Tuesday, March 28, 2017

جمہوریت کی تطہیر۔۔۔نوشاد حمید



مشرف کے دورِحکومت میں پُرانے اور رد کیے چہروں کی جانب سے ہی قوم کو خوش آئند تبدیلی کے نئے خواب دکھائے گئے۔ مشرفی آمریت سے بیزار عوام نے اس اُمید پر سڑکوں پر آ کر جدوجہد کی کہ تبدیلی کے بعد کچھ نیا مِلے گا۔ سب کچھ بدل جائے گا۔ پُرانے لوگ ماضی کی غلطیوں کو فراموش کر کے بہتر انداز میں اُن کی خدمت کریں گے۔ بھولی عوام ماضی کے لُٹیروں کو ہی مسیحا کے رُوپ میں دیکھنے لگی۔ اور پھر عوام نے پیپلز پارٹی کے دور کا عذاب بھُگتا۔ کوئی تبدیلی نہ آئی۔ آصف زرداری، بے نظیر بھٹو کے قتل کے باعث ملنے والے ہمدردی کے ووٹ کی بناء پر برسراقتدار آئے اور خوش کُن نعرہ دِیا ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔ عوام کو پانچ سال بھُگتنے کے بعد سمجھ آئی کہ یہ انتقام بی بی کے قاتلوں سے نہیں بلکہ اُن سے لیا گیا۔ 

خیر، عوام 2013ء کے انتخابات کے موقع پر پھر سے پُرجوش ہو گئی۔پُرانے اور آزمودہ چہروں کو نیا موقع دینے کے لیے۔مگر نتیجہ کیا ہوا؟ وہی دو طبقات ہیں… ایک بالا دست اور دوسرا زیر دست… حاکم اور محکوم! جابر اور مجبور!  جونہی پاناما لیکس کا معاملہ گرم ہوا تو حکومتی کاسہ لیس اور چیلے چانٹے لگے جمہوریت کو خطرے کا راگ الاپنے۔ اسمبلیوں میں بھی جمہوریت کے حق میں بڑا شور برپا کیا گیا۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ جمہوریت کے ثمرات سے کتنے فیصد عوام مستفید ہو رہے ہیں؟  اسمبلیاں عوام کے حقوق کے تحفظ اور فلاح و بہبود کی ضامن ہوتی ہیں۔ مؤثر قانون سازی کے ذریعے مُلک میں آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتی ہیں اور عدل و انصاف کا بول بالا کرواتی ہیں۔ ہماری اسمبلی میں بھی یقینا اچھے لوگ موجود ہیں مگر ان کی بات پر کان دھرنے والا کوئی نہیں۔ حقیقت میں اس اسمبلی میں بدعنوانیوں میں ملوث چند ایسے سیاہ چہرے اقتدار و اختیار پر قابض ہیںجو قبضہ مافیا، منشیات فروشی، دہشت گردوں کی سرپرستی و سہولت کاری، جعلی ڈگری اور دیگر گھنائونے افعال سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے حلقوں کے ناخُدا بنے بیٹھے ہیں۔ جس کو چاہیں موت کے گھاٹ اُتار دیں، جس کی زمین پر چاہیں، قابض ہو جائیں۔ کوئی ان کو لگام ڈالنے والا نہیں۔  بلدیاتی نظام کی صورت میں بھی عوام کے لیے کوئی خاص تبدیلی نہیں آ سکی۔ کیونکہ خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی نظام کا ڈھانچہ اس طرح سے وضع کیا گیا کہ اختیارات حقیقی عوامی نمائندوں کو منتقل نہ ہو سکیں۔ ان بلدیاتی انتخابات کی صورت میں پارلیمنٹ میں بیٹھے کرپٹ عناصر کے ہی 90فیصد بچے جمورے آگے آئے ہیں۔ اب کرپشن بڑے منصوبوں سے پھیل کر گلی محلّوں کے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس میں بھی در آئی ہے۔ عوام کی محنت کا پیسہ لُوٹنے والوں کی گنتی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اگر پاکستانی سیاست میں موجود ان استحصالی اور بدعنوان عناصر کو نکال پھینکا جائے تو جمہوریت ترقی کرے گی، ملک ترقی کرے گا، عوام کے افلاس ومصائب میں کمی واقع ہو گی۔ اُن کا معیارِ زندگی بلندیوں سے ہم آہنگ ہو گا۔    جمہوریت کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ یہ ایک راستہ ہے لوگوں کو فلاح کی طرف لے جانے کا۔ اُن کے مسائل کے حل کا۔ اُن کی معاشی، سماجی اور ذاتی تکالیف میں کمی کا… اُنہیں ایک بہتر طرز زندگی کی طرف گامزن کرنے کا۔ اگر کسی جمہوری نظام کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے تو اس جمہوری نظام کے چلانے والوں کی اہلیت اور کردار کی شفافیت پر سوال اُٹھنا لازمی ہیں۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے ترقی کے وعدے ایک سنہری دھوکے (Eye Wash) سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب کبھی کسی اہل اور عوام دوست جماعت کی حکومت آئے گی تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ مُلکی معیشت کو کس کس ڈھنگ سے نقصان پہنچایا گیا۔ میگا پراجیکٹس میں کس حد تک کرپشن سے ہاتھ آلودہ کیے گئے۔  جب کسی مدرسے سے جُڑا مہتمم یا مولوی کسے معصوم بچے کو شیطانی ہوس کا نشانہ بناتا ہے تو ہمارے معاشرے کے تمام لبرل طبقات موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے تمام عالمِ دین اور مذہبی ہستیوں کی مذمت کرنے میں جُٹ جاتے ہیں۔ یہ کوئی انصاف نہیں ہے۔ کسی پیشے یا ادارے سے جُڑے فردِ واحد کے کارہائے سیاہ پر تمام اداروں کو الزام دینا قطعاً معقول رویہ نہیں۔ شیطان کسی بھی رُوپ میں موجود ہو سکتا ہے اورکسی بھی معصوم بنے شخص کے اندر بیٹھ کر وقت آنے پر اپنی اصلیت ظاہر کر سکتا ہے۔ یہی حال جمہوریت کا ہے۔ چند بُرے لوگوں کی نشاندہی کرنے کا قطعاً یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ تمام جمہوری نظام کرپٹ ہے۔ یہ تو کچھ چور، ڈاکو، بدمعاش، اٹھائی گیرے، قبضہ مافیا اور کالے دھن سے جُڑے لوگ ہیں جو اس وجہ سے پارلیمنٹ کا رُخ کرتے ہیں تاکہ وہاں سے حاصل ہونے والے آئینی استثنیٰ کو اپنے کالے کرتوتوں کے لیے بطور ڈھال استعمال کر سکیں۔  جب بھی حکمرانوں کے احتساب کی بات کی جاتی ہے تو درباریوں کی جانب سے واویلا مچایا جاتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ جمہوریت خطرے میں نہیں، بلکہ استحصالی طبقے کا اقتدار خطرے میں ہے۔ کروڑوں لوگوں کی قسمتوں کے خُدا بنے بیٹھے مُٹھی بھر لوگوں کے گٹھ جوڑ کو خطرہ ہے۔ پُوری دُنیا میں جمہوری عمل چلتا ہے اوروقت کے ساتھ بڑھ رہے سیاسی شعور کی بدولت عوام سیاسی نظام میں موجود کالی بھیڑوں کو مسترد کر دیتی ہیں۔ یہی جمہوریت کا حُسن ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے جمہوریت میں تطہیر کا عمل جاری ساری رہتا ہے۔ مگر یہ سب عمل وہاں ہوتا ہے جہاں صحیح معنوں میں جمہوریت کا راج ہو۔ جہاں سیاست دان، عوام اور ریاستی ادارے جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہوں۔ کوئی شخص بھی احتساب سے بالاتر نہیں۔ ہمارے خلفائے راشدین نے بھی خود کو بارہا عوامی احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ موجودہ حکومت کی نااہلی کا تو یہ عالم ہے کہ کوئی قدرتی آفت ہو یا سالوں بعد کوئی اِکلوتا میچ کرانا ہو یا کوئی دُوسرا تیسرا معاملہ۔ یہ فوج کو بُلاتے ہیں۔ حکومتی سول اداروں کو سیاست کی نذر کرنے کے باعث ہی فوج کو رد الفساد اور ضربِ عضب جیسے آپریشن لانچ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مگر ہزاروں جانوں کی قربانی کے بعد بھی دہشت گردی کا درخت جڑ سے نہیں اُکھاڑا جا سکا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ دہشت گردی کے ڈانڈے کرپشن سے ملتے ہیں۔ اور کرپشن کو تحفظ ہمارے ہی چند نام نہاد عوامی لیڈران کی جانب سے دیا جا رہا ہے۔ دھاندلی زدہ سسٹم کے باعث جو چند دہشت گرد عناصر پارلیمنٹ میں اپنی محفوظ پناہ گاہ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں، اگر فوج کو ان کی بیخ کنی کا اختیار مِل جائے تو بلاشبہ دہشت گردی کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے احتسابی اور انتظامی ادارے صرف حزبِ مخالف کے افراد کو  کرپشن کیسز میں ملوث کرنے، ڈرانے دھمکانے اور سیاسی سودے بازی کے لیے ہی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اگر ان اداروں کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کر دیا جائے اوریہ  بلاتخصیص حکومتی و اپوزیشن ارکان کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لا کھڑا کریں تو فوج دہشت گردی کے پسِ پُشت کارفرما کرپشن کے خلاف اپنا کام کہیں زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکی گی۔  قوم کو وزیر اعظم نواز شریف سے زیادہ اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔ ان کی پُراسرار شخصیت کی کئی پرتیں ہیں۔ جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اِن کی زبان دِن رات مُلکی سا لمیت کو درپیش خطرات کا راگ الاپنے سے نہیں تھکتی۔ جبکہ حکومت میں آنے کے بعد ان کا دِل ہر لحظہ پاکستان کے دُشمن ممالک کی محبت و اُلفت میں دھڑکتا ہے۔ 


No comments:

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...