Thursday, May 4, 2017

سوداگر.....,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,.......نوشاد حمید,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, زہریلا سچ





چند روز قبل تحریک انصاف کے بانی قائد عمران خان کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ نواز شریف نے اُنہیں پاناما لیکس کے
معاملے سے پیچھے ہٹنے کے لیے دس ارب روپے کی آفر ایک شخصیت کے ذریعے کی تھی۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے عمران خان کے اس بیان کو آڑے ہاتھوں لیا گیا اور اُنہیں حسب سابق ’الزام خان‘ اور ’جھوٹا‘ کے القابات سے نواز ا گیا۔ اس پر عمران خان نے مزید بیان داغا کہ اُنہیں یہ آفر لاہور میں مقیم ایک شخصیت کے ذریعے کی گئی اور اگر معاملہ عدالت میں گیا تو وہ اس معاملے پر مزید لب کشائی کے لیے تیار ہیں۔ کیونکہ بصورتِ دیگر اس شخصیت کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد سے حکومتی حلقوں کی جانب سے ایک پُراسرار خاموشی سادھ لی گئی ہے۔ عمران خان ٹھیک کہہ رہا ہے یا غلط، اس بات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ لیکن ماضی کے قرائن و شواہد کے پلڑے میں اس کے الزام کی صداقت خاصی وزنی معلوم ہوتی ہے۔ نواز شریف کا تمام سیاسی کیریئر سودے بازیوں اور ضمیروں کی خرید سے اٹا پڑا ہے۔ مارشل لاء کے دور میں پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی کو پتا نہیں گوالمنڈی کے ایک گول مٹول سفید چہرے والے نوجوان کی کونسی ادا بھا گئی، جانے اُس کی شخصیت میں کونسا ایسا نابغۂ عصر نظر آ گیا کہ سیدھا اُسے پنجاب کے وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز کر کے پاکستان کی کئی نسلوں کو دہائیوں پر محیط غلامی کی دلدل میں دھکیل دِیا۔اپنے والد کی لوہافیکٹریوں سے مال اُتروانے والا کروڑوں لوگوں کے مقدر ہتھیا کر اُن کے مال و زر کا مالک بنا بیٹھا ہے۔ اپنے سیاسی مربیّ جنرل ضیاء الحق اور پھر محمد خان جونیجوکی پے در پے اموات نے اسے ایک تیار بر تیار پکی پکائی مسلم لیگ کا وارث بنا دیا۔ اس وارث نے مسلم لیگ کی صدارت ہتھیانے کے لیے جونیجو کی رسمِ قُل کے ختم ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا۔
1988ء کے انتخابات میں سوداگر کو ابھی مال بیچنے کا سلیقہ پُوری طرح نہیں آیا تھا، اس لیے اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ مالی اور انتظامی حمایت کے باوجود حکومت بنانے میں کامیابی حاصل نہ ہوئی، مگر یہی دور سوداگر کو خریداری کا سلیقہ سکھانے میں بڑا معاون ثابت ہوا اور بالآخر پُوری تیاری کے ساتھ اپنے دائو پیچ کھیل کر 1990ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوا اور انتخابی عمل میں کامیابی کے ضامن بزرجمہروں کو ساتھ مِلا کر اقتدار کے ایوانوں میں جا پہنچا۔ جہاں کچھ کمی نظر آئی وہاں آٹے کے تھیلوںاور گھی کے ڈبوں کے ٹرک کے ٹرک اُنڈیل کر’عوامی رائے عامہ‘ کو اپنے حق میں ہموار کیا۔ یہی تو جمہوریت کا حُسن ہے کہ جہاں افلاس کا راج ہو، جہاں غربت کی طوائف جگہ جگہ ناچتی ہو، جہاں مجبوریاں ہاتھ پھیلائے اناج کے چند دانوں کی سوالی ہوں وہاں سیاسی سوداگروں کا کاروبار خوب چمکتا ہے۔ سو اقتدار کا تاج اپنے سر پر سجا لیا مگر مزاج کی رعونت حکومت کی مُدت پُوری کرنے کے آڑے آئی۔ مُلکی اداروں اور صدر مملکت سے براہِ راست محاذ آرائی اقتدار کا دورانیہ قلیل کرنے کا باعث بنی۔ اگرچہ کہ عدالت سے اپنی حکومت کی برطرفی کا صدارتی فیصلہ غلط ثابت کروا کے حکومت بحال کروالی۔ دُنیا حیران بھی ہوئی کہ بے نظیر بھٹو 1990ء میں اپنی حکومت کی برطرفی کو چیلنج کرنے عدالت گئی مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، جبکہ عزت مآب نواز شریف کو انہی نوعیت کے الزامات میں عدالت نے سُرخرو کر دیا۔ وہ الگ بات کہ انتہا کو پہنچی کشیدگی اور محاذ آرائی کے باعث بات نہ بن سکی اور انتخابات ہو کر ہی رہے۔ ان کے پہلے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں بس ایک موٹر وے بنی اور دوسری پیلی ٹیکسیاں سڑکوں پر دوڑنے لگیں۔ یہ دونوں منصوبے کرپشن کی خوفناک حدوں کو پار کر گئے تھے۔کِک بیکس اور کمیشن کے ذریعے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا گیا۔
1993ء میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی۔ سوداگر کے کاروبار سے اقتدار کی راس نکل گئی تو خاصی مندی آ گئی۔ جس کے ازالے کے لیے پھر سے شطرنج کی بساط بچھا دی گئی۔ اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز افراد کی بولیاں لگنے لگیں۔ بے نظیر کی کردار کشی اور اسے سیکیورٹی رسک قرار دینے کے لیے صحافت کے پیشے سے جُڑے معززین کی نیلامیاں کی گئیں۔ لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے اور تخریبی و شر انگیز کارروائیوں کے لیے غنڈہ عناصر پر خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے۔ کہاں کہاں پر ’رسائی‘ نہ کی گئی۔ اور پھر دُنیا گواہ بنی کہ بے نظیر کی حکومت کو اُس کے اپنے ہی صدر نے رخصت کر دیا۔ سوداگر کامیاب و کامران ٹھہرا۔
1997ء کا سال سوداگر کے سیاسی کیریئر کے عروج کا سال تھا۔ ایک تہائی اکثریت کا زعم ، پھر مزاج حد درجہ آمرانہ، کس کا دِل خود کو امیر المومنین کہلوا کر ’مطلق مختار‘ بننے کو نہیں چاہے گا۔ سپریم کورٹ آڑے آئی تو پتا نہیں سوداگر کی شخصیت کی کونسی ’چمک‘ تھی کہ اقتدارِ شریفیہ کو للکارنے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس کے اپنے ہی ساتھی ججوں نے جبراً رخصت کر دیا۔ مرزا یار اقتدار کی سُنجی گلیوں میں اکیلا ہی مزے سے پھرنے لگا۔ مگر اقتدار کی ہوس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ اپنے محسن فاروق لغاری کو بھی چلتا کیا۔ افسر شاہی کی تذلیل و توہین کے بغیر ناشتہ ہضم نہ ہوتا۔ جنرل جہانگیر کرامت کے ایک معمولی سے بیان کو بنیاد بنا کر آرمی چیف کے عہدے سے فارغ کیا۔ واسطہ پرویز مشرف سے پڑا۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ طیارہ سازش کیس میں دھر لیا گیا۔ دو تہائی اکثریت کی خماری راس نہیں آئی تھی۔ سو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ یہاں پھرسوداگروں والی ڈیل کام آئی اور جدہ پہنچ گیا۔ مقدس دھرتی پر ایمان کی برکتیں بھی سمیٹیں اور کاروبار کو بھی رفعتوں سے ہمکنار کیا۔ مگر یہاں سودے بازی اور چھانگا مانگا کی سیاست کے سواد سے محرومی سوہانِ رُوح بن گئی۔ عوامی ٹیکسوں سے کی جانے والی عیاشی کی سنہری یادوں نے آنسوئوں کی جھڑی لگا دی، مگر کیا کرتا کہ سیاست کی منڈی میں خرید و فروخت پر نئے آڑھتی اور سوداگر قابض ہو چکے تھے۔
والد محترم میاں شریف جدہ میں قیام کے دوران وفات پا گئے۔ پرویز مشرف نے انسانی ہمدردی کی بناء پر تمام دُشمنی بالائے طاق رکھ کر ایک مؤقرروزنامے کی مالک مشہور صحافتی شخصیت کے ذریعے سوداگر کو پیغام بھجوایا کہ باپ کو دفنانے کی خاطر چند روز کے لیے پاکستان آ سکتے ہو۔ سوداگر نے سوچا، مرحوم باپ سے اب کیا فائدہ مِل سکتا ہے۔ اگر پاکستان میں آخری رسومات میں شرکت کی تو مشرف کے سیاسی قد کاٹھ اور وقار میں اضافہ ہو گا اور جرنیل کو بدنام کرنے کا یہ موقع کہاں ہاتھ لگے گا کہ اس نے مرحوم باپ کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے بیٹوںکو پاکستان بھی نہیں آنے دِیا۔ سو سیاسی منفعت ، اُلفتِ پِسری پر غالب آ گئی۔ والد مرحوم کی وفات سیاسی و عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کا بہترین سودا ثابت ہوئی۔
وکلاء تحریک مشرف کے اقتدار کو زوال کی گھاٹی میں دھکیلنے پر گامزن ہوئی۔ معاملہ چونکہ دُشمنِ اول سے بدلہ چکانے کا تھا سو تحریک میں جان ڈالنے کے لیے میڈیا اور وکلاء لیڈروں کے لیے بوریوں کے منہ کھُل گئے۔ سول سوسائٹی اور وکیلوں کی قربانیوں اور عزم کے صدقے مشرف کو ہزیمت کا راستہ دیکھنا پڑا۔ 2008ء کے الیکشنز میں برسراقتدار آنے کی پُوری ’تیاری‘ ہو چکی تھی مگر بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت نے عوامی ہمدردیوں کا رُخ پیپلز پارٹی کی جانب موڑ دیا اور سوداگر کو پنجاب کی حکومت سازی پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ کئی بار حکومت کے خلاف تحریک کھڑی کرنے کو دل چاہتا مگر فوجی طالع آزمائوں کے ڈر سے پانچ سال صبر کے کڑوے گھونٹ بادلِ نخواستہ پینے ہی پڑے۔ اس دوران عوامی افلاس و عزلت کی قیمت شناسی میں مہارت اپنے درجہ کمال کو پہنچ گئی۔ میٹرو بس، لیپ ٹاپس ، وظیفے اور بیسیوں ترغیبات و تحریصات کے جال میں عوام کو پھنسا لیا گیا۔ سابقہ حکومت کی نااہلی ان کے لیے باعثِ برکت ثابت ہو گئی۔آر او الیکشنز کے نتیجے میں اقتدار میں آتے ہی وہی پُرانے وتیرہ، وہی فرعونی رعونت، وہی ضمیروں کی خرید و فروخت کا بازار کھُل گیا۔ اپنی مطلق العنانیت کا اظہار مقصود تھا سو ماڈل ٹائون میں کھُلے عام میڈیا کی آنکھوں کے سامنے نہتے مردوں بیبیوں کے سروں میں گولیاں ماری گئیں۔ وارثوں کے شور مچانے پر پہلے تو انہیں دھونس دھمکی سے خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ بات نہ بنی تو بھاری دیت کی آفر کے ذریعے خود کو بری الذمہ کرانے اور لواحقین کو خریدنے کے جتن شروع ہو گئے۔ میگا پراجیکٹس کی آڑ میں اربوں روپے ہتھیانے کی گھنائونی کرتوتوں کا ایک بار پھر سے آغاز ہو گیا۔ میڈیا نے شور مچایا تو سرکاری اشتہارات کی بھرمار کے ذریعے قابو کر لیا گیا ۔ کوئی کسر رہ گئی تو اینکرز کو اپنے راستے پر لانے کے لیے انہیں سرکاری عہدوں پر کھپایا گیا۔ ابصار عالم چیئرمین پیمرا، افتخار احمد سی ڈی اے اور نجم سیٹھی پی سی بی میں پہنچ گئے۔ باقی ماندہ کو لفافے باقاعدگی سے جاتے ہیں۔ ڈھٹائی کا عالم تو یہ ہے کہ پنجاب کے عوام کے پیسوں میں سے ڈھائی کروڑ روپے کی خطیر رقم سندھ کے صحافیوں کی رپورٹنگ اور تجزیوں پر اثر انداز ہونے کی خاطر شہباز شریف کی جانب سے کراچی پریس کلب کو ’ہدیہ‘ کی گئی۔
پاناما لیکس کا ہنگامہ شروع ہوا ۔ تو سوداگر نے وہ کر دکھایا جس کی کوئی توقع نہیں کر سکتا۔ اپنی تمام تر دو نمبر کمائی کی منی ٹریل ثابت کرنے میں ناکامی پر تمام کرپشن کا ملبہ والد مرحوم پر ڈال دیا۔ بیٹے والدین کی عزت و آبرو پر قربان ہو جاتے ہیں اور یہاں مرحوم والد کی ساکھ اور ناموس کو اپنی سیاسی بقاء کی سُولی پر چڑھا دیا گیا۔ الیکشن قریب آتے ہی اپنے ان ’بھائیوں‘ کی تشفی کی خاطر نوکریوں پر سے پابندی ہٹا لی گئی ہے۔ عوام کی نظروں میں کھوئی ہوئی ساکھ کی بحالی اور عنقریب الیکشنز میں کامیابی کی خاطر دھڑا دھڑ گیس کنکشنز، بجلی کنکشنر، نوکریوں اور قرضوں کے ذریعے عوام مینڈیٹ کو خریدنے کے جتن اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ ترقیاتی فنڈز کو عوام کو رشوت کی خاطر دھڑا دھڑ استعمال کیا جا رہا ہے۔ جن ایم پی ایز اور ایم این ایز کو برسوں شرفِ دیدار بخشنا پسند نہیں کرتے، انہیں کوٹے پر کوٹے جاری کیے جا رہے ہیں۔ مگر عوام بہلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ سوشل میڈیا پر عوامی نفرت اور بیزاری کے ہزاروں لاکھوں پوسٹس ان کے بھاری مینڈیٹ کی قلعی کھول چکے ہیں۔ لوگ پریشان ہیں کہ ووٹ کسی اور کو پڑتا ہے اور جیت ہمیشہ یہ کیوں جاتے ہیں؟ جب بھی شریفوں پر بُرا وقت آتا ہے تو دُشمن مُلک کی جانب سے سرحدوں پر فوجی جارحیت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاناما کیس کے فیصلہ کُن موڑ پر بھی پڑوسی دُشمن مُلک کا جندال ان سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔ جانے اب کیا تیاریاں چل رہی ہیں، خدا ہی جانے۔
شاید یہ قومجان لیتی کہ ہزاروں سال پہلے ہی افلاطون نے کہہ دِیا تھا کہ کسی تاجر کو اعلیٰ حکومتی عہدے پر فائز کرنا ریاست کی بربادی کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ تاجر صرف اپنے نجی مفاد کو ہی بالاتر رکھتا ہے۔ اُس کے اندر جرأت مندانہ فیصلے لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ کسی جنگی کیفیت میں اپنے وہ دُشمن کے آگے فوراً گھٹنے ٹیک دیتا ہے (کارگل کی طرح)۔ آج پُورا مُلک شریف خاندان کا ایک بیگار کیمپ بن چُکا ہے۔ وہ بیگار کیمپ جہاں کے کرتا دھرتا عوام کو بس اتنی روٹی دیتے ہیں کہ وہ اپنے مالکوں کے لیے زیادہ سے زیادہ پیداوار اور دولت اکٹھی کریں، مریں نہ مگر مُردوں جیسے ہوں۔ تن اور جان کا بس برائے نام رشتہ ہو۔ سوداگر جانتا ہے کہ ہر صورت میں مُلک میں غربت، ننگ اور افلاس کو زندہ رکھنا ہے۔ کیونکہ غربت کے ہاتھوں بلکتی روحیں ہی ان کے آگے سوالی بن کر کھڑی ہوتی ہیں، انہی پھیلے ہاتھوں کی  فراوانی ہی ان کے اقتدار کو قائم و دائم رکھنے کی کنجی ہے۔ 


No comments:

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...