اشفاق احمد صاحب فرماتے ہیں کہ سندھ میں صحرائے تھر میں کسی مقام پر ڈیرا لگا رکھا تھا، ایک بستی سے بہت سے لوگ نکلتے بکریاں جانور چرانے جاتے کچھ شہر کو جاتے کچھ مختلف اجناس بیچنے جاتے۔
اُن ہی لوگوں میں ایک نو عمر لڑکا پندرہ سولہ سال کا سر پر تربوز کا ٹوکرہ رکھ کر نکلتا اور اس کے پیچھے پیچھے ایک ننھی سی بچی جس کی عمر پانچ چھ سال ہوگی وہ چلتی۔
میں نے پوچھا تو پتہ چلا کہ ماں باپ مرچکے ہیں اس لیے یہ لڑکا تربوز اور کبھی خربوزے دوسری بستیوں میں جا کر بیچتا ھے اور بہن کو بھی ساتھ رکھتا ھے گھر اکیلے نہیں چھوڑتا۔
ایک دن صبح اشفاق صاحب نے اُسے بُلایا اور پوچھا کہ ایک بات تو بتاو صبح تم جب جاتے ہو تو تماری بہن تمارے پیچھے جب واپس آتے ہو تب بھی یہ تمارے پیچھے چلتی ھے حالانکہ اسے تمارے آگے تماری آنکھوں کے سامنے چلنا چاہیے اس طرح یہ تمارے دھیان میں رہے گی۔
اس پر اُس لڑکے نے جو جواب دیا وہ جگر چھلنی کر گیا، کہنے لگا:
*“جناب آپکو پتا ھے گرمی سخت ھے اور سورج آگ برساتا ھے۔ جب میں سر پر ٹوکرا رکھ کر چلتا ہوں تو ٹوکرے سمیت میرا سایہ بڑا بنتا ھے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ میری بن ماں باپ کی بہن، میرے سایے میں رہے، میرے سائے میں چلے اور دھوپ سے بچی رہے۔”*
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ آنسو تو روکے نہ رکتے تھے۔ ساتھ آہیں بھی نکل پڑیں۔ اُس صحرائی بچے کے یہ جملے سن کر، بس اس ان پڑھ نو عمر بچے نے عبادت کے ڈھنگ، بہنوں کے حقوق، چھوٹوں پر شفقت، یتیم کی رکھوالی اور انسانیت؛ سب کچھ ان دو جملوں میں سمجھا دیا تھا
No comments:
Post a Comment