Sunday, September 26, 2021

خود نوشت۔۔ عجیب داستان کا ایک باب

 میری زندگی میں جن شخصیات نے بہت اہم کردار اداکیا ہےــ- میرے دوست میرے بھائی اور بانکے سجیلے شاعر سید محسن نقوی شہید اِن میں سرفہرست ہیں۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ان کے ساتھ بیس برس کی رفاقت کو کسی ایک مضمون میں سمیٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ان سے پہلے ملاقات 1973 میں مری کے انٹرنیشنل مشاعرے میں ہوئی جس میں بیرونِ ملک سے بھی کافی شعراء آئے ہوئے تھے۔ یہ مشاعرہ مری انتظامیہ نے ترتیب دیا تھا اور بصیر قریشی ایڈوکیٹ نے جو بعدازاں بڑے اہم عہدوں پر رہے اس کا اہتمام کیا تھا۔ میں ان دنوں لطیف کاشمیری کی لائبریری میں ہونے والے مری لٹریری سرکل کے مشاعروں میں بہت فعال تھا اور جدید طرز کی غزلیں لکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ خیر اس مشاعرے میں اپنی غزل پڑھ کر میں واپس آ رہا تھا کہ محسن نے ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ مشاعرے کے بعد ان کے ہوٹل کے کمرے میں چلے گئے اور تفصیلی تعارف ہوا۔ وہ ڈیرہ غازی خان کے رہنے والے تھے اور شاعری کے علاوہ ذاکری بھی کرتے تھے۔ بطور ذاکر ان کی بہت مانگ تھی۔ اس کے علاوہ وہ ایک بڑے صنعت کار بھی تھے۔ ان کی کاٹن جننگ فیکٹریاں تھیں۔

پھر ایک طویل وقفے کے بعد جب اگست 1976 میں لاہور آگیا تو ان سے ملنے ان کی رہائش نجف ریزہ 192 نشتر بلاک پہنچا۔ یہاں سے ایسا رشتہ ان سے استوار ہوا جو ان کی شہادت تک قائم رہا اور آج تک ہے۔

یادوں کا ایک سیلِ رواں ہے جو محسن نقوی کا نام لیتے ہی ذہن میں اُمڈ آتا ہے۔ 1977 میں ماورا کا دفتر میں 3 بہاولپور روڈ پر قائم کرچکا تھا۔ اہم شعراء کی کتب شائع ہو رہی تھیں کیا دفتر انکم ٹیکس کیا دفتر ماورا میں یہی کام کرتا تھا۔ ایسے میں محسن نقوی نے مجھے اپنے دوسرے شعری مجموعے برگِ صحرا کی اشاعت کا چیلنج دے دیا۔ چیلنج کا لفظ ہر مسودے کے ساتھ ان کا مخصوص لفظ تھا۔ خالد تمہیں چیلنج ہے یہ کتاب پہلے سے بہتر ہونی چاہیے۔ برگِ صحرا سے پہلے ان کا ایک شعری مجموعہ بندقبا کے نام سے ملتان سے شائع ہوچکا تھا مگر وہ اس کے معیارِ اشاعت سے مطمئن نہیں تھے۔

راولپنڈی میں ہماری کتابیں جنگ پریس گوال منڈی اور خورشید پرنٹرز اسلام آباد سے چھپتی تھیں۔ لاہور آیا تو غالباً سلطان رشک نے مجھے محمد طفیل نقوش صاحب سے متعارف کرا دیا اور میں نے ان سے کتابیں چھپوانا شروع کردیں۔ وہ اس نوعیت کا کام بہت کم کرتے تھے کیونکہ ان کے پاس پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اور رسالہ نقوش کے خاص و عام نمبروں کی اشاعت کا کافی رش ہوتا تھا۔ بہرحال مجھ پر محمد طفیل خصوصی شفقت فرماتے تھے سو برگِ صحرا کو نقوش پریس سے چھپوانے کا فیصلہ ہوا۔ کتابت کے لئے محمد حسین (شاہ) صاحب کا انتخاب ہوا۔ محمد حسین صاحب کو (شاہ) کا نام قاسمی صاحب نے ازراہ محبت دے رکھا تھا اور وہ اسے کتابوں کی پرنٹ لائن میں اسی طرح لکھتے تھے۔ محمد طفیل اور قاسمی صاحب کی تربیت کے باعث شاعری کی کتابت میں محمد حسین (شاہ) حرفِ آخر بن چکے تھے۔ فنون وہ کتابت کرتے تھے۔ پروین شاکر کی خوشبو احمد فراز کی درد آشوب کے پہلے ایڈیشن ان کے کتابت کردہ ہیں۔

برگِ صحرا کے سرورق کے لئے موجد صاحب سے رابطہ کیا گیا۔ میری خواہش تھی کہ کتاب کے اندرونی صفحات پر بھی کوئی ہلکا پھلکا ڈیزائن ہو۔ اسلم کمال سے بات ہوئی تو اس نے تین پتّوں پر مشتمل ایک ڈیزائن بنا دیا۔ دو پتّے سبز اور ایک زرد۔ یہ برگِ صحرا تھا۔

بشیر موجد صاحب نے بھی بہت خوبصورت سرورق بنایا۔ گراؤنڈ کا رنگ زرد تھا۔ اسے ہم نے ایمبوسڈ ایگ شیل 100 گرام آرٹ پیپر پر موجد صاحب کے پریس سے ہی چھپوایا۔ زردرنگ اور دانے دار کاغذ کی وجہ سے لگتا تھا کہ ریت بکھری ہوئی ہے۔ لیکن ابھی جلد سازی کا مرحلہ طے نہیں ہوا تھا۔ محسن اس کی بہت سپیشل جلد چاہتے تھے اور میں بھی۔ روٹین کے جلد ساز بہت تھے مگر ہم روٹین سے ہٹ کر کام کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں کسی نے ایک استاد جلد ساز کا نام بتایا لیکن ساتھ ہی کہا کہ وہ بڑے نخریلے بزرگ ہیں۔ صرف قرآن پاک کی جلد کرتے ہیں لیکن ان کا کام ایسا ہے کہ بندہ دیکھتا رہ جائے۔ میں نے نام اور پتہ لے لیا۔

اگلے روز انکم ٹیکس کا نوٹس ان کی دکان پر پہنچ گیا۔ وہ بزرگ ہانپتے کانپتے آئے۔ میں نے اندر بلا کر بٹھایا تسلّی دی۔ کہا نوٹس ہم واپس لے لیں گے۔ آپ یہ چھوٹا سا کام کر دیجئے۔ رقم آپ کو آپ کے حسبِ منشا ملے گی۔ انہوں نے حامی بھرلی اور واقعی برگِ صحرا کو تصویر بنا دیا۔

اس طرح کی کتابیں شاذ و نادر ہی چھپتی ہیں۔ اس کتاب کو نیشنل بک کونسل آف پاکستان نے سال رواں کی بہترین شائع شدہ کتاب کا ایوارڈ اور نقد انعام دیا۔ اس کے بعد محسن نقوی کی کتب مناسب وقفوں کے ساتھ شائع ہوتی رہیں۔

٭       ریزۂ حرف         1985

٭       عذابِ دید         1990

٭       طلوعِ اشک         1992

٭       رختِ شب         1994

٭       ردائے خواب         (مع غیرمطبوعہ قطعات)

٭       فراتِ فکر

ان کے ایک دوست رانا ریاض احمد بہت محبت سے منفرد انداز کے سرورق بناتے تھے۔ ہم نشتر بلاک ان کے گھر محافل میں شریک ہوتے۔ وہ ہمارے گھر کے فرد بن چکے تھے۔

جب ماورا کا دفتر مال روڈ پر منتقل ہوا تو اکثر ان کی شامیں ماورا پر گزرتیں۔ پانچ چھ بجے آجاتے اور ہم آٹھ نو بجے دفتر اور دکان بند کرنے کے بعد پی سی ہوٹل کی طرف نکلتے۔ وہاں سے واپسی کے راستے میں لبرٹی سے ہلکے چونے والے پان لئے جاتے پھر مجھے رچنا بلاک ڈراپ کرتے ہوئے وہ گھر چلے جاتے۔ میری بیوی کو دیوی بھابی کہتے۔ ایک بار عدنان نے چھ سال کی عمر میں انہیں کوئی ٹوٹا پھوٹا شعر سنایا تو کہنے لگے یار تم ہماری روزی پر کیوں لات مار رہے ہو۔

اکثر لوگوں کا تاثر یہ ہے کہ محسن نقوی بہت شراب پیتے تھے۔ شاید یہ تاثر ان کی مخمور آنکھوں کی وجہ سے قائم ہوا ہو۔ میں چونکہ ان کے بہت قریب رہا ہوں اس لئے پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ شراب نہیں پیتے تھے۔ میں نے کبھی ان کے گھر میں ام الخبائث کو نہیں دیکھا۔ البتہ بطور ذاکر اور شاعر ان کے عقیدت مندوں میں خواتین کی کثیر تعداد شامل تھی جن میں فلم کی کئی معروف اداکارائیں بھی تھیں۔

اکثر نئی کتاب شائع ہوتی تو اس کی پہلی رونمائی شوکت حسین رضوی کے گھر کرتے۔ ان کی بیگم زینت اہتمام کرتیں۔ قتیل صاحب کے ہاں بھی اکثر ہم اکٹھے جاتے۔ ہماری دوستی کے درمیان کبھی مسلک آڑے نہیں آیا۔ گیارہ محرم کی نیاز میں جب سینکڑوں ذاکر ان کے ہاں جمع ہوتے مجھے ہاتھ پکڑ کر اندر لے جاتے اور کہتے ’’ایہہ میرا سکّا بھرا اے‘‘ کبھی رائلٹی کا تقاضہ نہیں کیا۔ میں جو نذر کردیتا خاموشی سے رکھ لیتے اور دوستوں پر ہی خرچ کردیتے۔ ایک بار ڈیرہ غازی خان کے پتے پر چیک بھیجا تو جواباً خط آیا۔ خالد تمہارا بھیجا ہوا چیک والدہ کی خدمت میں پیش کردیا ہے۔ وہ تمہیں نماز پڑھ کر دعا دے رہی ہیں۔

ان کی کتاب طلوع اشک کے آخر میں ان کی نظم ’’خالد شریف کے لیے ایک ادھوری نظم‘‘ میری زندگی کا سرمایہ اور ان کی قادرالکلامی کا ثبوت ہے۔ ان کی ایک کتاب کی رونمائی کے لئے بے نظیر بھٹو بطور خاص تشریف لائیں اور کسی بھی کام کا پوچھا۔ انہوں نے بس شکریہ ادا کردیا۔

انہوں نے مون مارکیٹ میں کِساانٹرپرائز کے نام سے دفتر بنا لیا تھا۔ وہاں اکثر دوستوں کی محفل جمتی تھی۔ ایک روز میں گیا تو فون بار بار بجتا رہا اور وہ اٹھانا نہیں چاہ رہے تھے۔ کافی دیر کے بعد بالآخر اٹھا لیا اور کہا آپ فکر نہ کریں یہ کام میرے بس کا نہیں۔ آپ ہی وہاں رہیں گے۔ میں نہیں آ رہا۔ اطمینان رکھیں۔

میں نے کہا محسن بھائی یہ کیا ماجرا ہے۔ بولے اسلام آباد سے اکادمی ادبیات کے فلاں صاحب بار بار فون کررہے تھے۔ انہیں کسی نے خبر دی کہ مجھے چیرمین لگا دیا گیا ہے۔ تم جانتے ہو میں بھلا 9 سے 5 کی ڈیوٹی کبھی کرسکتا ہوں؟ فاروق لغاری ان کے دوست تھے اور ایسی کوئی بھی پوزیشن حاصل کرنا ان کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا لیکن وہ اس مٹی کے بنے ہوئے ہی نہیں تھے۔

ایک بار میری بیگم کسی بات پر رنجیدہ ہوکر میکے چلی گئیں۔ انہیں علم ہوا تو کہا غلطی تمہاری ہے۔ اگلے روز ایک اسٹامپ پیپر لے آئے۔ کہا کہ گھر بھابی کے نام گفٹ لکھ دو۔ ان کی سیکورٹی ضروری ہے ہماری تو حرکتیں ایسی ہی رہیں گی۔ یہ کاغذ آج تک ہمارے پاس محفوظ ہے جس پر محسن بھائی کے بطور گواہ دستخط ہیں۔

1976 سے 15 جنوری 1996 اتنی یادیں اور واقعات ہیں جو ایک کتاب کے متقاضی ہیں محسن پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم جب ان کے گھر ڈیرہ غازی خان پہنچتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے۔ انکل خالد شریف سے ملو۔ انہیں سب پتہ ہے۔

محسن کسی ادبی گروپ سے منسلک نہیں رہے۔ انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ندیم صاحب اور آغا صاحب دونوں سے احترام سے ملتے۔ محسن خود محفل اور جانِ محفل تھے۔ ان کی لابی ان کی اپنی ذات تھی مشاعرے کبھی ان کا مسئلہ نہیں رہے۔ ذاکری میں انہوں نے نئی طرح ڈالی تھی۔ نظم کے انداز میں مجلس پڑھتے تھے اپنے وقت کے مہنگے ترین ذاکرین میں سے تھے۔ ان کے سیکرٹری کی ڈائری بھری رہتی تھی۔ ہمیشہ اچھی گاڑی رکھتے۔ معیارِ زندگی پر انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

میں کوئی نقاد نہیں ہوں نہ ہی یہ مضمون ان کی شاعرانہ عظمت کے احاطے کے لئے لکھا گیا ہے۔ یہ تو محض ایک محبت آمیز ذاتی تاثر ہے۔ لیکن شاعری کے قاری کے طور پر میں اپنی ایک رائے رکھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے ہم عصر شاعروں کی نسبت محسن کا ڈکشن اور ان کی شاعری کا مواد بہت مضبوط ہے۔ ہزار سال بعد جب تقابل کیا جائے گا تو ان کے اکثر معاصر شعراء کا کوئی نام بھی نہ جانتا ہوگا جبکہ محسن کا کلام اُس وقت بھی زندہ ہوگا۔

محسن کی شہادت سے ایک ہفتہ پہلے میری بیگم بچوں کے بال ترشوانے مون مارکیٹ گئی ہوئی تھیں۔ محسن گارڈ کے ہمراہ سامنے سے گزرے اور باربر کو اشارہ کردیا۔ اب محترمہ اصرار کررہی ہیں اور باربر نے اجرت لینے سے انکار کردیا کہ شاہ صاحب کا حکم ہے۔ اکثر اپنے گھر جاتے جاتے ڈرائی فروٹ کا لفافہ ہمارے گیٹ پر چوکیدار کو پکڑا جاتے۔

ہمارے بھتیجے اسد عباس اور عقیل عباس دونوں سعادت مند اور والد کی تصویر ہیں۔ عقیل عباس بہت اچھا شاعر ہے اور اس کا شعری مجموعہ ’’تعلق‘‘ بھی ماورا سے شائع ہوچکا ہے۔ والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وہ بہترین اور کامیاب ذاکر بن چکا ہے۔ اسد عباس  ڈیرہ غازی خان میں کاروباری معاملات دیکھتا ہے جبکہ ان کے ماموں سید ظفر عباس نقوی ایک بہترین شخصیت کے مالک ان کے سرپرست ہیں۔

اپنی شہادت سے پہلے کراچی سے پشاور تک محسن اپنے شاگردوں اور مداحوں کی شکل میں اور شاعری کی ایسی پنیری لگا گئے جس پر رہتی دنیا تک برگ و بار آتے رہیں گے۔ ہر دوسرے دن مجھے کسی دور دراز جگہ سے فون آتا ہے اور کوئی مجھے بتاتا ہے کہ محسن صاحب خط و کتابت کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور وہ صرف ان کی ذات کی مہربانیوں کے سبب لکھ رہا ہے۔

محسن کے اشعار زبان زد عام ہیں۔ مثال کے طور پر رقم کئے جاتے ہیں۔ غلام علی کی آواز میں گائی ہوئی ان کی غزل ’’یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی۔‘‘ جتنی بار سنو نیا لطف دیتی ہے۔

محسن کی نثر اپنے اندر طلسماتی حسن اور تاثیر رکھتی ہے۔ ان کی کتابوں کے پیش لفظ ایک الگ جہان میں لے جاتے ہیں۔ دوستوں کو لکھے گئے خطوط میں بھی ان کا اپنا ہی رنگ ہے۔

میری کتاب ’’نارسائی‘‘ کی اشاعت میں بہت تاخیر ہوگئی کہ میں دوسرے شعراء کی کتابیں شائع کرتے ہوئے اسے ہمیشہ پسِ پشت ڈال دیتا تھا۔ انہوں نے اصرار کرکے اسے جلد چھپوایا اور اس کا بہترین دیباچہ اپنے مخصوص انداز میں لکھ کر ’’نارسائی‘‘ کو امر کردیا۔ وہ کوئی عام شخصیت نہیں تھے ایسے شاعر اور ایسے انسان صدیوں میں نصیب ہوتے ہیں۔

15 جنوری 1996 کی منحوس دوپہر وہ اپنے دفتر سے نکل کر کچھ دیر سن فوٹوز پر ٹھہرے سن فوٹوز کے مالک حسن شاہ بڑی محبت سے ان کی تصاویر بناتے تھے۔ وہاں سے محسن مون مارکیٹ کی مسجد کے رخ پر پیدل جا رہے تھے کہ دو موٹرسائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کردی۔ درجنوں گولیوں میں سے ایک گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔ حسن رضوی نے روتے ہوئے مجھے فون کیا۔ انہیں میوہسپتال لے جایا گیا تھا۔ ہم صرف ان کی میّت ہی لاسکے۔ 192 نشتر بلاک میں سوگواروں کا ہجوم تھا۔ اگلے روز انہیں ڈیرہ غازہ خان لے جایا گیا جہاں ان کے جنازے اور تدفین میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔

وہ کم بخت موٹرسائیکل سوار پکڑے گئے۔ دہشت گردی کی دفعات لگیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ تمہاری کیا دشمنی تھی کہ ایسے قیمتی آدمی کو مار دیا۔ جواب آیا ہم تو ایک دو روز پہلے چہرہ شناسی کے لیے ان کے دفتر گئے تھے۔ انہوں نے چائے پلائی اور محبت آمیز باتیں کیں۔ ہم نے ہائی کمان سے کہا وہ تو بے ضرر آدمی ہے۔ آرڈر آیا اُسے مار دو ورنہ خود مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ ہمیں کرنا پڑا۔ پانچ پانچ ہزار ہم دونوں کو ملے۔

محسن کی شہادت کے بعد عقیل عباس نے ان کا غیر مطبوعہ کلام مہیّا کیا جسے میں نے خیمۂ جاں کے نام سے شائع کردیا۔ اسی طرح ان کا مذہبی کلام جو غیرمطبوعہ تھا حق ایلیا کے نام سے شائع کیا۔ یہ دونوں نام میں نے رکھّے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ دونوں نام محسن خود رکھ گئے تھے۔ بعدازاں تینوں مذہبی شاعری کے مجموعوں کی کلیات میراثِ محسن کے نام سے شائع کی اور آخر میں رومانی شاعری کی آٹھ کتابوں پر مشتمل کلیات، کلیاتِ محسن نقوی کے نام سے شائع ہوئی۔

میں حلقہ جاتی تنقیدی نشستوں میں کبھی نہیں گیا۔ حتّٰی کہ صدارت کے لئے بھی بارہا انکار کردیا۔ بھائی حسین مجروح اس بات پر ناراض بھی ہوئے۔ دراصل میں ایسی محفلوں میں بول ہی نہیں سکتا۔ لیکن محسن نقوی ایسا موضوع ہے جس پر میں بغیر تیاری کے کہیں بھی بول سکتا ہوں۔ متعدد ٹی وی پروگرامز میں مجھے محسن نقوی پر بولنے کے لئے بلایا گیا۔ ہمیشہ وقت کی کمی کا احساس ہوا۔

ان کے دورِ حیات میں کئی ناشرین نے اُن سے رابطہ کیا اور لاکھوں روپے کی آفر دی۔ انہوں نے کبھی کسی کو منہ نہ لگایا۔ شہادت کے بعد عقیل عباس کو بھی ایسی ہی آفرز دی گئیں۔ وہ بھی اسی باپ کا بیٹا ہے۔ شاعری کی کتابوں کا دور اب گزر چکا ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ نے سارا منظر ہی تبدیل کردیا ہے لیکن محسن کا کلام، ان کی کتابیں اور ان کی شاعری اب بھی زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ

اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

___

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے

تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

___

خوشبو کی سرد لہر سے جلنے لگے جو زخم

پھولوں کو اپنا بندِقبا کھولنا پڑا

___

سفر تنہا نہیں کرتے

سنو ایسا نہیں کرتے

___

ٹھہر جاؤ کہ حیرانی تو جائے

تمہاری شکل پہچانی تو جائے

___

عجب نصیب تھا محسن کہ بعدِ مرگ مجھے

چراغ بن کے خود اپنی لحد پہ جلنا تھا

 

 

 

سفر جاری رکھو اپنا

(خالد شریف کے لیے ایک ادھوری نظم)

یہ شیشے کے غلافوں میں دھڑکتی، سوچتی آنکھیں

نجانے کتنے پر اسرار دریائوں کی گہرائی میں

                  بکھرے موتیوں کی آب سے نم ہیں

پہاڑوںسے اُترتی کہر میں لپٹا ہوا

                           یہ سانولا چہرہ!

نجانے کتنی کجلائی ہوئی صبحوں کے سینے میں

                           مچلتی خواہشوں کا آئینہ بن کر

                                             دمکتا ہے!

یہ چہرہ، کرب کے موسم کی بجھتی دوپہر میں بھی

                                             چمکتا ہے!!

یہ لب یہ تشنگی کی موج میں بھیگے ہوئے

                                    ’’مرجاں‘‘

شعاعِ حرف جن سے پھوٹتی ہے سرخرو ہو کر!

یہ لب جب شعلۂ آواز کی حدت میں تپ کر مسکراتے ہیں

                           تو نادیدہ سرابوں کی جبیں پر

                           بے طلب کتنے ستارے جھلملاتے ہیں

یہ لب جب مسکراتے ہیں

                  تو پل بھر کو سکوتِ گنبدِ احساس

                           خود سے گونج اُٹھتا ہے!!

یہ پیکر!

یہ حوادث کے مقابل بھی کشیدہ قامت و خوش پیرہن، پیکر

                  کہ جیسے بارشوں کے رنگ برساتی ہوئی رُت میں

                  خرامِ اَبر پر قوسِ قزح نے

                           اپنی انگڑائی چھڑک دی ہو!

کوئی آواز!

                  جب تنہا مسافت میں مرے ہمراہ چلتی ہے

کوئی پرچھائیں

جب میری بجھی آنکھوں میں چبھتے اَشک چنتی ہے

تو لمحہ بھر کو رُک کر سوچتا ہوں میں

کہ اس تنہا مسافت میں

کسی صحرا میں سائے بانٹتے اشجار کی خوشبو ہے

                                             یا تم ہو؟

یہ تم ہو یا تمنا کے سفر میں

                  حوصلوں کا استعارہ ہے؟

یہ تم ہو یا طلب کی رہگذر میں

                  گم ستارہ ہے؟

ہوا تم سے اُلجھتی ہے

                  کہ تم اپنی ہتھیلی پر مشقت کا ’’دِیا‘‘ بجھنے نہیں دیتے!

حریفانِ قلم… نالاں

                  کہ تم اُن کی کسی سازش پہ کیوں برہم نہیں ہوتے؟

ادب کے تاجرانِ حرص پیشہ سر بہ زانو ہیں

                           کہ تم اہلِ ہنر کے ریزہ ریزہ خواب

                           اپنی جاگتی پلکوںسے چن کر

                           سانس کے ریشم میں

                           کیوں اِتنی مشقت سے پروتے ہو

مگر جاناں، تمہیں کیا؟

                  تم سفر جاری رکھو اپنا،

سفر میں سنگباری سے لہو ہونا

جگر کے زخم سے رِستے لہو سے آبلے دھونا

                  اَزل سے ہم غریبانِ سفر کی اِک روایت ہے!

تمہیں کیا تم سفر جاری رکھو اپنا!

                  تمہاری آبلہ پائی کا عنواں ’’نارسائی‘‘ ہے

تمہیں آتا ہے

                  دُشمن کے لیے وقفِ دُعا رہنا

اندھیروں سے اُلجھنا سنگباری کی رُتوں میں ’’بے قبا‘‘ رہنا

تمہیں آتا ہے یوں بھی زخم کھا کر مسکرا دینا

                  تمہیں آتا ہے

                  گردِ روز و شب سے ’’ماوراء‘‘ رہنا


No comments:

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...