کی لڑائی میں کامیابی تمام  رشتوں، اخلاقیات اور ضابطوں کو پامال کر کے ہی حاصل ہوتی ہے۔

No comments:

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...