Wednesday, April 26, 2017

زمین کا خدا..............................................زہریلا سچ............نوشاد حمید


 





20اپریل 2017ءکی ایک گرم دوپہر کو پاکستان کی عدالتِ عالیہ کے احاطے سے ٹی وی چینلز نے مُلک بھر میں ایک انوکھا اور ناقابلِ یقین نظارہ ٹیلی ویژن سکرینز پر منتقل کیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ عدالت کے دو معزز جج صاحبان نے مُلک کے ’عزت مآب‘ وزیر اعظم کو صداقت اور امانت کے معیار پر پُورا نہ اُترنے کے جُرم میں عہدے سے سبکدوش کرنے کا فیصلہ سُنایا جبکہ باقی تین قابلِ احترام ججوں نے وزیر اعظم کو اُن پر لگے الزامات سے بری نہ قرار دیتے ہوئے مزید جانچ کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم صادر کیا۔ اس موقع پر نواز لیگی لیڈروں اور کارکنوں کی اپنے کرپٹ قائد کی ’سُرخروئی‘ اور جزوی ’بریت‘ پر تشکر کا اظہار جوشیلے نعروں کی صورت میں کیا گیا، بھنگڑے ڈالے گئے، مٹھائیاں بانٹی گئیں، دُشمنوں کے ’ناکام و نامراد‘ رہنے پر طعنے کسّے گئے، بڑھکیں ماری گئیں اور تبرّوں کا طوفان برپا کیا گیا۔ شاید نواز لیگی کارکنوں اور لیڈروں کے نزدیک ’باعزت‘ اور ’پُروقار‘ بریت اسی کا نام ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر عدالتی فیصلے کے حوالے سے وہ کچھ بیان کیا جا رہا ہے، جس کا کبھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ لوگ پریشان ہیں اور پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ایک شخص کی بددیانتی کو تسلیم بھی کیا گیا مگر اُسے سزابھی نہیں دی گئی، بلکہ اسے ’جے آئی ٹی‘ کے حوالے کر کے مستقبل میں کامل بریت کا محفوظ راستہ دکھایا گیا ہے۔ نواز شریف کی طرف سے پیش کردہ عدالتی دستاویزات کو غیر تسلّی بخش قرار دیا گیا، قطری خط کو بھی مشکوک مانا گیا، منی ٹریل کی شفافیت بھی ثابت نہ ہو سکی، مگر پھر بھی نواز شریف ابھی تک مجرم ثابت نہیں ہوا۔ چور مان بھی لیا ہے مگر چوری ثابت کرنا بھی باقی ہے۔ نواز شریف اور اُن کا خاندان اپنے تیس سال سے زائد عرصے پر محیط سیاسی کیریئر کے دوران ہر آزمائش میں سے ہمیشہ ”سُرخرو“ ہو کر نکلا ہے۔ پتا نہیں اُس کی شخصیت میں کیا ایسی بات ہے کہ اُس پر الزامات عائد کرنے والے کچھ بھی ثابت کرنے میں ہمیشہ ناکام و نامراد بھی رہے ہیں۔ اصغر خان کیس کا معاملہ ہو یا جنرل آصف نواز جنجوعہ کی موت کے حوالے سے الزام تراشیاں، پلاٹوں کی کرپشن کا کیس ہو یا حدیبیہ پیپر ملز، سپریم کورٹ پر حملہ ہو یا کارگل ایشو، پاناما لیکس ہو یا ڈان لیکس، سبزہ زار میں جعلی پولیس مقابلے ہوں یا ماڈل ٹاﺅن میں دِن دیہاڑے میڈیا کے کیمروں کے سامنے نہتے مردوں اور عورتوں کا پولیس کے ہاتھوں قتلِ عام، آج تک کسی ایک معاملہ میں بھی شریف فیملی قانون کی گرفت میں نہیں آ سکی۔ ماڈل ٹاﺅن واقعہ میں ہلاک ہونے ”مجرم“ خواتین و حضرت کی رُوحوں کی دلدوز پُکار آج بھی آسمانوں سے بلند ہوتی یہی سوال کر رہی ہیں کہ ہمارا قصور کیا تھا؟قصور یہی تھا کہ وہ نواز شریف کے دورِ خُدائی میں پیدا ہوئے اور انہوں نے صدا بُلند کرنے کے ہولناک جُرم کا ارتکاب کیا۔ رُوئے زمین پر موجود کوئی شخص نواز شریف کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا اور تھوڑی بہت سیاسی سمجھ بُوجھ رکھنے والے لوگوں کو بھی مکمل یقین ہے کہ پاناما کیس کی ’جے آئی ٹی‘ میں کچھ بھی ثابت ہونے والا نہیں ہے۔ نتیجہ ایک بار پھر نواز لیگی لیڈروں اور کارکنوں کے اظہارِ تشکّر کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ڈھول ڈھمکوں کی گرج میں ماضی کے مظلوموں کی سب آہ و بکائ، فریاد اور اُمیدوں کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔  کچھ لوگ یہاں پر اعتراض کریں گے کہ جی نوازشریف کو طیارہ سازش کیس میں سزا سُنائی گئی اور پھر جلاوطن بھی کیا گیا۔جی ہاں، ایسا ہوا۔ مگر اس کی سودے بازی یہاں بھی اسے بچا گئی۔ کتنی سزا کاٹی نواز شریف نے؟ فقط ایک ڈیڑھ سال۔ اور پھرایک ڈیل نے سعودی عرب پہنچا دِیا۔ جس دور کو لوگ جلا وطنی سمجھتے ہیں وہ حقیقتاً شریفیہ معاشی ایمپائر کی وسعت کا دور تھا۔ یہ وطن کی یاد میں آنسو بہا بہا کر جدہ سٹیل مِل کو بامِ ترقی پر پہنچاتے رہے۔ بیرونِ مُلک دولت اکٹھی کرتے رہے، آف شور کمپنیاں بناتے رہے۔ ہاں، اپنے ہم وطنوں کا پیسہ لُوٹنے اور اُن پر حکمرانی کرنے کا جو نشہ ہے، اُس سے محرومی ان کی جان کا روگ ضرور بن گئی تھی۔ پیپلز پارٹی والے بلاشبہ شکوہ کرنے میں ہمیشہ حق بجانب ہیں کہ احتساب صرف اُن کا ہوا ہے، عدالتی قتل انہی کے ہوئے ہیں، سزائیں صرف انہی کو مِلی ہیں۔اگر طیارہ سازش کیس میں کوئی اور ملوث ہوتا تو اُسے کب کا بھٹو کی مانند پھانسی پر چڑھا دِیا ہوتا۔ پیپلز پارٹی کو کبھی انصاف نہیں مِلا۔ 1990ءمیں پیپلز پارٹی اپنی حکومت کی معزولی کے خلاف عدالت گئی تو اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا مگر 1993ءمیں جب نواز شریف نے اپنی حکومت کے خاتمے کو عدالت میں چیلنج کیا تو عدالتوں نے اُسے سُرخرو کیا۔یوسف رضا گیلانی کو ایک خط نہ لکھنے کی پاداش میں عدالتیں کھڑے کھڑے وزیر اعظم کے عہدے سے فارغ کر دیتی ہیں اور وہ خاموشی سے گھرچلا جاتا ہے۔ یاد رکھیے کہ یوسف رضا گیلانی کوئی کمزور وزیر اعظم ہرگز نہیں تھا، اُس کے پیچھے آصف زرداری کی تمام تر طاقت موجود تھی۔ اس نے اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈیننس کے ذریعے مشرف کے زیرِ عتاب ججز کو عہدوں پر بحال کروا دِیا۔ اٹھارہویں ترمیم اتفاقِ رائے سے منظور کروائی۔ تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی کا خاتمہ کروایا۔ صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کا فارمولا منظور کروایا۔ مگر نواز شریف کے محبوب چیف جسٹس کی ایک جنبشِ قلم سے سب اختیار و اقتدار اختتام پذیر ہو گیا۔ عدالتیں ایک ہی نوعیت کے کیسز میں متضاد فیصلے کیوں سُناتی ہیں، یہ تو اللہ جانے یا نواز شریف جانے۔ اب تو عوام بھی سوال اُٹھانا شروع ہو گئی ہے کہ یہ اپنی سیاسی تاریخ میں درجنوں بار تنازعات کی زد میں آئے اور ہر بار یہ عدالتی کمیشن بنوا کر سُرخرو بھی ہو گئے؟ حالانکہ ان کے خلاف ثبوتوں کے انبار کے انبار موجود تھے۔ ان کی حکومتیں ایک عدالتی اِسٹے آرڈر پر پانچ سال پُورے کر جاتی ہیں مگر عشروں سے زیر التواءکیسز کا فیصلہ سامنے نہیں آتا۔یہاں تک کہ ڈان لیکس کی سادہ ترین جے آئی ٹی کا فیصلہ آنے میں بھی مہینوں لگ گئے۔ اس وقت ان کے خلاف کرپشن اور قتل کے سینکڑوں کیسز عدالتوں اور احتسابی اداروں میں زیر التواءہیں، مگر اُن پر کوئی کارروائی آگے نہیں بڑھ رہی۔ کیوں؟.... شاید اس سوال کا جواب سب کے پاس ہے۔  اس مُلک کی عوام یہاں کے معتبر اداروں سے زیادہ باخبر ہے کہ نواز شریف ضمیروں کا سوداگر ہے۔ عوام سے لُوٹی دولت، پارٹی ٹکٹس اور جماعتی و حکومتی عہدوں کی ترغیبات کے ذریعے اسے بڑے بڑے باضمیروں کو رام کرنے میں مہارتِ تامہ حاصل ہے۔ یہ تو اسمبلی کے سارے نومنتخب ممبروں کو اُٹھوا کر چھانگا مانگا پہنچا دیتا ہے اور تب تک وہاں رکھتا ہے جب تک اسمبلی سازی کے لیے مطلوبہ ’حمایت‘ حاصل نہیں ہو جاتی۔ نواز شریف ایک ایسی سیاسی عفریت ہے جو سب کے سامنے سب کچھ نگل جاتا ہے، مگر کوئی اس کے خلاف آواز اُٹھانے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ وہ دیمک کی طرح ہر محکمے،ہر ادارے میں سرایت کر کے اُس کا صفایا کر جاتا ہے۔ سب کو اُس کے بارے میں پتا ہوتا ہے مگر کوئی بھی کچھ بتانے کو تیار نہیں ہوتا۔ نواز شریف وطنِ پاکستان کا خدا ہے، ہر انصاف، قانون، آئین، اخلاقیات اور سماجی ضابطوں سے بالاتر اور مبرّا۔ لوگوں کو یقین رکھ لینا چاہیے کہ اسے صرف آسمانوں میں بیٹھا خُدا ہی کسی انجام سے دوچار کر سکتا ہے۔ یہ زمین پر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگنے والے پاکستانی عوام کسی کھاتے میں نہیں آتے۔  لوگ صحیح کہتے ہیں کہ نواز شریف پہلے والا نواز شریف نہیں ہے۔ وہ بہت بدل گیا ہے۔ بالکل پہلے والا نواز شریف تو وہ تھا کہ جس سے مُلک کی عدلیہ اتنی خوفزدہ تھی کہ سپریم کورٹ کے ججوںکو اپنی جانیں بچا کر بھاگنا پڑا ۔ چیف جسٹس کو گھر بیٹھنا پڑا۔آرمی چیف طیارے میں سوار کئی گھنٹے فضا میں خوار ہونے کے بعد بمشکل اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوا۔ یاد رکھیں یہی نواز شریف جب خود ساختہ جلاوطنی کے بعد 2008ءمیں پاکستان واپس آیا تو وہ چوٹ کھائے سانپ کی مانند تھا۔ جس کا پور پور انتقامی جذبے کی غلاظت میں لتھڑا ہوا تھا۔ انتقام مشرف کے خلاف، ق لیگ کے خلاف، اور عوام کے خلاف کہ اُس کی جیل یاترا اور جلاوطنی کے دوران کیوں ایک مو ¿ثر تحریک شروع نہ کی گئی۔ اُس کی حالت ایک زخمی شیر کی سی تھی جو زندہ بچ جانے پر سب کچھ چیر پھاڑ جاتا ہے۔ اب کی بار اُس نے عوامی پیسے کی چمک دمک سے اپنے خلاف اُٹھنے والے ہر احتجاج کو دبا دیا۔ ہر حکومتی ادارے میں اپنے گُلو بٹوں کو اعلیٰ و ادنیٰ عہدوں پر تعینات کروا کے ان کی شفافیت اور فعالیت کا بھُرکس نکال دیا ہے۔ ہمارے مُلک کے کیسے کیسے معتبر اور مقتدر ادارے نواز شریف کے ہاتھ کی چھڑی بن چکے ہیں، اشارے کے لیے اعتزاز احسن کا حالیہ بیان ہی کافی ہے۔ یہ بیان بہت معنی خیز ہے۔ ابھی تو بہت کچھ پردہ ¿ اخفاءمیں ہے۔ شریفوں کی گرفت کِن کِن بڑوں کی گردن تک ہے، اور کہاں کہاں ان کی رشتہ داریاں گانٹھی ہوئی ہیں، بہت سے ہوش رُبا انکشافات عنقریب سامنے آ جائیں گے۔ لوگ انگشتِ بدنداں ہیں کہ جس وزیر اعظم کو مُلک کی عدالتیں براہِ راست مجرم ثابت نہیں کر سکتیں، کیا اُسی کے ماتحت اداروں کے( جن کے سربراہوں تک کا تقرر بادشاہ سلامت اُن کی ’پیشہ ورانہ‘ صلاحیتوں اور ’وابستگی‘ کو مدنظر رکھ کیا جاتا ہے) اُنیسویں گریڈ کے بے وقعت افسران وزیر اعظم سے جے آئی ٹی کے نام پر عزیر بلوچ کی طرح پُوچھ گچھ کریں گے۔ شیر کے آگے کورنش بجا لاتی منمناتی بکریاں اُس سے حساب مانگیں گی؟.... یہ ہے عدالت کی جانب سے تجویز کردہ مواخذہ.... اس سادگی پہ کون نہ مر جائے بہرحال شریفوں کو اپنی منی ٹریل ثابت کرنے کے لیے مزید وقت مِل گیا۔67 دِن بہت ہوتے ہیںجعلی دستاویزیں گھڑنے میں، متعلقہ لوگوں کی من چاہی بولی لگانے میں۔ آج حکمران جماعت فیصلے کو اپنی جیت کا اعلان سمجھ کر جشن منا رہی ہے اور اسے تحریک انصاف کی شرمناک ہار پر محمول کر رہی ہے۔مان لیتے ہیں جی ہار ہوئی ہے ، مگر تحریکِ انصاف کی نہیںہوئی ، بلکہ عوام کی ہوئی ہے۔یہ ہار ہے تبدیلی کی اُمیدوں کی، استحصال سے پاک سماج کی نویدوں کی۔ یہاں کوئی روشنی نہیں ہے۔ لوگوں کے خیال میں پاناما کیس ایک ایسی اندھیری سرُنگ میں داخل ہو گیاہے، جس کے آر بھی اندھیرا تھا اور پار بھی تیرگی ہی اُن کا مقدر ہے۔ یہ انتظار ایک نامختتم انتظار ہے۔ منیر نیازی شاید اسی موقع کے لیے کہہ گئے ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا کیا عجب معاملہ ہے کہ پاناما لیکس کا معاملہ سڑکوں پر اُٹھایا گیا۔ عوامی احتجاج میں تیزی آنے پر عدالت نے پاناما کیس کی سماعت شروع کی ۔ مگر براہِ راست فیصلہ دینے کی بجائے جے آئی ٹی کی تشکیل کا اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا ہے۔ لگتا ہے یہ معاملہ اب دوبارہ سڑکوں پر حل ہو گا۔ اس وقت ہر طرف ایک بے یقینی کی سی کیفیت ہے۔ مایوس اور مشتعل عوام اب بدقسمتی سے عدلیہ کی طرف دیکھنے کی بجائے میاں برادران کے خلاف خود سے ایک انقلاب برپا کرنے کے درپے ہے۔ کیونکہ عوام نواز شریف کو عدلیہ سے زیادہ جانتے ہیں۔


No comments:

بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں

  معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...