اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی کے بیان کہ" عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ سمیت تمام ستون گر چکے ہیں ،عدلیہ کا ستون ہوا میں ہے مگر ہم پھر بھی مایوس نہیں "نے تشویش میں مبتلا کر دیا ۔سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں رہنا مستقل لڑائی ہے، 24 سے 25 کروڑ لوگ ہیں، لڑائی کرنے والے زیادہ اور بچنے والے کم ہیں۔اسپیکر قومی اسمبلی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے ریمارکس کو پارلیمنٹ پر حملہ قرار دیدیا۔اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اسمبلی اجلاس کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے ریمارکس پر رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ جج کا بیان پارلیمنٹ پر حملہ ہے، کسی کو پارلیمنٹ کے بارے میں بیان بازی کاحق نہیں ہے۔ اسپیکر ایاز صادق نے وفاقی وزیر قانون کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ جج کو یہ پیغام پہنچائیں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔سپیکر نے پارلیمنٹ کو سپریم قرار دیا اور جج کا بیان پارلیمنٹ پر حملہ قرار دیا لیکن انہیں وہ وقت یاد نہیں جب پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے ممبرانِ قومی اسمبلی کی مبینہ طور پر پارلیمنٹ کی حدود سے گرفتاری کی گئی تھی ۔جبکہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے وزارتِ داخلہ کو واقعے کی تحقیقات کر کے سات روز کے اندر رپورٹ جمع کرونے کا حکم بھی دیا۔ایاز صادق نے پارلیمنٹ ہاؤس سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ پارلیمان کی بے توقیری قبول نہیں، گرفتار ارکان پارلیمان کو فوری رہا کیا جائے۔ قانون اور ضابطے کے مطابق پاکستان کی پارلیمنٹ کے احاطے سے کسی بھی رکن کو سپیکر قومی اسمبلی کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا ہوا اور یہ ہی سپیکر ایاز صادق بے بس دکھائی دئیے۔تب پارلیمنٹ کی سپر میسی کہا تھی ۔ادھرتازہ اطلاعات کے ،طابق حکومت کے مشیروزیراعظم رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز کے خلاف ریفرنس پرغور کررہی ہے۔ ، دونوں سینئرججزکے طرزعمل پرکمیشن بنایاجاسکتاہے دو سینئر ججز کی وجہ سے سپریم کورٹ میں معاملات نہیں چل رہے، وہ ہر معاملے میں خط لکھتے ہیں اور بائیکاٹ کرتے ہیں۔یہ سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر ہو سکتے ہیں ۔جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ جسٹس منیب اختر بھی جوڈیشل کمیشن کے رکن ہیں۔اور جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے دونوں نے بائیکاٹ کیا تھا ۔ پاکستان میںواقعی عدلیہ ،پارلیمان اور انتظامیہ کے ستون کمزور ہو چکے ۔کرپشن کی غضب کہانی ہر ادارے کو نچو ڑ رہی ، حالات یہ ہیں کہ پاکستان دنیا کا 46 واں کرپٹ ترین ملک بن گیا۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2024 (سی پی آئی) جاری کی ہے۔ عالمی فہرست میں دو درجے کمی کے بعد 180 ممالک میں پاکستان 135 ویں نمبر پر آ گیا ہے فہرست میں 180 ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان کا 135واں نمبر ہے جو کہ گزشتہ برس 133 واں نمبر تھا۔کرپشن کی بات کریں تو کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کی اربوں روپے مالیت کی تقریباً ایک تہائی اراضی یعنی 1448؍ ایکڑ پر تجاوزات ہیں جبکہ پورٹ قاسم اتھارٹی کی 30؍ ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے۔غیر قانونی قبضہ شدہ زمین پر حکمران سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بعض سیاست دانوں کی مبینہ آشیرباد سے تجاوزات قائم ہیں، جبکہ وفاق کی تقریباً 350؍ ایکڑ اراضی پر سندھ حکومت قابض ہے۔کرپشن کی اس غضب کہانی پر ایک تفصیلی رپورٹ سینئر صحافی انصار عباسی کی شائع ہو چکی جس پر نیب نے نوٹس لے کر کارروائی کاآغاز تو کیا ہے لیکن ماضی کی طرح اس بھی کچھ حا صل نہیں ہو گا ۔لیکن ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے کھبی نہ کھبی کوئی مخلص لیڈر اور نڈر جسٹس کے ایم صمدانی کی طرح بھی کوئی آئے گا جو جنرل ضیاء کے رعونت سے بھرپور جملے" بعض سیکرٹری بڑے کرپٹ ہیں میرا جی چاہتا ہے کہ انکی پتلون اتار کر انہیں الٹا لٹکا دوںـــ" کے جواب میں کھڑے ہو کر کہے گا " جنرل صاحب! میرا بھی جی چاہتا ہے کہ کرپٹ جرنیلوں کی پتلون اتار کر انہیں الٹا لٹکا دوںـ"
No comments:
Post a Comment