Tuesday, April 11, 2017

قومی نعرہ........................... زہریلا سچ.......................نوشاد حمید



پاکستان کی مُلکی تاریخ میں بہت سے نعروں نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا۔ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، 
ضیاء الحق، غلام اسحق خان اور کئی دیگر شخصیات کے خلاف دلچسپ نعرے گھڑے گئے، جن سے یہ بلند پایہ لیڈران بہت بار نہ صرف زِچ ہوئے، بلکہ کئی نعروں کی مقبولیت حکمرانوں کی عدم مقبولیت اور بالآخر اقتدار سے علیحدگی پر منتج ہوئی۔ لیکن ایک نعرہ ایسا ہے جس نے مقبولیت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ’’گو بابا گو‘‘ ’’گو مشرف گو‘‘ اور ’’گو زرداری گو‘‘ جیسے نعروں کی مقبولیت اس نعرے کے آگے بالکل ماند پڑ گئی ہے۔ جی ہاں یہ نعرہ ہے ’’گو نواز گو‘‘ جو ہر پاکستانی کی زبان پر موجود رہتا ہے۔اس نعرے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ آر اوز الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی ’’ہر دلعزیزی‘‘ کی قلعی چند مہینوں میں ہی اُس وقت کھُل کر سامنے آ گئی جب عوام کو پتا چلا کہ پُورا انتخابی عمل ہی مشکوک تھا۔ پانچ پانچ ہزار ووٹ والے پولنگ اسٹیشنوں پر ’فرشتوں‘‘ نے پندرہ پندرہ ہزار ووٹ کاسٹ کر دیئے۔ عمران خان نے ابتدا میں صرف چار حلقوں میں کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی جانچ کا مطالبہ کیا۔ مگر نواز لیگی حکومت بھلا اپنی ’کامیابی‘ کا بھید کیسے آسانی سے پتا لگنے دیتی۔کیونکہ ایک حلقے کے اصلی نتائج سامنے آ جانے پر ہی سارا انتخابی عمل مشکوک ٹھہر جاتا۔ نواز لیگ کی ہٹ دھرمی کے باعث عمران خان نے اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا۔ اگر 16 دسمبر 2014ء کو سانحہ آرمی پبلک سکول رونما نہ ہوتا، تو عمران خان یقینا دھرنے کو جاری رکھ کر اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جاتا۔ اگرچہ دھرنا ختم ہو گیا لیکن اسی دھرنے نے قوم کو ’’گو نواز گو‘‘ جیسے دل نشیں اور مسحور کُن نعرے سے نوازا۔
رفتہ رفتہ یہ نعرہ مُلکی سرحدیں پھلانگ کر ایک بین الاقوامی نعرہ بن چکا ہے ۔ شریف برادران امریکا جائیں یا لندن، فرانس جائیں یا جاپان، چین جائیں یا دوبئی۔ ہر مقام پر اُن کا استقبال اس ’’قومی‘‘ نعرے سے کیا جاتا ہے۔ اور پردیس میں تو ان کی بے بسی دیدنی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہاں پر اینٹی نواز نعرے لگانے والوں کو حکومتیں گرفتار نہیں کرتیں، نہ وہاں پر پاکستان کی طرح نعروں کے ذریعے کتھارسس کرنے والوں کو مار پیٹ اور دھونس دھمکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ درحقیقت اس نعرے کی بدولت پاکستانی قوم کا بہت بڑا فائدہ ہوا ہے۔ کیونکہ اس نعرے کے متعارف ہونے سے پہلے نوا ز شریف نے مُلک کو معاشی ترقی دینے کا جھانسہ دے کر دُنیا بھر کے مُلکوں میں فیملی سمیت سیر سپاٹوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔ آئے روز عوام کی خون پسینے کی کمائی سے اکٹھے ہونے والے ٹیکسز کی مد سے بیرونِ مُلک تفریح اور عیاشی کا یہ غیر مختتم سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ مگر جب بیرونِ مُلک شریفوں کے دوروں کے دوران ’’گونواز گو‘‘ کے نعرے لگنے لگے تو ان کے سیر سپاٹوں کو بھی لگام پڑ گئی اور مستقبل کے ممکنہ بیرونی دوروں سے عوام کو جو اربوں روپے کا ٹیکا لگنا تھا، اس سے جان بچ گئی۔
اس نعرے کو قوم کے دِلوں کی دھڑکن بنانے کا کریڈٹ بلاشبہ تحریکِ انصاف کو جاتا ہے۔ جس کے بعد دُوسری اینٹی نواز قوتوں نے بھی اس کو اپنا لیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ شریف فیملی نے سرکاری و غیر سرکاری تقریبات میں اس نعرے کے خوف سے شرکت کرنا تک چھوڑ دی ہے۔مُلکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ حکمرانوں کی موجودگی کے بغیر ہی سکول کالجز کی تقریبات ، لیگی ورکروں کے کنونشنز ، سیمینارز اور ثقافتی و ادبی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔ یہ ہے عوام کا اپنے حکمرانوں پر اعتماد اور حکمرانوں کی اپنے ’’ووٹرز‘‘ عوام سے خوف زدگی کا عالم۔جو لوگ صحیح معنوں میں عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آتے ہیں، اُنہیں کوئی ڈر خوف نہیں ہوتا۔ اگر معاشرے کی کوئی سیاسی اقلیت برسراقتدار حکمرانوں پر طعنہ زن ہوتی ہے تو اُن کے حامیوں کی بڑی گنتی خود ہی جمہوری اور سیاسی طریقے سے ان حکومت مخالف قوتوں کو جواب دے دیتی ہے۔ مگر یہاں تو ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ حاصل کرنے والے بالکل بے بس نظر آ رہے ہیں۔ اتنی غیر مقبول تو ماضی کی فوجی حکومتیں بھی نہیں رہیں، جتنی شرمندگی موجودہ حکمرانوں کے حصّے میں آ رہی ہے۔ لگتا ہے جیسے موجودہ حکمرانوں کا تعلق کسی دوسرے سامراجی مُلک سے ہے اور کسی غیر مُلک پر قابض ہونے کے باعث انہیں اس قدر مخالفت اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اگر کبھی اتفاقاً کسی تقریب میں شریف فیملی کا کوئی ممبر موجود ہو تو وہاں بھی لوگ اتنی بے خوفی سے ’’ گو نواز گو‘‘ کی صدا بُلند کر دیتے ہیں کہ جیسے یہ نعرہ شریفوں کی مخالفت میں نہیںبلکہ حمایت میں لگایا جا رہا ہے۔پاکستان میں جہاں بھی چلے جائیں، کہیں دیواروں پر، کہیں گاڑیوں پر، کہیں اشتہاروں پر ، تفریحی مقامات پر، یہاں تک کہ عوامی بیت الخلائوں میں بھی یہی ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ دیکھنے کو مِلتا ہے۔ شریف حکومت کے حواری لاکھ کوشش کرتے ہیں کہ جن تقریبات میں شریف برادران شریک ہوں، وہاں ان کے خلاف نعرے بازی نہ ہو۔ اس کا آسان حل انہوں نے یہ نکالا کہ جلسہ گاہوں کو پٹواریوں، حکومتی ملازموں، غیر سیاسی اور سول ایجنسیز کے اہلکاروں سے بھرنا شروع کر دیا۔ عوام الناس کی شرکت ان تقریبات میں ختم ہی ہو گئی۔ پھر بھی دُنیا دیکھتی ہے کہ ان دیکھی طاقتیں یہ نعرہ بلند کر ہی دیتی ہیں۔ شریف برادران اتنے خوفزدہ ہیں کہ اپنے ہی تعینات خاص الخاص افسروں اور انتظامی کارندوں کے ساتھ میٹنگز کا انعقاد بھی ویڈیو لنکس کے ذریعے کرتے ہیں۔ کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے کہ جس پارلیمنٹ نے انہیں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ منتخب کیا ہے، یہ اُس کے ایوانوں میں سالہا سال شرفِ دیدار دینا پسند نہیں کرتے۔ کیونکہ ایک تو ان کا مزاج ہی آمرانہ ہے، جو اسمبلی کے جمہوری ماحول کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور اب تو ان کے دِلوں پر یہ ڈر بیٹھ گیا ہے کہ ان کی موجودگی کو پا کر کہیں پارلیمانی ایوان بھی ’’گو نواز گو‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے نہ تھرتھرا اُٹھے۔سوشل میڈیا کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ وہاں تو اس حوالے سے ایک طوفان برپا ہے۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو یہ کب کے فیس بُک پر پابندی لگا چکے ہوتے۔ وہ تو بھلا ہو ان کے مالکان کا جو جمہوری مُلکوں میں رہنے کے باعث جمہوری ذہن کے حامل ہیں اور حکومتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اب تو ’’گو نواز گو‘‘ کے نام سے موبائل گیمز بھی وجود میں آ چکی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے نواز شریف کو ڈی چوک میں کینٹینروں اور آگ کے الائو پر سے پھلانگتا دیکھتے ہیں پیچھے پیچھے عمران خان ہاتھ میں بلا پکڑے جارحانہ انداز میں تعاقب کر رہا ہوتا ہے۔ جب بھی نواز شریف کسی رکاوٹ کو عبور کرنے میں ناکام رہتے ہوئے سڑک پر گر پڑتا ہے تو عمران اُسے جا لیتا ہے۔ 
’’گو نواز گو‘‘ کی بدولت شریف لمیٹڈ کمپنی کے ناروا سلوک کے شکار ان کے اپنے ساتھی، ن لیگ کے سیاسی رہنما اور پارلیمنٹیرنز کو بھی اپنے اندر کا ’ساڑ‘ نکالنے کا موقع مِل گیاہے۔ کئی نواز لیگی لیڈر ’’گو نواز گو‘‘ کہنے کی جسارت کے مرتکب ہو چکے ہیں۔ عوام تو یہی سمجھتی ہے کہ یہ نعرے بے دھیانی میں لگے ہیں۔ اصل میں تو نواز لیگی قائدین ’’گو عمران گو‘‘ کہنا چاہتے تھے مگر زبان کی پھسلن (Slip of Tongue) کے باعث ’’گو نواز گو‘‘ کہہ بیٹھے۔ مگر بھولے بادشاہ یہ نہیں جانتے کہ اپنے اندر کا ’ساڑ‘ نکالنے اور آقائوں کی بدتمیزیوں اور ناانصافیوں کا حساب بے باق کرنے کا اس سے اچھا موقع اور کیا ہو سکتا ہے۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ رُونما ہوتا ہے تو میڈیا پر شریفوں کی جگ ہنسائی کا اچھا بھلا شو لگ جاتا ہے۔ ہر چینل دِن میں کئی کئی بار اس ’زبان کی پھسلن‘ کو عوام الناس کی تفریح طبع کے لیے نشر کرتا ہے۔
دروغ بر گردنِ راوی، ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک اتنی طاقتور ہو گئی تھی کہ ایک بار خود اُن کے چھوٹے سے پوتے نے اپنے سکول کے ساتھیوں سے ’ایوب کُتا‘ کا نعرہ سُنا اور گھر واپس آ کر ایوب خان کے سامنے معصومیت میں یہی یہ نعرہ سُنا دیا۔ تب جا کر ایوب صاحب کو اندازہ ہوا کہ وہ حقیقت میں عوام میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھے ہیں اور ان کی ذات سے بے پناہ بیزاری کا اظہار نعروں کی صورت میں خود اُن کے اپنے گھر تک آن پہنچا ہے تو انہوں نے غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی بچی کھُچی عزت بچانے کے لیے اقتدار سے فوراً کنارہ کشی کرنے میں عافیت جانی۔ جبکہ دوسری طرف ’’غیرتِ سلطانی‘‘ کی صورتِ حال یہ ہے کہ جوں جوں ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں میں تیزی آ رہی ہے، نواز شریف کا اقتدار پر اگلے کئی برسوں تک قابض رہنے کا ارادہ اورمصمم ہوتا جا رہا ہے۔ ستم ظریفوں کا کہنا ہے کہ خود نواز شریف بھی اس نعرے کے سحر میں اس حد تک گرفتار ہو چکے ہیںکہ یہ نعرہ سُنے بغیر انہیں نہ تو دِن میں چین پڑتا ہے اور نہ رات کو نیند اچھی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اقتدار سے علیحدگی اختیار کرنے پر آمادہ نہیں کہ کہیں مستقبل میں اُن کی سماعتیں یہ جانفزا بول سُننے سے محروم نہ رہ جائیں اور وہ دِن کا چین اور رات کی نیند نہ گنوا بیٹھیں۔
پوری قوم کو یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے سابقہ دورِ حکومت میں شہباز شریف اور نواز شریف کروڑوں روپے کی خطیر رقم سے پنجاب بھر کے پٹواریوں اور سرکاری ملازموں کو جلسے کے نام پر اکٹھا کر کے’’گو زرداری گو‘‘ کے نعرے لگوا کر خوب جھُومتے اور سر دُھنتے تھے۔ اور آج قدرت کا رنگ یہ ہے کہ انہیں اپنے اجتماعات کو ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں سے محفوظ رکھنے کے لیے سیکیورٹی اور 'Mute System' کے خصوصی انتظامات کرنے پڑ رہے ہیں پر ہونی ہو کر رہتی ہے۔اب کی بار کچھ الگ ہونے والا ہے۔ اس بار سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کا فیصلہ مبینہ طور پر نواز شریف کے خلاف آنے کے بعد نواز لیگی کارکن عدلیہ پر حملہ آور نہیں ہوں گے، بلکہ خوشی سے جھومتے جھامتے ’’گو نواز گو‘‘ کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ احاطہء عدالت سے باہر آئیں گے کیونکہ وہ اب رہبر اور رہزن کا فرق جان چُکے ہیں۔
یہ کیسی مضحکہ خیز صورتِ حال ہے کہ یہی شریف برادران کچھ سال پہلے زرداری کی مبینہ کرپشن پر اسے سڑکوں پر گھسیٹنے کی بڑھکیں مارتے تھے اور آج اپنی کرپشن بچانے کے لیے ذِلت اندوزی کی آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اقتدار، اختیار، پیسہ کچھ بھی انہیں بچا نہیں پا رہا۔ کیونکہ ’’گو نواز گو‘‘ صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ استحصال شدہ طبقے کی جاگ ہے، کرپشن کے خلاف للکار ہے اور ایک ترقی یافتہ اور شریفیہ شہنشاہت سے پاک روشن اورخوشحال پاکستان کی نوید ہے۔

No comments:

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...