Tuesday, March 21, 2017

پانامہ لیکس اور نواز شریف کا سیاسی مستقبل.................نوشاد حمید کا زہریلا سچ


پانامہ لیکس کی عدالتی کارروائی اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔ آج یا کل میں اس حوالے سے تفصیلی فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ فیصلہ جو بھی آئے اس سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف کا پانامہ لیکس کے بعد حکمرانی کا کوئی اخلاقی اور آئینی جواز باقی رہتا ہے اور وہ بھی جب اُن اور اُن کے خاندان پر لگائے جانے والے کرپشن کے سنگین نوعیت کے الزامات کا مؤثر اور تسلّی بخش جواب پارلیمنٹ، میڈیا اوردیگر فورمز پر دینے میں پُوری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ پچھلے چند ماہ کے دوران حکومتی حاشیہ برداروں اور خود نواز شریف اور پھر ان کے بچوں کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو تضادات کا ایک انبار نظر آتا ہے۔ ایک ملکیت سرے سے انکاری ہے تو دوسرا ببانگِ دُہل اُسی ملکیت کو 90کی دہائی سے Own کرنے کی بات کرتا ہے۔ کس قدر شرمناک صورتِ حال ہے کہ مُلک کا وزیر اعظم چند ماہ پہلے پانامہ لیکس کے حوالے سے پارلیمنٹ میں کیے گئے خطاب کے متن پر قابلِ گرفت آنے پر اسے محض ایک ’’سیاسی بیان‘‘ قرار دے کر خود کو ہدفِ تنقید بننے سے بچانے کی ناکام اور بھونڈی کوشش کرے۔ اسے دروغ گوئی پر محمول کیا جائے یا بچائو کی سیاست کا نام دے کر ٹال دیا جائے۔ کیا عدالتی اور پارلیمانی فورمز پر دیئے گئے بیانات میں خوفناک تضاد پر وزیر اعظم قابلِ مواخذہ نہیں ٹھہرتا؟ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ شہباز شریف اینڈ کمپنی اس بحرانی صورتِ حال میں کچھ زیادہ جارحانہ موڈ میں نظر نہیں آ ئی۔سوائے چند ایک ڈنگ ٹپائو قسم کے بیانات کے اُنہوں نے اس معاملہ پر پُراسرار چُپ سادھے رکھی۔ 
نواز شریف فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار پر قابض ہوئے۔ اُن کی سیاسی اور انتظامی اہلیت (نااہلیت) سب کے سامنے ہے۔ عوام کو اپنے لیڈر کی ذات سے جو توقعات اور کرپشن فری امیج درکار ہوتا ہے، نواز شریف کبھی بھی اُس کسوٹی پر پُورا اُترتے دکھائی نہیں دیئے ۔  چاہیے تو یہ تھا کہ نواز شریف اس حقیقت کو تسلیم کر کے کہ اُن کے پاس حکمرانی کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا، اقتدار اپنی پارٹی کے کسی دوسرے فرد  کو سونپ دیتے مگر اقتدار تو جمہوری لیڈر چھوڑتے ہیں، شہنشاہ اور آمر اقتدار سے رضاکارانہ طور پر کبھی بھی علیحدگی اختیار نہیں کرتے، جب تک اُن سے زیادہ مقتدر ادارہ یا عوامی طاقت اُن پر عذاب بن کر نہ ٹوٹ پرے۔ شاید نواز شریف خود کو ایسی ہی صورت حال میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ 
  شریف برادران کو احساس ہونا چاہیے کہ وقت بدل چکا ہے۔بدقسمتی سے سیاست میں اتنا عرصہ گزارنے کے باوجود بھی نواز شریف تاریخ سے کچھ سیکھنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ انہوں نے اپنے ساتھ ایسے لوگوں کو رکھا جو مشرفی آمریت کے فیوض و برکات کو سمیٹتے رہے، مسلم لیگ نواز پر سیاسی تبرّوں اور طعن و تشنیع کے تیر برساتے رہے، نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے، آج اُن میں سے بیشتر لوگ نواز شریف صاحب کے ’’مشیرِ خاص‘‘ بنے بیٹھے ہیں۔ آمر کے جوتے چاٹنے والے آج مسلم لیگ کی کشتی میں سوراخ کر کے اسے جلد از جلد ڈبونے کے ایجنڈے پر کارفرما ہیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ نواز شریف کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی اپنی ذات کے حوالے سے نرگسیت سے بھر پور سوچ ہے،وہ صرف انہی لوگوں میں گھِرے رہنا پسند کرتے ہیں جو اُن کے جائز و ناجائز اقدامات کے حوالے سے رطب اللسان رہیں۔ ماضی میں اسی قبیل کے موقع پرست اور عاقبت نااندیش مشیروں (کچن کیبنٹ) نے نواز شریف کے اقتدار کی نیّا ڈبونے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
آج پھر مسلم لیگ نواز کئی بحرانوں سے دوچار ہے اگرچہ قطری شہزادے کے خطوط کی صورت میں بروقت پہنچنے والی ’’غیبی امداد‘‘ نے عدالت میں شریف فیملی کی وقتی طور پر ساکھ ضرور بچا لی مگر اس خط کی صورت میں سوالات اور شکوک و شبہات کا ایک نیا پنڈورا باکس کھُل گیا اور عدالت نے مزید نئے سوال کھڑے کر دیئے۔حکومتی وکیلوں نے سر توڑ کوشش کی کہ بار ثبوت کی فراہمی کا معاملہ کسی طرح مخالف مُدعی پر پھینک کر کیس کو اُلجھا دیا جائے۔ مگر معاملہ حل نہ ہوا۔ یہاں تک کہ دو سابقہ چیف جسٹس صاحبان، افتخار چودھری اور جسٹس سجاد علی شاہ اور کئی معتبر وکلاء نے بھی رائے دی کہ بار ثبوت نواز شریف پر ہے۔بدقسمتی ہے کہ عوام کے اربوں روپے لُوٹنے والے حکومتی لیڈران کی ذاتی کرپشن کے انبار تلے نہ صرف پوری جماعت بلکہ تمام انتظامی اور احتسابی ادارے دب کر انتہائی تباہ حال انجام سے دو چار نظر آ رہے ہیں۔مُلک ان کی کرپشن کا بار خود پر مزید برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نواز شریف نے خود کو بچانے کی کوشش میں تمام اداروں کی ساکھ دبائو پر لگا دی ہے۔ جس کے منفی اثرات مستقبل میں جا کر ظاہر ہوں گے۔  
قارئین اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ موجودہ حکومت نے ایل این جی کا ٹھیکہ قطر سے حاصل کیا ہے اس ٹھیکے کی شفافیت پر بھی بہت سے سوالیہ نشان ہیں اور اب جبکہ میاں نواز شریف کی سیاست کی کشتی پانامہ لیکس کے منجدھار میں ہچکولے کھا رہی ہے،ایسے آڑے وقت میں قطر کے شاہی خاندان کا مدد کو آنا بہت معنی خیز ہے۔یہ بات بھی غور طلب ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے زیادہ تر سمجھوتے تُرکی اور چین کی کمپنیز کے ساتھ کیے ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھُپی نہیں کہ دُنیا بھر میں معاشی ڈیلز پر انڈر دی ٹیبل کمیشن کے حوالے سے تُرکی اور چین کی کمپنیاں خاصی بدنام خیال کی جاتی ہیں۔ان ممالک کے سرکردہ لیڈران بھی بہت سی کمپنیز چلا رہے ہیں۔ تُرکی کے سربراہ رجب طیب اُردگان کے ساتھ بھی شریف فیملی کے نجی نوعیت کے تعلقات ہیں۔ بلاشبہ اب یہ معاملہ کرپشن کے ایک بین الاقوامی گٹھ جوڑ کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔اب میٹرو بس، گوادر پورٹ، اورنج ٹرین منصوبہ، موٹر وے ایکسٹنشن اور دیگر منصوبے کرپشن کے کیچڑ میں لتھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ اورنج ٹرین منصوبہ بھی چین کی ایک چھوٹی سی قصباتی کمپنی کو دیا گیا ہے جس کا میگا پراجیکٹس پر کام کرنے کا کوئی تجربہ اور اہلیت نہیں ہے۔ معاملہ اس قدر گھمبیر ہے کہ مستقبل میں اگر کوئی دوسری جماعت بر سراقتدار آئی اوراُس نے وسیع پیمانے پر ان منصوبوں کی تحقیقات کرائیں تو بہت سارے ممالک اور ان کے قد آور لیڈروں کے ساتھ تعلقات میں خوفناک بگاڑ پاکستان کے لیے سفارتی اور معاشی محاذوں پر ضرر رساں ثابت ہو سکتا ہے۔ بات یہیں تک محدود نہیں ہے، اس وقت جو بھی جماعت یا افراد اُن کے سیاسی اقتدار کے ڈوبتے ٹائی ٹینک میں پیدا ہونے والے شگافوں کو غیر منطقی اور غیر آئینی و سیاسی تاویلات اور ترجمانی سے بھرنے میں مصروف ہیں، آئندہ الیکشنز میں عوامی غیظ و غضب کے سیلِ بے پناہ میں غرقابی اُن کا بھی مقدر ٹھہرے گی۔ 
وزیر اعظم کو اب نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے ۔ 
’’جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا کہ شام گیا‘‘
    پاکستان کی موجودہ عوام سیاسی لحاظ سے بہت بالغ اور باشعور ہے۔ اسے 90ء کی دہائی والی اندھی تقلید کی لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت بھی عوامی اُمنگوں اور خواہشات پر پُورا نہ اُترنے کے سبب عوام کی بڑی اکثریت کی حمایت سے محروم  چکی۔اگر نواز شریف  اقتدار سے رضاکارانہ طور پر علیحدگی اختیار کر لیں اور اپنی جماعت کے کسی اہل فرد کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کر دیں تو اُن کا یہ اپنی جماعت کے کارکنوں اور لیڈروں پر بہت بڑا احسان ہوگا۔ وزیر اعظم صاحب !آپ اپنی جماعت  کے وجود کو اپنی ذات کی خاطر نیستی و نابودی کے دائو پر نہ لگائیں۔ ابھی تو آپ کی جگ ہنسائی کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اور جس راہ پرآپ گامزن ہیں، اس راہ میں شرمندگی و رسوائی کے کئی سنگِ میل باقی ہیں۔

No comments:

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...