Thursday, September 21, 2023

کائنات کی ڈائیمنشن اور جنات کا نہ نظر انا

 *جـنـات نـظر کیوں نہیں آتے؟*


جنات اللہ کی مخلوق ہیں، یہ ہمارا یقین ہے کہ وہ آگ سے پیدا کیے گئے،

 ان میں شیاطین و نیک صفت بھی موجود ہیں،

 اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن یہ جنات کی سائینٹیفیک تشریح کے بارے میں ہے، کیا وہ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں؟ اور زیادہ اہم سوال یہ کہ ہم انہیں دیکھ کیوں نہیں سکتے؟ 


لفظ جن کا ماخذ ہے ‘‘نظر نہ آنے والی چیز’’ اور اسی سے جنت یا جنین جیسے الفاظ بھی وجود میں آئے، جنات آخر نظر کیوں نہیں آتے

اس کی دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں پہلی وجہ یہ کہ انسان کا ویژن بہت محدود ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جو الیکٹرو میگنیٹک سپکٹرم بنایا ہے اس کے تحت روشنی انیس اقسام کی ہے جس میں سے ہم صرف ایک قسم کی روشنی دیکھ سکتے ہیں جو سات رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے، آپ کو چند مشہور اقسام کی روشنیوں کے بارے میں مختصراً بتا دیتا ہوں تا کہ سمجھنے میں آسانی رہے۔


اگر آپ "Gamma-Vision"  میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو آپ کو دنیا میں موجود ریڈی ایشن نظر آنا شروع ہو جائے گا، ایسے ہی اگر آپ ایک مشہور روشنی "X-Ray Vision" میں دیکھنے کے قابل ہوں تو آپ کے لیے موٹی سے موٹی دیواروں کے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی اور اگر آپ "Infrared-Vision" میں دیکھنا شروع کر دیں تو آپ کو مختلف اجسام سے نکلنے والی حرارت نظر آئے گی، روشنی کی ایک اور قسم کو دیکھنے کی صلاحیت "Ultraviolet-Vision" کی ہو گی جو آپ کو انرجی دیکھنے کے قابل بنا دے گی، اس کے علاوہ "Microwave-Vision"  اور "Radio Wave-Vision" کل ملا کر انیس قسم کی روشنیوں میں دیکھنے کی صلاحیت سوپر پاور محسوس ہونے لگتی ہے۔


کائنات میں پائی جانی والی تمام چیزوں کو اگر ایک میٹر کے اندر سمو دیا جائے تو انسانی آنکھ صرف تین سو نینو میٹر کے اندر موجود چیزوں کو دیکھ پائے گی جس کا آسان الفاظ میں مطلب ہے کہ ہم کل کائنات کا صرف 0.0000003 فیصد حصہ ہی دیکھ سکتے ہیں، انسانی آنکھ کو دکھائی دینے والی روشنی "Visible Light"  کہلاتی ہے اور یہ الٹرا وائیلٹ اور انفراریڈ کے درمیان پایا جانے والا بہت چھوٹا سا حصہ ہے، ہماری ہی دنیا میں ایسی مخلوقات (جانور) ہیں جن کا Visual-Spectrum ہم سے مختلف ہے، سانپ وہ جانور ہے جو انفراریڈ میں دیکھ سکتا ہے، ایسے ہی شہد کی مکھی الٹراوائیلٹ میں دیکھ سکتی ہے، دنیا میں سب سے زیادہ رنگ مینٹس شرمپ کی آنکھ دیکھ سکتی ہے، الو کو رات کے گھپ اندھیرے میں بھی ویسے رنگ نظر آتے ہیں جیسے انسان کو دن میں، امیرکن کُک نامی پرندہ ایک ہی وقت میں 180 ڈگری کا منظر دیکھ سکتا ہے جبکہ گھریلو بکری 320 ڈگری تک کا ویو دیکھ سکتی ہے، درختوں میں پایا جانے والا گرگٹ ایک ہی وقت میں دو مختلف سمتوں میں دیکھ سکتا ہے جبکہ افریقہ میں پایا جانے والا prongs  نامی ہرن ایک صاف رات میں سیارہ Saturn کے دائیرے تک دیکھ سکتا ہے۔ 


اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کی دیکھنے کی حِس کس قدر محدود ہے اور وہ اکثر ان چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا جو جانور دیکھتے ہیں، ترمذی شریف کی حدیث کے مطابق  "نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم مرغ کی آواز سنو تو اس سے اللہ کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اسی وقت بولتا ہے جب وہ فرشتے کو دیکھتا ہے اور جب گدھے کی رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو کیوں کہ اس وقت وہ شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے"۔

جب میں نے مرغ کی آنکھ کی 


ساخت پر تحقیق کی تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مرغ کی آنکھ انسانی آنکھ سے دو باتوں میں بہت بہتر ہے، پہلی بات کہ جہاں انسانی آنکھ میں دو قسم کے light-receptors ہوتے ہیں وہاں مرغ کی آنکھ میں پانچ قسم کے لائیٹ ریسیپٹرز ہیں اور دوسری چیز fovea جو انتہائی تیزی سے گزر جانے والی کسی چیز کو پہچاننے میں آنکھ کی مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے مرغ آسانی سے ان چیزوں کو دیکھ سکتا ہے جو روشنی دیں اور انتہائی تیزی سے حرکت کریں اور اگر آپ گدھے کی آنکھ پر تحقیق کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ رنگوں کو پہچاننے میں گدھے کی آنکھ ہم سے بہتر نہیں ہے لیکن گدھے کی آنکھ میں rods کی ریشو کہیں زیادہ ہے اور اسی وجہ سے گدھا اندھیرے میں درختوں اور سائے کو پہچان لیتا ہے یعنی آسان الفاظ میں گدھے کی آنکھ میں اندھیرے میں اندھیرے کو پہچاننے کی صلاحیت ہم سے کہیں زیادہ ہے۔


البتہ انسان کی سننے کی حِس اس کی دیکھنے کی حس سے بہتر ہے اگرچہ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں پھر بھی کم ہے، مثال کے طور پہ نیولے نما جانور بجو کے سننے کی صلاحیت سب سے زیادہ یعنی سولہ ہرٹز سے لے کر پنتالیس ہزار ہرٹز تک ہے اور انسان کی اس سے تقریباً آدھی یعنی تیس ہرٹز سے لے کر بیس ہزار ہرٹز تک اور شاید اسی لیے جو لوگ جنات کے ساتھ ہوئے واقعات رپورٹ کرتے ہیں وہ دیکھنے کے بجائے سرگوشیوں کا زیادہ ذکر کرتے ہیں۔ ایک سرگوشی کی فریکوئینسی تقریباً 150 ہرٹز ہوتی ہے اور یہی وہ فریکوئینسی ہے، جس میں انسان کا اپنے ذہن پر کنٹرول ختم ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال ASMR تھیراپی ہے، جس میں 100 ہرٹز کی سرگوشیوں سے آپ کے ذہن کو ریلیکس کیا جاتا ہے۔


اس تحریر کے شروع میں جنات کو نہ دیکھ پانے کی دو ممکنہ وجوہات کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک تو میں نے بیان کر دی لیکن دوسری بیان کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹی سی تھیوری سمجھانا چاہتا ہوں کہ 1803ء میں ڈالٹن نامی سائنسدان نے ایک تھیوری پیش کی تھی کہ کسی مادے کی سب سے چھوٹی اور نہ نظر آنے والی کوئی اکائی ہو گی اور ڈالٹن نے اس اکائی کو ایٹم کا نام دیا، اس بات کے بعد 100 سال گزرے جب تھامسن نامی سائنسدان نے ایٹم کے گرد مزید چھوٹے ذرات کی نشاندہی کی جنہیں الیکٹرانز کا نام دیا گیا پھر 7 سال بعد ردرفورڈ نے ایٹم کے نیوکلیئس کا اندازہ لگایا، صرف 2 سال بعد بوہر نامی سائنسدان نے بتایا کہ الیکٹرانز ایٹم کے گرد گھومتے ہیں اور دس سال بعد 1926ء میں شورڈنگر نامی سائنسدان نے ایٹم کے اندر بھی مختلف اقسام کی اینرجی کے بادلوں کو دریافت کیا۔


جو چیز 218 سال پہلے ایک تھیوری تھی، آج وہ ایک حقیقت ہے اور آج ہم سب ایٹم کی ساخت سے واقف ہیں حالانکہ اسے دیکھ پانا آنکھ کے لیے آج بھی ممکن نہیں، ایسی ہی ایک تھیوری 1960ء میں پیش کی گئی جسے string theory کہتے ہیں، اس کی ڈیٹیلز بتانے سے پہلے ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ انسان کی حرکت آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، اوپر اور نیچے ہونا ممکن ہے جسے تین ڈائیمینشنز یا 3D کہتے ہیں، ہماری دنیا یا ہمارا عالم انہی تین ڈائیمینشز کے اندر قید ہے، ہم اس سے باہر نہیں نکل سکتے لیکن string theory کے مطابق مزید 11 ڈائیمینشنز موجود ہیں، اب ان گیارہ کی گیارہ ڈائیمینشنز میں ممکن ہو سکنے والی باتیں بتائی جائیں گی۔


اگر آپ پہلی ڈائیمینش میں ہیں تو آپ آگے اور پیچھے ہی حرکت کر سکیں گے، اگر آپ دوسری ڈائیمینشن میں داخل ہو جائیں تو آپ آگے پیچھے اور دائیں بائیں حرکت کر سکیں گے، تیسری ڈائیمینشن میں آپ آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے ہر طرف حرکت کر سکیں گے اور یہی ہماری حقیقت یا جسے ہم اپنا عالم کہتے ہیں۔


اگر آپ کسی طرح سے چوتھی ڈائیمینشن میں داخل ہو جائیں تو آپ وقت میں بھی حرکت کر سکیں گے، پانچویں ڈائیمینشن میں داخل ہونے پر آپ اس عالم سے نکل کر کسی دوسرے عالم میں داخل ہونے کے قابل ہو جائیں گے جیسا کہ عالم ارواح، چھٹی ڈائیمینشن میں آپ دو یا دو سے زیادہ عالموں میں حرکت کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور میرے ذہن میں عالم اسباب کے ساتھ عالم ارواح اور عالم برزخ کا نام آتا ہے، ساتویں ڈائیمینشن آپ کو اس قابل بنا دے گی کہ اس عالم میں بھی جا سکیں گے جو کائنات کی تخلیق سے پہلے یعنی بِگ بینگ سے پہلے کا تھا، آٹھویں ڈائیمینشن آپ کو تخلیق سے پہلے کے بھی مختلف عالموں میں لیجانے کے قابل ہو گی، نویں ڈائیمینشن ایسے عالموں کا سیٹ ہو گا جن میں سے ہر عالم میں فزیکس کے قوانین ایک دوسرے سے مکمل مختلف ہوں گے، ممکن ہے کہ وہاں کا ایک دن ہمارے پچاس ہزار سال کے برابر ہو اور آخری اور دسویں ڈائیمینشن اس میں آپ جو بھی تصور کر سکتے ہیں، جو بھی سوچ سکتے ہیں اور جو بھی آپ کے خیال میں گزر سکتا ہے، اس ڈائیمینشن میں وہ سب کچھ ممکن ہو گا اور ذاتی رائے کے مطابق جنت شاید اس ڈائیمینشن سے بھی ایک درجہ آگے کی جگہ ہے کیوں کہ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ جنت میں میرے بندے کو وہ کچھ میسر ہو گا جس کے بارے میں نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کان نے اس کے بارے میں سنا اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا خیال گزرا اور دوسری جگہ یہ بھی آتا ہے کہ میرا بندہ وہاں جس چیز کی بھی خواہش کرے گا وہ اس کے سامنے آ موجود ہو گی۔


بالیقین جنات ہم سے اوپر کی ڈائیمینشن کے ہیں اور یہ وہ دوسری سائینٹیفیک وجہ ہے جس کی بناء پر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے، ان دس ڈائیمینشنز کے بارے میں جاننے کے بعد آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جنات کے بارے میں قرآن ہمیں ایسا کیوں کہتا ہے کہ وہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے یا پھر عفریت اتنی تیزی سے سفر کیسے کر سکتے ہیں جیسے سورۃ سباء میں ذکر ہے کہ ایک عفریت نے حضرت سلیمانؑ کے سامنے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا دعویٰ کیا تھا یا پھر کشش ثقل کا ان پر اثر کیوں نہیں ہوتا  اور وہ اڑتے پھرتے ہیں یا پھر کئی دوسرے سوالات جیسے عالم برزخ، جہاں روحیں جاتی ہیں یا عالم ارواح جہاں تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح سے عہد لیا تھا کہ تم کسی اور کی عبادت نہیں کرو گے اور سب نے ہوش میں اقرار کیا تھا یا قیامت کے روز دن کیسے مختلف ہو گا یا شہداء کی زندگی کس عالم میں ممکن ہے، ان تمام عالموں یعنی عالم برزخ، عالم ارواح یا عالم جنات کے بارے میں تحقیقی طور پر سوچنا ایک بات ہے لیکن جس چیز نے ذاتی طور پر دل کو چھوا وہ سورۃ فاتحۃ کی ابتدائی آیت ہے۔


الحمدُ للہ رب العالمین، تمام تعریفیں اس اللہ کی، جو تمام عالموں کا رب ہے" اور *‘‘تمام عالم’’* کے الفاظ کا جو اثر ہم اپنے دل پر محسوس کرتے ہیں، وہ پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا....


بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...