Sunday, March 26, 2017

اولڈ اِز گولڈ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,نوشاد حمید کا زہریلا سچ ایک بار پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کارکن سیاسی پارٹیوں کا بیش بہا سرمایہ ہوتے ہیں۔ کارکنوں کی بدولت ہی سیاسی جماعتیں گراس روٹ لیول پر اپنی جڑیں مضبوط کرنے اور تنظیم سازی کے عمل میں کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ یہی کارکن ہوتے ہیں جو انتخابات کے دوران اور قبل اپنی راتوں کی نیندیں اور دِن کا چین برباد کر کے اپنی جماعت کی کامیابی کی خاطر سر توڑ مشقت کرتے ہیں۔ ان کارکنوں میں سے بیشتر کی جماعت سے وابستگی مستقبل کے مفادات پر نگاہ رکھنے کی بجائے خالصتاً نظریاتی نوعیت کی ہوتی ہے۔ یہ لوگ مخالف پارٹی کے دورِ اقتدار میں بھی اپنی جماعت سے زیادہ مضبوطی سے وابستہ رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ دورِ آمریت کی صعوبتیں‘ دھونس دھمکی اور مالی ترغیبات بھی ان کے پایۂ استقامت میں لرزش پیدا نہیں کر سکتیں۔ ان کی بے لوث کمٹمنٹ اور انتھک جدوجہد ہی مطلق العنان آمروں کو اپنا بوریا بسترا سمیٹنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ کارکن لیڈر کی ایک کال پر لبیک کہتے ہوئے تحریکوں کے الائو میں بصد رضا و خوشی ایندھن کا کردار ادا کرتے ہوئے قربانیوں کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے کاروبار اور فکرِ معاش کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ جمہوریت کا خورشید طلوع کرنے کی خاطر اگر ان کے گھروں میں افلاس اور تنگ دستی کا اندھیرا چھا جائے تو بھی ان کے جذبے ماند نہیں پڑتے۔ ان کی زندگی بلاشبہ ’’نہ ستائش کی تمنّا‘ نہ صلے کی پرواہ‘‘ سے عبارت ہوتی ہے۔ قارئین کرام! ہمارے مُلک کی بیشتر سیاسی پارٹیوں میں ایسے کارکن وافر گنتی میں پائے جاتے ہیں۔ مگر یہاں ہم موضوعِ سخن موجودہ برسراقتدار جماعت مسلم لیگ نواز کے کارکنوں تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے اب تک تقریباً چار بار مسلم لیگ کو حکومتی ایوانوں سے باہر رہنا نصیب ہوا۔ پیپلز پارٹی کے خصوصاً دو ادوارِ حکومت میں ن لیگی کارکنوں نے حکومت کو ٹف ٹائم دیئے رکھا۔ انہی کارکنوں کے برپا کئے گئے سیاسی بھونچال کی بدولت پیپلز پارٹی کو اقتدار کے ایوانوں سے باہر کیا گیا اور اقتدار کا ہُما میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے سر پر جا بیٹھا۔ پھر 1999ء آیا جب میاں برادران کی اپنی مطلق العنان ذہنیت‘ سیاسی کج فہمی اور عاقبت نااندیشی ان کی حکومتوں کے خاتمے اور مشرف کے آٹھ سالہ دورِ آمریت کے آغاز پر منتج ہوئی۔ طیارہ سازش کیس کی سماعت کے دوران لیگی کارکنوں کی جانب سے کوئی زیادہ بڑا احتجاج دیکھنے کو نہ مِلا۔ وجہ صاف ظاہر تھی۔ شریف برادران ہمیشہ اقتدار سنبھالتے ہی کارکنوں سے منہ موڑ اور آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ جن کارکنوں کی قربانیوں کے دوش پہ یہ لیڈر حکومت سازی میں کامیاب ہوتے ہیں‘ اعلیٰ ترین حکومتی عہدوں پر فائز ہونے کے بعد انہی کارکنوں کو اچھوت خیال کرتے ہوئے انہیں شرفِ مِلاقات تک بخشنا گوارا نہیں کرتے۔ فیوڈل مائنڈ سیٹ رکھنے والے شریف برادران اپنے کارکنوں کو کمّی کمین سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے خیال میں کارکن کی حیثیت ٹشو پیپر سے رتّی بھر زیادہ نہیں۔

خیر‘ قصّہ مختصر یہ کہ کارکنوں کے ساتھ ناروا سلوک کے باعث نواز شریف کو طیارہ سازش کیس میں عمر قید کی سزا سُنائے جانے پر بھی کوئی خاص عوامی ردِد عمل سامنے نہ آیا۔ بلکہ نواز لیگ کی اعلیٰ قیادت سے نالاں اور بدظن لیڈروں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے موقع غنیمت جانتے ہوئے دوسری جماعتوں بالخصوص مشرف کی تشکیل کردہ مسلم لیگ قائد اعظم کا رُخ کرنے میں عافیت جانی۔ یہ دور جماعت پر بہت کڑا تھا۔ ابن الوقت سیاسی لیڈروں کے سیاسی قبیلہ بدلنے کے بعد‘ جبکہ میاں برادران خود اختیاری جلاوطنی کے دور میں سعودی عرب میں اپنی نوزائیدہ معاشی ایمپائر کو ترقی دینے میں مصروف تھے‘ نواز لیگ کی بچی کھُچی سیاسی قیادت اور کارکنان نے اپنے رشتۂ وفاداری و اُستواری کو برقرار رکھا۔ مخدوم جاوید ہاشمی‘ ذوالفقار کھوسہ‘ غوث علی شاہ، راجا ظفر الحق اور دیگر کئی اس قافلۂ وفاداراں کے سرخیل ٹھہرے۔ مشرف کے تمام تر استبدادی ہتھکنڈوں کے باوجود مسلم لیگ نواز نے 2003ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی بیس سے زائد نشستوں پر کامیابی سمیٹی۔ اگرچہ ان میں سے بعد ازاں کچھ نے نواز لیگ کو ڈوبتا جہاز گمان کر کے ق لیگی بیڑے میں چھلانگ لگا دی۔ مگر وفاداروں کے باعث نواز لیگ اپنے سیاسی وجود اور ساکھ کو ملیامیٹ ہونے سے بچانے میں کامیاب رہی۔اس دور میں جاوید ہاشمی اور دیگر قائدین و کارکنان نہ صرف زیرِ عتاب رہے بلکہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

شریف برادران وکلاء اور نواز لیگی کارکنوں کی محنت سے کھڑی کی گئی تحریک کا ثمر سمیٹنے کے لیے 2008ء کے الیکشن سے قبل پاکستان آن دھمکے۔2008ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز کو اس کی توقع سے کہیں زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں۔ یہاں تک کہ وہ پنجاب میں بھی اکثریتی پارٹی کے طور پر اُبھر کر صوبائی حکومت کی تشکیل کے مرحلے میں کامیاب و کامران ٹھہری۔ یہ کامیابی درحقیقت لیڈر شپ کی نہیں بلکہ کارکنوں کی استقامت اور محنت کا شاخسانہ تھی۔ اور پھر اس کے بعد وہی ہوا جو شریف برادران کا وطیرہ ہے۔ اقتدار کی چُوری کی دعوت میں شریف برادران نے صرف اپنے خاندان‘ برادری کے زیادہ تر لوگوں کو شریک کیا بلکہ کئی ایسے لوگوں کو بھی اپنی جماعت میں جگہ دی جو مشرف دور میں ہمہ دم شریف اینڈ کمپنی پر سیاسی تبرّے اور لعن طعن کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ مگر کارکنوں کی کیا مجال کہ وہ مغل شہنشاہوں کے آگے دم مار سکیں‘ مؤدبانہ لفظوں میں بھی احتجاجی فریاد بُلند کر سکیں۔ یہ بیچارے تو کسی بیگار کیمپ کے مجبور و مقید ’’کامے‘‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ 2008ء کے الیکشن میں چند ہی سیاسی کارکن ہوں گے جنہیں اُن کی خدمات کے اعتراف میں ٹکٹوں سے نوازا گیا۔ وہ بھی اُن مقامات پر جہاں پر کوئی بااثر سیاسی شخصیت ن لیگ کے ٹکٹ پر کھڑی ہونے کو تیار نہ تھی۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل تو انتہا ہی ہو گئی۔ نوا زلیگ‘ لوٹا لیگ کی صورت اختیار کر گئی۔ انتخابات میں بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کی خاطر تمام تر سیاسی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ Electables کے نام پر تمام سیاسی جماعتوں کا گندآستانۂ شریفیہ میں ’’جوق در جوق‘‘ بیعتِ شریفاں سے فیضیاب ہوا۔ کئی دہائیوں سے پارٹی کی بنیادوں کی مضبوطی میں اپنے لہو پسینے کا گارا شامل کرنے والے کارکن اور نچلی و درمیانے درجے کی سیاسی قیادت منہ تکتی رہ گئی۔ اشرافیہ جیت گئی‘ کارکن ہار گئے۔ جاوید ہاشمی، سرانجام خان، غوث علی شاہ اور ذوالفقار کھوسہ جیسے وفا شعار لیڈروں کو بھی سائیڈ لائن کر دیا گیا اورکیا بھی کیوں نہ جاتا؟ شریف برادران کی حد درجہ حاسد طبیعت 2008ء کے انتخابات میں جاوید ہاشمی کی بیک وقت قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر کامیابی کو سہار نہ سکی۔ انہیں تو سیاسی خوشامدی اور بُوٹ پالشیئے چاہیے ہوتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کی بڑھتی سیاسی مقبولیت کو انہوں نے اپنی ذات کی توہین خیال کیا۔ ان کی مقبولیت سے خائف ہو کر ان سے صلاح و مشاورت کا عمل ترک کر دیا گیا۔ آخر کئی دہائیوں سے جماعت سے جُڑے ہاشمی کو نواز لیگ کو الوداع کہنا پڑا۔  اس وقت پانامہ لیکس اور عدالتی کارروائی پر حکومتی دفاع میں صفِ اول میں کھڑے بہت سارے نواز لیگی پارلیمنٹیرینز درحقیقت اپنے قائدین کے تضحیک آمیز رویئے سے انتہائی نالاں ہیں اور حکومتی وکالت کا فریضہ باامر مجبوری نبھا رہے ہیں۔ قارئین کے لیے یہ بات ہضم کرنا اس وقت شاید مشکل ہو گی مگر حقیقت یہی ہے کہ 2018ء کے الیکشن سے قبل بیشتر حکومتی ترجمان ہیوی ویٹس دوسری جماعتوں کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہوئے اپنی سابقہ جماعت کے خلاف صف آراء ہوں گے۔اس وقت ان کی خاموشی کی ایک وجہ ان کا یہ خوف ہے کہ اگر اب انہوں نے ذرا سی بھی باغیانہ روش اختیار کی تو حکومت ان کے خلاف نیب میں مختلف ریفرنسز کھول دے گی۔ شریف برادران طاقت اور اقتدار کے نشے کے زعم میں یہ بات بھُلا چُکے ہیں کہ وہ پیکرِ استقامت اور فلک بلند حوصلے والے افراد جو کئی دہائیوں تک پارٹی کو پیش آنے والے سیاسی طوفانوں کے آگے سینہ سپر رہے، جنہوں نے ہر دورِ ابتلاء میں پارٹی کے وجود کو زندہ رکھا ، وہ اب پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں اور جو باقی بچے ہیں وہ بھی عنقریب پارٹی کو داغِ مفارقت دینے والے ہیں۔ اپنی سیاسی شہنشاہیت کو اپنی اولاد میں منتقل کرنے کی اندھی خواہش کی تکمیل کی خاطرایک منصوبہ بندی کے تحت پُرانے کارکنوں کو سائیڈ لائن کر کے پارٹی میں ’’نیا خون‘‘ لانے کا شوشہ چھوڑا گیا۔ یہ نیا خون کسی متوسط طبقے سے نہیں، بلکہ ان کے ہی گھر سے ظاہر ہوا ہے۔ یہ ہے ان کی پُرانے چہروں سے نئے چہروں کی تبدیلی کا عمل۔  نظریاتی کارکن اب ان کی اصلیت جان چُکے ہیں اور مستقبل قریب و بعید میں ان کے دھوکے میں آنے کو تیار نہیں ہیں۔ دانیال عزیز‘ ماروی میمن‘ طلال چودھری اور ان جیسے دیگر لوگ تو پھل کھانے والے طوطے ہیں جوں ہی شجرِ شریفیہ کے پھل مُرجھانے لگے‘ یہ پھُر سے اُڑ کر کسی دوسرے سیاسی درخت پر آشیانہ تلاش کر لیں گے اور ماضی کی طرح ان کے پاس کوئی مخلص لیڈر اور کارکن ان کی سیاسی ایمپائر کو بچانے کے لیے موجود نہیں ہوگا۔بلاشبہ ان کے تکبرو غرور اور سیاسی مفاد پرستی کا یقینا یہی منطقی انجام دکھائی دے رہا ہے۔

No comments:

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...