Wednesday, April 12, 2017

مالِ مُفت، دلِ بے رحم............نوشاد حمید................. زہریلا سچ





معروف روایت ہے کہ ایک دفعہ نوشیروان عادل کے قافلے نے کسی گائوں کے باہر ڈیرہ ڈالا۔ کھانے کے سلسلے میں نمک کی ضرورت پڑی ۔ ایک ملازم نمک کے لیے گائوں میں جانے لگا تو نوشیروان نے کہا کہ نمک قیمتاً لے کر آنا۔مشیروں نے کہا کہ چُٹکی بھر ہی تو لانا ہے پھر قیمت ادا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ نوشیروان عادل نے جواب دیا، اگر بادشاہ رعایا کے باغ سے ایک سیب مفت کا توڑتاہے تو اُس کے وزیر مشیر پُورا باغ ہی اُجاڑ دیتے ہیں۔ یہیں سے قوموں میں بے انصافی اور ظلم و زیادتی کی شروعات ہوتی ہے۔ خیر یہ بات تھی ’’غیر جمہوری دور‘‘ کے ’’بادشاہ‘‘ کی۔ ذرا اب تیسری دُنیا میں جمہورکی مرضی اور ووٹوں کی طاقت سے منتخب ہونے والے لیڈروں اور اُن کی ماتحت انتظامیہ کا بھی ذکر ہو جائے۔
کچھ روز قبل الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کا بڑا چرچا ہوا جس میں پنجاب پولیس کے سبکدوش ہونے والے آئی جی مشتاق سکھیرا کے زیر تعمیر گھر کے باہر پولیس کی گاڑیاں سیمنٹ بجری اور دوسرے تعمیراتی میٹریل سے لدی دکھائی گئیں۔ بڑا شور شرابا ہوا۔ بڑی لے دے ہوئی۔ پر ہونا کیا تھا، کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ یہ آئی جی تو عوام کے خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف کے خاص الخاص آدمی ہیں۔آلِ شریف کی سلطنت کو دوام بخشنے اور اس کی راہ میں حائل سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کی ’’بیخ کُنی‘‘ میں ان کا کردار ’’ایوانِ شریفیہ‘‘ میں مُدت تک فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ ان کی عظمت کو سلام کہ انہیںجس ’بلند پایہ مقصد‘ کی تکمیل کے لیے لایا گیا تھا، وہ انہوں نے بحُسن و خوبی نبھایا۔ حیرت اس بات پر ہوئی ہے کہ جس سب کچھ پر شور و غوغا برپا ہوا، وہ تو اصل کا عشر عشیر بھی نہیں۔ ان کی ’بے پایاں قومی و مِلی‘ خدمات کے صلے میں جو کچھ انہیں مِلا ہے اورمستقبل قریب میں مِلنے والا ہے وہ تو ابھی آگے چل کرافشا ہو گا۔ماڈل ٹائون ہو، بلدیاتی انتخابات ہوں، قبضہ مافیا کے تحفظ کی بات ہو یا پولیس ملازمتوں کی بندر بانٹ، سابق آئی جی کی ’شفافیت‘ سے تو ایک عالم واقف ہے۔ فی الوقت یہ موضوع نہیں ہے۔ یہاں تو یہ بات بتانا مقصود ہے کہ نوشیروان عادل کی مثال اُلٹی پڑ گئی ہے یعنی باغ درباریوں نے نہیں اُجاڑا، جمہوری بادشاہوں نے اُجاڑا ہے۔ درباریوں کو تو جو کچھ مِلا ہے، وہ تو بس ’’جھُونگا‘‘ ہے۔موجودہ افسر شاہی کی کرپشن کے اصل کھُرے جہاں تک جا پہنچتے ہیں، اُن کا تو ابھی ایک آدھ پانامہ کیس ہی کھُلا ہے، ابھی تو ایسے سینکڑوں معاملے پردۂ اخفا میں پڑے ہیں۔ اگر آدھے معاملے بھی باہر آ جائیں تو لوگ انگشت بدندان رہ جائیں۔
سابق آئی جی کی’ کرپشن‘ کو اُچھالنے والے میڈیا کو شاید علم نہیں کہ موجودہ حکمران کس کس انوکھے اور جدید اندازِ رہزنی سے عوام کی خون پسینے کی کمائی دونوں ہاتھوں سے لُوٹ رہے ہیں۔ اپنی عدم کارکردگی کو کروڑوں رُوپے اشتہارات پر خرچ کر کے ’کارکردگی‘ کے رُوپ میں دکھانا ان کی عوامی سیاست کی معراج ہے۔ عوام اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ شریف خاندان قومی خزانے پر کس قدر بے پناہ بوجھ بنا بیٹھا ہے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد جب سے پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت قائم ہوئی،اُس وقت سے لے کر اب تک جبکہ یہ وفاقی حکومت پر بھی قابض ہو چکے ہیں، انہوں نے سرکاری وسائل کا اپنے اللّوں تللّوں پر بے رحمانہ استعمال کیا ہے۔ ان کا ’سادگی‘ کا نعرہ ایک کھُلا ڈھونگ ہے۔ سرکاری دفاتر میں مہمانوں کی خاطر تواضع میں سادگی کے احکامات ہوں یا پھر ایئرکنڈیشنرز کا مخصوص اوقات میں استعمال، یہ صرف دوسروں پر لاگو ہوتے ہیں۔ خود ان کے ہاں کیا صورتِ حال ہے، لوگ اس سے بے خبر ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہائوس جہاں تمام مہمانوں بشمول ایم این ایز ،ایم پی اے صاحبان و افسران کو کھانا دینے کی مناہی ہے، اُسی وزیر اعلیٰ ہائوس کے کچن سے روزانہ لاکھوں رُوپے کے پُرتعیش اور مہنگے کھانے تیار ہو کرشریف برادران کے جاتی عمرہ اور دیگر رہائشی مقامات پر پہنچائے جاتے ہیں۔ ’’شاہی خاندان‘‘ کے لیے ہر روز سپیشل ’فوڈ سکواڈ‘ خصوصی گاڑیوں میں سوار ’سادہ‘ کھانے منزلانِ مقصود پر مہیا کرنے کے لیے ہمہ دم مستعد ہوتا ہے۔ ’’کرپشن فری حکومت‘‘ کا جھوٹا راگ الاپنے والے شریف خاندان نے 2008ء سے لے کر آج تک اپنی جیب سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ جاتی عمرہ و دیگر مقاماتِ شاہیہ کی تمام تر تزئین و آرائش ، قیام و طعام کے جملہ اخراجات عوامی خزانے سے ہی کیے جا رہے ہیں۔ اس خاندان نے اپنی تمام ذاتی رہائش گاہوں کوحکومت کے کیمپ آفس کا درجہ دے رکھا ہے۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان مقامات پر جو ہر وقت ورکروں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے، اُن پر خرچ آنے والی تمام رقوم کا بھُگتان بھی عوام کوبھُگتنا پڑتا ہے۔ دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کی حد تو دیکھیے کہ پنجاب کے سپوتِ اول کے لیے تعمیر کردہ گھر کو بھی کیمپ آفس قرار دے کر مبینہ طور پر یہاںپر سرکاری خزانے سے متوالے بھرتی کیے جا رہے ہیں اور کوئی آواز اُٹھانے والا نہیں۔ کیا مُلکی آئین و قانون میں ذاتی و جماعتی مفادات کی تکمیل کے لیے سرکاری خزانے کے اس بے دریغ استعمال کی اجازت دی گئی ہے؟ مذہب پرستی شریف برادران کا ایک لبادہ ہے جس کی آڑ میں وہ یہاں کے عوام سے جذباتی طور پر کھیلتے ہیں۔ ان کی سعودی عرب سے قُربت کی وجہ ان کی اسلام پسندی نہیں بلکہ اپنی بے انتہا کرپشن کو عوام کی نظروں میں ’مذہبی استثناء‘ دلوانے کی ایک چال ہے۔
پنجاب حکومت کے ہر محکمے میںکلیدی عہدے پر صرف وہی افسر تعینات ہوتا ہے، جو ان کا منظورِ نظر ہو اور ان کے قومی خزانے کو لُوٹنے کے ’عزم‘ کی راہ میں حائل نہ ہو۔ میرٹ ان کے پائوں کا مال ہے، جسے یہ جب چاہیں، جتنا چاہیں روند لیتے ہیں۔ اسی سرکاری خزانے سے ہی یہ قومی و بین الاقوامی سروے کمپنیز کے نمائندوں کو خرید کر اپنی ’گڈ گورننس‘‘ کے چرچے کرواتے ہیں۔ اپنی معاشی ایمپائر کو فروغ دینے کے ایجنڈے میں معاون اورمستعد افراد پر یہ سرکاری خزانوں کی بوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ جس دِن یہ اقتدار سے الگ ہوں گے، اُس دِن عوام کو صحیح معنوں میں اندازہ ہو گا کہ مُلکی کارپوریشنز و ادارے کس حد تک گردشی قرضوں کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ بین الاقوامی قرضوں کا حجم کس خوفناک حد کو چھونے لگا ہے اور یہ بھی جان جائیں گے کہ کیوں پنجاب میں صحیح معنوں میں دہشت گردی کی بیخ کنی نہیں کی جا سکی۔ کیونکہ میرٹ کو پامال کرتے ہوئے پولیس میں اعلیٰ عہدوں پر وہ لوگ تعینات فائز کیے جاتے ہیں جو شریف خاندان کی جوتیاں سیدھی کرنے میں لگے رہیں۔ جن کا فرضِ منصبی صرف جاتی عمرہ اور ماڈل ٹائون و دیگر مقاماتِ شریفیہ پر زیادہ سے زیادہ سیکیورٹی تعینات کروا کے ’’عوام کے جان و مال‘‘ کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو۔جہاں پولیس کے ہزاروں اہلکارایک مخصوص سیاسی قبضہ گروپ کے اہل و عیال کی حفاظت پر مامور کر دیے جائیں تو عوام کے ساتھ ڈکیتی، راہزنی، چوری چکاری، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافے پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔
لوگوں کو اسلامی شعائر کی پابندی کا درس دینے والے شریف خاندان کو بتایا جائے کہ اسلامی نظام تو وہ ہے جس میں ایک عام بدو بھی اُٹھ کر لاکھوں کلو میٹر رقبے پر پھیلی اسلامی ریاست کے خلیفہ کا مواخذہ کر سکتا تھا۔ دُنیا کا کونسا مذہب، قانون، آئین اور اخلاقی نظام ریاستی وسائل کو لُوٹ کا مال سمجھ کر اپنے اعزہ و اقارب اور خاص لوگوں پر خرچنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ لوگ تو زکوٰۃ فنڈ اور بیت المال کے مقدس پیسے کو بھی معافی دینے کو تیار نہیں۔ بیچارے عوام مذہب کی محبت میں ایک مقدس فریضے کی تکمیل کے لیے زکوٰۃ کٹواتے ہیں اور اُن کا مال بے شرمی سے یہ لوگ اپنے کارندوں، چیلوں چانٹوں اور دیگر سیاسی اللوں تللوں پر اُڑاتے ہیں۔
مگر ہم عوام، خوابیدہ لوگ، سیاسی شعور سے نابلد، اسلام کی سماجی و معاشی اقدار سے ناشناس، مغربی جمہوریت کے زیورِ حُسن سے تہی… افلاس کے گڑھوں میں گِرے، اربوں کی کرپشن سے بنی چند کلومیٹر کی سڑک کو ہی خوشحالی کی علامت سمجھ کر اپنی تقدیر پر قانع، فیس بُک پر حکمرانوں کے لیے چند کلماتِ بیزاری کو ہی ’’عظیم سیاسی جدوجہد‘‘ گردانتے، لوڈشیڈنگ کے بعد بجلی کے لوٹ آنے کو حکمرانوں کا بے پایاں احسان مانتے… ہم لوگ، ہمارا مقدر یونہی ہے، یونہی رہے گا۔ کیونکہ جسموں کے ساتھ بندھی زنجیروں والے غلام تو بالآخر آزاد ہو جاتے ہیں مگر ضمیر اور شعور کے روزن خود بند کر لینے والے خوشحالی کی دھوپ سے ہمیشہ محروم ہی رہتے ہیں۔

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...