Saturday, May 27, 2017
یومِ تکبیر: حقائق نامہ...۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.نوشاد حمید کا زہریلا سچ
یوم تکبیر آن پہنچا ہے۔اخبارات اس دِن کی اہمیت کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن چھاپیں گے جبکہ چینلز پر بھی خصوصی پیکج دکھائے جائیں گے۔ پھر اس دِن کو ’تاریخی‘ اور ’جرأت مندانہ‘ فیصلہ لینے والے قوم کے ’مقبول و محبوب ‘ لیڈر نواز شریف کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جائیں گے۔ سڑکیں بازار نواز لیگی متوالوں کے اپنے لیڈر کی شان میں لگائے بینروں سے آراستہ نظر آئیں گے۔ چند خوشامدی درباری اینکرز و اخبار نویس لیڈر کے ذکرِ عظمت کو دُہراتے دُہراتے نہیں تھکیں گے۔ غرضیکہ سارا دِن اسی ’نواز نمائی‘ میں گزر جائے گا۔ قوم کے ذہنوں سے محو ہو گئی عظمتِ نواز کی پھر سے تجدید ہو جائے گی۔ بظاہر تو یہ دِن پاکستان کی دفاعی حیثیت کے اعتبار سے ایک سنگِ میل کے طور پر گردانا جاتا ہے۔ مگر اس دِن کی اہمیت کے پسِ پردہ محرکات کے بارے میں بھی جاننا چاہیے۔ یہ وہ دِن تھا جب پاکستان نے بھارت کے 12 مئی 1999ء کو کیے گئے ایٹمی دھماکوں کا جواب ایٹمی دھماکوں کے تجربات سے کیا۔ چونکہ اس وقت مُلک کا چیف ایگزیکٹو موجودہ وزیر اعظم ہی تھا، اس لیے اُنہوں نے ان دھماکوں کا خصوصی کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایٹمی دھماکے کیوں کیے گئے؟ جبکہ بھارت نے 12 مئی کو پہلی بار ایٹمی دھماکا نہیں کیا تھا بلکہ وہ 1975ء میں ہی ایٹمی دھماکے کر کے اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کر چکا تھا۔ حقیقتاً یہ امریکی ایجنڈا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی دھماکے کریں تاکہ اس کے بعد دونوں مُلکوں کے درمیان ایٹمی اسلحے کی نئی دوڑ شروع کروا کر انہیں اپنے ہتھیار بیچ کر کروڑوں اربوں ڈالر ہتھیائے جائیں۔ سو امریکا کے کہنے پر ہی انڈیا نے دھماکے کیے اور پھر پاکستان کو بھی آرڈر دیا گیا کہ وہ فوراً حکم کی تعمیل کرے ۔ سو امریکا کے یس مین نے آقائوں کا حکم بجا لاتے ہوئے اس حکم کی تعمیل کر ڈالی۔ چونکہ اس موقع پر اپنی ذات کی نمائش مقصود تھی لہٰذا بے جا پروپیگنڈا کیا گیا کہ وزیر اعظم نوازشریف امریکی صدر کلنٹن کے پانچ بار فون آنے پر بھی اپنے جرأت مندانہ موقف سے پیچھے نہیں ہٹے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز بخشا۔ ’’کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ!‘‘ پاکستان کے کسی بھی حکمران کو آج تک امریکا بہادر کے حکم کو ٹالنے کی جرأت نہیں ہوئی اور اگر کسی نے یہ جرأت کی بھی تو اسے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ نواز شریف تو ہمیشہ آیا ہی امریکی اشیرباد سے ہے، اُس کی کیا مجال کہ وہ حکم سے سرتابی کر سکے۔ اس ’جری‘ مرد کی فقید المثال بہادری کا اس سے ہی اندازہ لگا لیں کہ کارگل کے مسئلے پر جب ذرا سا امریکی پریشر آیا تو اس کے پسینے چھُوٹ گئے ۔ اور پھر باقی کی تھوڑی بہت ہمت کلنٹن کی ایک فون کال کے آگے ڈھیر ہو گئی۔ فوراً طیارہ پکڑا اور جا پہنچاامریکا کے وائٹ ہائوس معافی مانگنے۔ پیر پکڑ کر کارگل کارروائی کا سارا الزام جنرل پرویز مشرف کے سر تھوپ کر سُرخرو ہونے کا جتن کیا۔ اگر اس وقت یہ مردِ مومن ہمت دکھاتا تو کشمیر جو کہ اس وقت پُوری دُنیا کا فلیش پوائنٹ بنا ہوا تھا، ایک بین الاقوامی مسئلے کے طور پر جاندار طریقے سے اُبھر آتا۔ بھارت کو گھٹنے ٹیک کر مذاکرات پر مجبور ہونا پڑتا۔مگر اس شخض نے ’’قومے فروختند و چہ ارزے فروختند‘‘ کے مصداق کشمیری قوم کے جذبۂ حُریت کو اپنے اقتدار کی بھٹّی میں جھونک دیا۔ مشرف کو مجاہدین اور فوجی بھائیوں کی مدد کے لیے فضائیہ کی خدمات حاصل کرنے سے زبردستی روک دیا اور یوں کارگل میں محصور شیر دِل جوانوں کو بھارتی درندوں کی وحشیانہ بمباری کے سپرد کر دیا گیا۔ جس کے باعث پُوری قوم کا مورال زمین بوس ہو گیا۔ اسی غداری کے باعث نواز حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات اس حد تک بگڑے کہ بالآخر حکومت کی معزولی پر منتج ہوئے۔ سو اس عظیم لیڈر کی اولوالعزمی اور بلند ہمتی سب کے سامنے ہے۔ اس پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
بلغاریہ کی بابا وانگا کی 2024 کے بارے میں پیش گوئیاں
معروف خاتون نابینا نجومی آنجہانی بابا وانگا جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا،انہوں نے گزشتہ سالوں کی طرح 2024 کے حوالے سے بھی مرنے سے قبل کچھ پی...
-
Saturday, December 22, 2012 - The Afghanistan which kept bleeding in the deadliest civil war in earlier 90’s and then again in the ...
-
TOPIC: Pak China Relations in Contemporary War on Terror Introduction of Research Scholar: I...
-
5G technology has the potential to revolutionize the way we connect, communicate, and interact with the world around us. It is the fifth g...
No comments:
Post a Comment