Sunday, April 16, 2017

مصنوعی انقلاب............نوشاد حمید ............... زہریلا سچ




کچھ عرصہ قبل تُرکی میں حکومت مخالف اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش ناکامی سے دو چار ہوئی۔ اس سازش میں فوج کے کچھ عناصر بھی شامل تھے۔ تُرک وزیر اعظم رجب طیب اُردوان کی درخواست پر عوام لاکھوں کی تعداد میں باہر نکلے۔ ٹینکوں اور گولوں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی گولیوں کے آگے سینہ سپر ہو گئے۔ اس فوری عوامی ردِ عمل کے باعث یہ بغاوت کامیابی نہ پا سکی۔ پُوری دُنیا میں جمہوریت پسند طاقتوں کی جانب سے اس جرأت مندانہ اقدام کو بہت پذیرائی مِلی۔ جو کہ دُنیا کی تاریخ میں ایک انوکھی مثال ہو ٹھہری۔عوامی جذبے اور جرأت کو جتنا سراہا جائے، اُتنا کم ہے۔ پاکستان کے ’’جمہوریت پسند حکمرانوں‘‘ نے بھی اپنے خاص الخاص دوست اُردوان کو حکومت کے بچ جانے پر بہت مبارک باد دی۔
اس وقت مملکتِ پاکستان بھی ایک ممکنہ انقلابی صورتِ حال کے دو راہے پر کھڑی ہے۔ مُلک کے کرپٹ مافیا کے خلاف فیصلہ عنقریب آنے والا ہے۔ بدقسمتی سے فیصلے میں غیر معمولی تاخیر کے باعث سوشل میڈیا پر ناجائز طور پر عدلیہ کے کردار پر اُنگلیاں اُٹھائی جا رہی ہیں۔ بہت سے شکوک و شبہات کو ہوا دی جا رہی ہے۔ یقینا ہماری معتبر عدلیہ کو جس نے ابھی فیصلہ سُنانا ہے، اُس کی ساکھ کو متاثر کرنا کوئی اچھا عمل نہیں ہے۔ بہرحال ہر طرف تبصروں کا ایک بازار گرم ہے۔
جو لوگ نواز شریف کے مزاج سے واقف ہیں اُن کی قیاس آرائیاں یہ ہیں کہ حکومت اپنے خلاف فیصلے (جس کا قوی امکان ہے) کو کسی طور تسلیم نہیں کرے گی۔ اس کے لیے ساری عدلیہ کو متنازعہ اور متعصب ثابت کرنے کے لیے اندرونِ خانہ بھرپور تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے کچھ دِن قبل ایک بیان دیا تھا کہ ایسا فیصلہ دیں گے جو تاریخی ہو گا۔ ’تاریخی‘ سے یار لوگوں نے یہ تاویلیں گھڑنی شروع کر دی ہیں کہ فیصلہ مبینہ طور پر حکومت کے حق میں نہیں ہو گا۔ اس وقت حکومتی ایوانوں میں بھی کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ کسی ’’انہونی‘‘ کو روکنے کے لیے ہر سطح پر دائو پیچ لڑائے جا رہے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ محاذ آرائی کو اب ’’آر یا پار‘‘ کی حد پہ لے جانے کا اختتامی مرحلہ اپنے آغاز کو ہے۔
نواز شریف ایک انتہائی ضدی اور انا پرست شخصیت کا نام ہے۔ موصوف نے کبھی بھی اداروں کو احترام نہیں دیا۔ ماضی پر نظر دوڑائیں تو یاد ہو گا کہ نواز لیگ بارہا عدلیہ کی توہین کی مرتکب ہوئی اور ججوں کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ اپریل 1996ء میں جب بے نظیر حکومت کی جانب سے شہباز شریف کو اُن کے خلاف کیسز کی سماعت کے سلسلے میں اسلام آباد کچہری کے عدالتی حکم کے تحت اُنہیں اڈیالہ جیل میں بند کرنے کا حکم دیا گیا تو پہلے سے بڑی تعداد میں موجود نواز لیگی غنڈوں نے پوری کچہری میں مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ پوری کچہری میں بھاگم بھاگ مچ گئی۔ یہاں تک کہ آس پاس کی دُکانوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ دُکانداروں اور علاقہ مکینوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں۔ اسی طرح پلاٹوں کی کرپشن کے معاملے میں نواز شریف کے خلاف چل رہے کیس کی سماعت کے دوران بھی لاہور ہائی کورٹ میں نواز لیگی گلوئوں نے توڑ پھوڑ کی۔ اور پھر ان کے دوسرے دورِ حکومت میں سپریم کورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں منظم گلوئوں کی غنڈہ گردی کی واردات میں معزز جج صاحبان اور سپریم کورٹ کے دیگر سٹاف کے ساتھ کیا بیتی، سب کو علم ہے۔ اس لیے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ اس وقت معاملہ نواز شریف کی سیاسی بقاء کا نہیں تھا، صرف اُن کی انا کا تھا۔ فوجی عدالتوں کے قیام کو اُنہوں نے آئینی معاملے سے زیادہ اپنی عزت، ذِلّت کا مسئلہ بنا رکھا تھا۔انہوں نے اپنی دھونس اور غنڈہ گردی سے عدلیہ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے پورے ملک پر اپنی دہشت قائم کر دی۔ عدلیہ کو اس حد تک دبائو میں لایا گیا کہ چیف جسٹس کو عہدے سے ہٹنا پڑا۔
قارئین کرام! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نواز شریف کا کچھ بھی دائو پر نہیں لگا تھا، تب اتنا ہنگامہ برپا کیا گیا۔ اب تو نواز شریف کی سیاسی موت اور زندگی کا مسئلہ آن کھڑا ہوا ہے۔ کیا وہ ’’خاموشی‘‘ سے بیٹھے فیصلے کا انتظار کر رہے ہوں گے؟ جی نہیں، یہ نواز شریف کی فطرت کے خلاف ہے۔ حکومت نے تمام غنڈہ گرد عناصر کوسٹینڈ بائی پر رکھ لیا ہے۔ اس وقت دھڑا دھڑ نوٹیفیکیشنز جاری کیے جا رہے ہیں۔ جن بیچارے حکومتی ایم این ایز اور ایم پی ایز کو یہ جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، انہی کو رام کرنے کی خاطر گیس کنکشنز اور نوکریوں پر بھرتی سے پابندی اُٹھا لی گئی ہے۔ عنقریب قرضہ سکیم کا اجراء بھی ہونے والا ہے، جیسا کہ ماضی میں سپریم کورٹ پر حملے سے ایک روز قبل ہوا تھا۔ پنجاب پولیس پر اپنا کنٹرول بحال رکھنے کی خاطر پولیس کے گلو بٹ ، بدنام ِ زمانہ سابق آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کو ایڈوائزر تعینات کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ مستقبل کی سیاسی ہنگامہ خیزی کا پیش خیمہ ہے۔ عوام کسی خوش فہمی میں نہ رہیں۔ یہ نوکریوں، کنکشنز اور قرضوں کی ترغیب و تحریص صرف روٹھے ہوئے ورکرز کو لُبھانے کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔ دُنیا میں بڑے بڑے معاشی، سیاسی اور سماجی انقلاب آئے ہیں۔ مگر نواز لیگ ایک ایسے ’’مصنوعی انقلاب‘‘ کی تیاری میں جُٹی ہوئی ہے جو عوام کی بجائے چند ہزار گلوئوں کی تخریبی کارروائیوں کی مدد سے برپا کیا جائے گا اور اس بات کا بھی قومی امکان ہے کہ چند لیگی ورکرز سیاست کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا کر کے عوام کی ہمدردیاں سمیٹ لی جائیں۔ یہ دُنیا کا ایسا اکلوتا اور انوکھا انقلاب ہو گا جسے حکومتِ وقت کی تائید اور ہلہ شیری حاصل ہو گی۔ اس انقلاب میں’’ عوام‘‘ فوج یا دیگر بیرونی طاقتوں کے خلاف نہیں بلکہ خود اپنی ہی عدلیہ کے ’’ظالمانہ اور غیر منصفانہ’’ فیصلے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس دفعہ’’پُرامن‘‘ احتجاج کا دائرہ سپریم کورٹ کی چار دیواری سے بڑھ کر گلی کوچوں تک پھیلا دیا جائے گا۔ایک ایسی فضا بنا دی جائے گی جس میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر یہی تاثر دیا جائے گا کہ نواز شریف پاکستان کی تاریخ کا مقبول ترین سیاسی لیڈر ہے اور نواز شریف کی عدالتی نااہلی کے پیچھے کچھ ایسی بین الاقوامی طاقتوں کا ہاتھ ہے جنہیں اس کے دور میں ہونے والی ’’بے پناہ‘‘ معاشی ترقی ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔ عدالتی فیصلے کو عوامی مینڈیٹ کی توہین اور مُلکی خوشحالی و ترقی کے خلاف ایک عظیم سازش بنا کر پیش کیا جائے گا۔اور پھر ’’عوامی خواہش اور غیظ و غضب ‘‘ کا احترام کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں ایک این آر او لا کر نواز شریف کی کرپشن کو تحفظ دیا جائے گا۔
حکومت نے اپنے شرمناک عزائم کی تکمیل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیا ہے۔ میڈیا پرسنز کی ایک بڑی تعداد کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے مبینہ طور پر بولیاں لگ رہی ہیں۔ عوام کے ذہنوں کو نشریاتی یلغار سے مغلوب کرنے کے تمام بندوبست ہو چکے ہیں۔  نواز شریف کے پاس اب اس کے علاوہ اور کوئی آپشن بچا بھی نہیں۔ وہ اپنی معزولی کے بعد اپنی بادشاہی اپنی اولاد میں سے بھی کسی کو منتقل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ اُن کا تمام خاندان اس وقت پاناما کیس کی لپیٹ میں ہے۔ مریم نواز ہو یا دونوں سپوت، کسی کو بھی آگے لانے پر مخالفین عدالت میں چلے جائیں گے۔اسی باعث پاناما لیکس کا فیصلہ ریاست کی عدالت عالیہ کی بجائے ’’عوامی عدالت‘‘ سے لے کر سُرخرو ہونے کا پلان ہے۔
یہ ہے وہ ممکنہ سیاسی منظر نامہ، جو اگلے کچھ دِنوں میں تشکیل پانے والا ہے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کی اس پُوری صورتِ حال پر گہری نظر ہے۔ یقینا ماضی میں عدالتوں پر کی جانے والی یلغاریں بھی ان کے ذہن میں ہوں گی۔ راقم نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں بھی یہی کہا تھا کہ سپریم کورٹ کو اپنے جج صاحبان کے تحفظ اور عمارت کی سیکیورٹی کی خاطر فوج سے بھی مدد لینی پڑے ، تو دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ پنجاب اور وفاق کی سیاست زدہ پولیس سپریم کورٹ کی محافظ کا نہیں، بلکہ حملہ آوروں کی پشت پناہی میں معاون کا کردار ہی نبھائیں گی۔ آثار یہی ہیںکہ ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ پر حملے کی تاریخ دُہرائی جائے گی۔
یہ تو تھیں حکمرانوں کی تیاریاں، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ اس بار نواز شریف اللہ کی پکڑ میں آیا ہے اور اللہ اپنے فیصلوں کے نفاذ پر مطلق قادر ہے۔ آج کی عوام 1990ء کی دہائی کی سادہ لوح عوام نہیں ہے۔ یہ عوام تعلیم یافتہ اور جمہوری اقدار سے روشناس ہے۔ نواز اینڈ کمپنی کی ساری تیاریاں اب کی بار دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ یہ قوم نواز شریف کو ’’خود ساختہ جلاوطنی‘‘ کے نام پر اب کی بار بھاگنے نہیں دے گی اور نہ ہی قومی خزانے کو لُوٹنے کے صلے میں دوبارہ اقتدار پر براجمان کرے گی۔ ان کے برپا کردہ مصنوعی انقلاب کے سامنے عوامی غیظ و غضب کا حقیقی انقلاب گلو ازم اور چمک کی سیاست  کے خس و خاشاک کو ایک ہی ریلے میں بہا کر لے جائے گا۔ 


No comments:

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...