Saturday, March 4, 2017

زہریلا سچ گُلو بٹ کلچر…… کچھ چشم کُشا حقائق .................... نوشاد حمید

       


17 جُون 2014ء کوماڈل ٹائون لاہور میں ایک انسانیت کُش واقعہ رونما ہوا۔ جس نے پُورے پاکستان کو ہلا کے رکھ 
دِیا۔ ریاستی دہشت گردی کا یہ’’ اچھوتا‘‘ واقعہ چودہ معصوم اور نہتے لوگوں کے پولیس کے ہاتھوں درد ناک قتلِ عام پر منتج ہوا۔ اس کے علاوہ سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس وحشیانہ اور بہیمانہ کارروائی کے دوران کیمرے کی آنکھ نے ایک شخص کی جانب سے پولیس کو عوامی تحریک کے لوگوں پر حملے کے لیے اُکساتے ہوئے دیکھااور وہ خود بھی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ میں لگا رہا۔ میڈیا کے واویلا مچانے پر گُلو بٹ نامی یہ شخص گرفتار ہوا اور بالآخر اسے دہشت گردی کی دفعات کے تحت گیارہ سال تین ماہ قید کے علاوہ ایک لاکھ تین ہزار رُوپے جرمانے کی سزا بھی سُنائی گئی۔ لیکن یہ شخص تو متشددانہ سیاست کا ایک چھوٹا سا کِل پُرزہ ہے ، ایسے لوگوںکی باگیں سنبھالنے والے لوگ تو پسِ پردہ ہی رہتے ہیں۔ کچھ دِن قبل اس گُلو بٹ کو سزا پُوری ہونے سے قبل ہی رہا کروا لیا گیا۔ جس سے یہ خوفناک تاثر اُبھر کر سامنے آیا ہے کہ یہ سیاسی غنڈے جو مرضی کرتے پھریں، قانون اور ریاست اُن کے آگے بڑی حد تک بے بس ہوتے ہیں۔
ماڈل ٹائون واقعے کے بعدپاکستانی سیاست میں گُلو بٹ کا کردار متعارف ہوا اور برسراقتدار جماعت کی فسطائی سوچ کی علامت بن کر اُبھرا ہے۔ گُلو بٹ ایک شخص کا نہیں درحقیقت ایک متشدد سیاسی رویئے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو سیاسی مخالفین کو تشدد اور دبائو کے ذریعے کُچلنے پر یقین رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے اپنے عسکری ونگز بنا رکھے ہیں۔ اس حوالے سے سرفہرست جماعت ایم کیو ایم رہی ہے۔ اس جماعت نے بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، مخالفین کو موت کے گھاٹ اُتارنے، پولنگ سٹیشنز میں گھُس کر بیلٹ باکسز چھیننے، اپنی جماعت کے اُمیدوار کے ووٹوں پر ٹھپے لگا نے کا کام بڑے ’’احسن‘‘ طریقے سے سرانجام دیا۔ اس جماعت کے پاس ہزاروں کی تعداد میں منظم ’’گُلو‘‘ موجود تھے۔ جو اپنے قائد کے ایک اشارۂ ابرو پر کراچی کو منٹوں میں بند کروا دیتے تھے۔ کراچی کے ہزاروں معصوم عوام کا خون انہی کے ہاتھوں بہا ہے۔ یہاں تک کہ مشرف کے دور میں کراچی کے ضلعی محکموں میں بھی ہزاروں کی تعداد میں ان پُرتشدد کارکنوں کو بھرتی کروایا گیا۔ یہ ملازم حقیقتاً ’’گھوسٹ ملازمین‘‘ تھے۔ انہیں گھر بیٹھے تنخواہیں مِل جاتی تھیںاور بدلے میں ان سے غیر قانونی اور پُرتشدد کام کروائے جاتے تھے۔ 
مگر یہ سارا عمل ایم کیو ایم تک محدود نہیں ہے، بلکہ مُلک کی دُوسری پارٹیاں بھی اس میں ملوث ہیں۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنے عسکری ونگز بنا رکھے ہیں جن میں گُلو بٹ ٹائپ کے لوگ بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں۔ موجودہ برسراقتدار حکمران جماعت کا دامن بھی انہی تمام گھنائونی حرکات سے آلودہ ہے، جو ایم کیو ایم سے مخصوص تھیں۔ نوے کی دہائی میں سٹوڈنٹس پالیٹکس میں دخل دے کر یوتھ ورکروں کے نام پر گُلو بٹوں کی ایک کثیر فوج تیار کی گئی۔ ان سے ہنگامہ آرائی اور جلائو گھیرائو کا کام بڑے احسن طریقے سے لیا گیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ نواز نے اُس وقت کے مشہور غنڈوں کو بھی اپنے مطلب کے لیے خوب استعمال کیا مگر جب ان غنڈوں کے سیاہ کارنامے خبروں کی زینت بننے لگے تو اپنے ہی پروردہ ان غنڈوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مروا دیا گیا۔ اگر ان غنڈوں کا عدالتی ٹرائل ہو جاتا اور انہیں وعدہ معاف گواہ بنا لیا جاتا تو یقین جانیئے کہ بہت سی نامور اور اعلیٰ سیاسی شخصیات کا کیریئر اپنے انجام کو پہنچ جاتا۔ اسی وجہ سے ان کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔اس لحاظ سے پولیس نے بھی ان کے لیے گُلو بٹ کا ہی کردارادا کیا۔ پنجاب پولیس میں آئی جی سے لے کر ایس ایچ او تک ہر عہدے پر وہی بندہ تعینات کیا جاتا ہے جو حکومتی احکامات کی تعمیل میں ذرا بھی چُوں چرا نہ کرے۔ سیاسی مخالفین کو رگڑا لگانا ہو، کسی کی کروڑوں اربوں روپے کی مالیت کی جائیداد ہتھیانی ہو، اپنی سرپرستی تلے کام کر رہے قبضہ مافیا کو تحفظ دینا ہو، الیکشنز میں جعلی ووٹ بھُگتانے ہوں، مخالف اُمیدواروں کو ہراساں کرنا ہو غرضیکہ اسی نوعیت کے درجنوں کارہائے سیاہ بِلا واسطہ یا بالواسطہ پولیس کے ہاتھوں ہی انجام پاتے ہیں۔ 
   ایک طرف تو عالم یہ ہے کہ نواز لیگ کی موجودہ حکومت میں شامل بیشتر ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی نجی محفلوں میں گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اُن کی اپنی اعلیٰ سیاسی قیادت سے مہینوں کیا سالوں تک ملاقات نہیں ہو پاتی۔ بڑی منتوں اور سفارشوں کے بعد کسی خوش نصیب ارکانِ پارلیمنٹ کو ’’بادشاہ سلامت‘‘ کے دربارِ عالیہ تک رسائی نصیب ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ان گُلو بٹوں کے ساتھ اعلیٰ سیاسی شخصیات براہِ راست رابطے میں ہوتی ہیں۔ یہ گُلو بٹ جو مرضی کرتے پھریں، انتظامیہ یا ارکانِ پارلیمنٹ میں سے کسی کی مجال نہیں کہ ان کی سرزنش یا سرکوبی کر سکے۔ بلکہ کئی ارکانِ اسمبلی تو اپنے مطالبات منوانے یا کام پُورے کروانے کے لیے ان گُلو بٹوں کو سفارش کنندہ بنانے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔  پولیس، ضلعی و صوبائی انتظامیہ ان کے اشاروں پر چلتی ہے۔سب سے خوفناک پہلو تو یہ ہے کہ بہت سے گُلو بٹ کالعدم تنظیموں سے جُڑے ہیں اور فرقہ ورانہ تشدد کے واقعات میں ملوث ہیں مگر چونکہ ان کا علاقے میں اثر و رسوخ ہوتا ہے اور یہ الیکشن کے موقع پر انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی بھرپور ’’صلاحیت‘‘ رکھتے ہیں، اس وجہ سے انہیں کھُل کھیلنے کی پُوری آزادی ہے۔ نوبت ایں جا رسید کہ ایسے فرقہ پرست گلوئوں کی ’’گراں قدر مُلکی و قومی خدمات‘‘ کے صلے میں اُنہیں صوبائی اور قومی اسمبلی کے الیکشنز میں ٹکٹ دے کر اسمبلی میں براجمان کیا جا چکا ہے۔ حکمران جماعت تمام محکموں میں گلوئوں کی افزائش میں ’’کامیاب‘‘ نظر آتی ہے۔
عوام کے ساتھ سب سے بڑا ستم بھی تو یہ ہے کہ ان مطلق جاہل اور بدتہذیب گلوئوں کو برسراقتدار حکمرانوں کی جانب سے مختلف محکموں میں کھپایا جاتا ہے۔ سالہا سال یہ بغیر کسی عوامی خدمت کے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں اور بدلے میں حکمرانوں کے غیر آئینی و غیر اخلاقی سیاسی و ذاتی مفادات کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں۔ اس قماش کے لوگوں کی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ کئی اپنی ملازمتوں سے ریٹائر ہو چکے ہیں مگر اب تک سرکاری رہائش گاہوں پر قابض رہ کر کئی حقداروں کی حق تلفی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ 
نواز شریف کے دوسرے دورِ اقتدار میں حکومت کی عدلیہ کے ساتھ اختیارات کے معاملے پر ایک رسہ کشی شروع ہوئی۔ اُس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ہٹانے اور اُن کی کردار کُشی کے لیے ہر حربہ آزمایا گیا۔ اور جب بات بنتی نظر نہ آئی تو انہی گُلو بٹوں کے ذریعے سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا گیا۔ چیف جسٹس بمشکل ان سیاسی غنڈوں کے ہاتھوں اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے اور انہیں جب اندازہ ہو گیا کہ عدلیہ سیاسی غنڈوں کے ہاتھوں کس حد تک بے بس اور یرغمال ہو چکی ہے تو انہوں نے کنارہ کرنے میں ہی عافیت جانی۔
لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دُہرانے کو ہے۔ پاناما کیس اپنے منطقی انجام کی طرف تیزی سے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکمران خاندان کے سیاسی اقتدار کی نیّا ڈُوبنے کے قریب ہے۔ منی ٹریل کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت مہیا نہ کرنے پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ حکمران اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ان کے رویوں میں تلخی اور سختی بڑھتی جا رہی ہے اور ہر مقدس ادارے کی پامالی کا واضح اشارہ دیا جا رہا ہے۔ حالیہ دِنوں قومی اسمبلی میں بھی حکومتی ارکان نے پانامہ لیکس کے معاملے پر انتہائی جارحانہ انداز اپنایا اور بات ہاتھا پائی اور گالم گلوچ تک جا پہنچی۔ حالانکہ اپوزیشن کا مطالبہ یہی ہے کہ نواز شریف ایوان میں تشریف لا کر وضاحت کریں کہ اُن کا اسمبلی میں منی ٹریل کے حوالے سے دیا گیا بیان درست ہے یا پھر عدالت میں اُن کے وکیل کی جانب سے اپنایا گیا موقف۔ بظاہر تو نواز شریف خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کے دعوے کر رہے ہیں اور اپوزیشن بھی عدالتی فیصلے کو ماننے کی باتیں کر رہی ہے مگر حقیقت میں دونوں فریقین کے بیانات اور رویوں میں واضح تضاد نظر آ رہا ہے۔ صورتِ حال بہت واضح ہو چکی ہے۔ بازی اپنے ہاتھوں سے نکلتے دیکھ کر حکومت نے عدلیہ کو متنازعہ بنانے اور اس کی تضحیک و توہین کا ارادہ بنا لیا ہے۔ اس بات کا واضح امکان ہے کہ ایک دفعہ پھر ’’عوامی غیظ و غضب کے سیلاب‘‘ کے نام پر حکومت کے پروردہ گُلو بٹوں کو سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کے لیے تیار رہنے کا اشارہ مِل چُکا ہے۔گُلو بٹ کی رہائی مسلم لیگی کارکنوں کو اعلیٰ قیادت کی جانب سے اس بات کا پیغام ہے کہ وہ کھُل کھُلا کر حکومتی اشاروں پر متشدد کارروائی کریں، حکومت اُنہیں گُلو بٹ کی طرح ہر ممکن قانونی معاونت اور تحفظ بھی فراہم کرے گی۔ لگتا ہے کہ حکومت اس بات کے لیے بھی تیار ہے کہ سیاسی طور پر اتنی بے چینی اور ابتری کا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ والی صورتِ حال پیدا ہو جائے۔ اگر اقتدار نواز لیگ کے پاس نہیں رہتا تو کسی اور سیاسی جماعت کے لیے بھی مستقبل میں حکومت بنانے کا امکان نہ رہے۔ موجودہ سیاسی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے عدلیہ کو بھی اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے محتاط رہنا ہو گااور ناکافی سیکیورٹی انتظامات کو بڑھانے کے لیے پولیس کی بجائے کسی اور مُلکی سیکیورٹی کے ادارے سے مدد مانگ کر وہاں پر زیادہ نفری تعینات کروانی ہو گی۔ کیونکہ آج مُلک کی سیاسی تاریخ ایک انتہائی فیصلہ کُن موڑ پر کھڑی ہے۔ ماضی میں عدلیہ کو اُس کے فیصلوں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یقیناً آج ایک آزاد اور انصاف پسند عدلیہ کام کر رہی ہے جو کسی سیاسی دبائو کے اثر سے آزاد ہو کر ایسا فیصلہ کرے گی جس سے مُلک میں انصاف کا بول بالا ممکن بنانے میں بہت کامیابی حاصل ہو گی۔

No comments:

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...