Sunday, May 15, 2022

قحط پڑنے سے پہلے پانی کی فکر موسم روٹھ رہے


گرمی کی تازہ لہر نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔لیکن اس لہر اور اس کے خطرناک اثرات پر بحث، تحقیق اور گفتگو برطانیہ اور امریکہ میں ہو رہی ہے۔ امپیریل کالج لندن اور یونیورسٹی آف ہوائی میں محققین بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ موسم کی یہ انگڑائی پاکستان کا کیا حشر کر سکتی ہے لیکن پاکستان کی کسی یونیورسٹی کے لیے یہ سرے سے کوئی موضوع ہی نہیں ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں بیٹھا ڈاکٹر رابرٹ روڈ دہائی دے رہا ہے کہ موسموں کے اس آتش فشاں کو سنجیدگی سے لیجئے ورنہ ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے لیکن پاکستان کے اہلِ دانش سیاست کی دلدل میں غرق ہوئے پڑے ہیں۔



ندی خشک پڑی ہے اور چشمے کا پانی نڈھال ہے۔ مارگلہ کے جنگل میں آج درجہ حرارت 42 کو چھو رہا ہے۔ عید پر بارش ہوئی تو درجہ حرارت 22 تک آ گیا تھا لیکن عید سے پہلے اپریل کے آخری دنوں میں بھی یہ 40 سے تجاوز کر گیا تھا۔ مارگلہ میں چیت اور وساکھ کے دنوں میں ایسی گرمی کبھی نہیں پڑی۔ یہ جیٹھ ہاڑ کا درجہ حرارت ہے جو چیت اور وساکھ میں آ گیا ہے۔ موسموں کی یہ تبدیلی بہت خطرناک ہے لیکن یہاں کسی کو پروا نہیں۔ اس معاشرے اور اس کے اہلِ فکر و دانش کو سیاست لاحق ہو چکی اور ان کے لیے سیاست کے علاووہ کسی موضوع پر بات کرنا ممکن نہیں رہا۔


موسموں کی اس تبدیلی سے صرف مارگلہ متاثر نہیں ہو گا، پورے ملک پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ مارگلہ میں تو درجنوں چشمے ہیں اور ندیاں۔ کچھ رواں رہتی ہیں، کچھ موسموں کے ساتھ سوکھتی اور بہتی ہیں لیکن جنگل کے پرندوں اور جانوروں کے لیے یہ کافی ہیں۔ سوال تو انسان کا ہے، انسان کا کیا بنے گا؟ افسوس کہ انسان کے پاس اس سوال پر غور کرنے کا وقت نہیں۔



ابلاغ کی دنیا ان کے ہاتھ میں ہے جو سنجیدہ اور حقیقی موضوعات کا نہ ذوق رکھتے ہیں نہ اس پر گفتگو کی قدرت۔ نیم خواندگی کا آزار سماج کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔ سرِ شام ٹی وی اسکرینوں پر جو قومی بیانیہ ترتیب پاتا ہے اس کی سطحیت اور غیر سنجیدگی سے خوف آنے لگا ہے۔ نوبت یہ ہے کہ دنیا چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہی ہے کہ آپ ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن ہمارا دانشور صبح سے شام تک یہی گنتی کر رہا ہوتا ہے کہ کس قائدِ انقلاب کے جلسے میں کتنے لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ موضوعات کا افلاس آسیب بن چکا ہے۔



پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ماحولیات کی تباہی سے یکسر بے نیاز۔ گلی کوچوں سے پارلیمان تک یہ سوال کہیں زیرِ بحث ہی نہیں کہ درجہ حرارت بڑھنے کا مطلب کیا ہے؟زیرِ زمین پانی کی سطح جس تیزی سے گر رہی ہے، خوفناک ہے۔ چند سال پہلے اسلام آباد میں 70 یا 80 فٹ پر پانی مل جاتا تھا لیکن اب تین سے چار سو فٹ گہرے بور کرائیں تو بمشکل اتنا پانی دستیاب ہے کہ پانچ سے دس منٹ موٹر چل سکتی ہے۔ موسم کی حدت کا عالم یہی رہا تو پانچ دس سال بعد زیرِ زمین پانی چھ سات سو فٹ گہرائی میں بھی مل جائے تو غنیمت ہو گا۔ 


اسلام آباد دارالحکومت ہے لیکن پانی کا  بحران اسے لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ایک ٹینکر اب دو ہزار کا ملتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ٹینکر بھی تو کنوؤں سے پانی بھر لاتے ہیں، زیرِ زمین پانی کی سطح یونہی نیچے جاتی رہی تو ٹینکرز کہاں سے پانی لائیں گے؟ ایک آدھ سیکٹر کو چھوڑ کر سارا شہر اس مصیبت سے دوچار ہے لیکن اپناکمال دیکھیے کہ شہر میں کسی محفل کا یہ موضوع نہیں ہے۔ نہ اہلِ سیاست کا، نہ اہلِ مذہب کا نہ اہلِ صحافت کا۔ سب مزے میں ہیں۔


یہ بحران صرف اسلام آباد کا نہیں، پورے ملک کا ہے۔ بس یہ ہے کہ کسی کی باری آج آ رہی ہے کسی کی کل آئے گی۔ جب فصلوں کے لیے پانی نہیں ہو گا اور فوڈ سیکیورٹی کے مسائل کھڑے ہو جائیں گے پھر پتا چلے گا کہ آتش فشاں پر بیٹھ کر بغلیں بجانے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔


جنگل کٹ رہے ہیں، درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے (یعنی کراچی کے سر پر خطرہ منڈلا رہا ہے)، گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور سیلابوں کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ابھی گلگت بلتستان میں گلیشئر کے پگھلنے سے حسن آباد پل تباہ ہوا ہے۔ کئی گھر اس کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ خود اس پل کی تزویراتی اہمیت تھی کہ یہ چین اور پاکستان کو ملا رہا تھا۔ پل کی تزویراتی اہمیت کی نسبت سے یہ حادثہ ہمارے ہاں زیر بحث آ جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن ماحولیاتی چیلنج کی سنگینی کو ہم آج بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اخبارات، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، پریس ٹاک، جلسہ عام۔۔۔ کہیں اس موضوع پر کوئی بات ہوئی ہو تو بتائیے۔


مارگلہ کی ندیاں بھی اجنبی ہوتی جا رہی ہیں۔ ابھی چند سال پہلے درہ جنگلاں کی ندی ساون بھادوں میں یوں رواں ہوئی کہ چار ماہ جوبن سے بہتی رہی۔ اب دو سال سے خشک پڑی ہے۔ ساون اس طرح برسا ہی نہیں کہ ندی رواں ہوتی۔ رملی کی ندی بہہ تو رہی ہے مگر برائے نام۔ جب پوش سیکٹروں کا سیوریج ان ندیوں میں ملا دیا جائے گا تو ندیاں شاید ایسے ہی ناراض ہو جاتی ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے نظام فطرت ہی ہم سے خفا ہو گیا ہے۔ موسم ہم سے روٹھتے جا رہے ہیں۔



ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ ماحولیات سے جڑے چیلنجز کی سنجیدگی کو سمجھا نہ گیا تو بہت بڑا اور خوفناک بحران ہماری دہلیز پر دستک دینے والا ہے۔


 *_یا اللّٰہﷻ اپنے حبیب پاک ﷺ کے صدقے ہماری مدد فرما۔ آمین_*

قوت برداشت


 صدر ایوب خان پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر تھے‘ وہ روزانہ سگریٹ کے دو بڑے پیکٹ پیتے تھے‘ روز صبح ان کا بٹلر سگریٹ کے دو پیکٹ ٹرے میں رکھ کر ان کے بیڈ روم میں آجاتاتھا اورصدر ایوب سگریٹ سلگا کر اپنی صبح کا آغاز کرتے تھے‘ وہ ایک دن مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے‘ وہاں ان کا بنگالی بٹلرانہیں سگریٹ دینا بھول گیا‘ جنرل ایوب خان کو شدید غصہ آیا اورانہوں نے بٹلر کو گالیاں دینا شروع کر دیں… جب ایوب خان گالیاں دے دے کر تھک گئے تو بٹلر نے انہیں مخاطب کر کے کہا ’’جس کمانڈر میں اتنی برداشت نہ ہو وہ فوج کو کیا چلائے گا… ؟

مجھے پاکستانی فوج اور اس ملک کا مستقبل خراب دکھائی دے رہا ہے‘‘…

بٹلر کی بات ایوب خان کے دل پر لگی‘ انہوں نے اسی وقت سگریٹ ترک کر دیا اور پھر باقی زندگی سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا…




🌸 آپ نے رستم زمان گاما پہلوان کا نام سنا ہوگا…

 ہندوستان نے آج تک اس جیسا دوسرا پہلوان پیدا نہیں کیا‘ ایک بار ایک کمزور سے دکاندار نے گاما پہلوان کے سر میں وزن کرنے والاباٹ مار دیا…

گامے کے سر سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے‘ گامے نے سرپر مفلر لپیٹا اور چپ چاپ گھر لوٹ گیا… لوگوں نے کہا…

’’ پہلوان صاحب آپ سے اتنی کمزوری کی توقع نہیں تھی‘ آپ دکاندار کو ایک تھپڑ مار دیتے تو اس کی جان نکل جاتی‘‘…

گامے نے جواب دیا…

’’مجھے میری طاقت نے پہلوان نہیں بنایا‘ میری برداشت نے پہلوان بنایا ہے اور میں اس وقت تک رستم زمان رہوں گا جب تک میری قوت برداشت میرا ساتھ دے گی‘‘.



💦 قوت برداشت میں چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ اپنے دور کے تمام لیڈرز سے آگے تھے‘ وہ75سال کی عمر میں سردیوں کی رات میں دریائے شنگھائی میں سوئمنگ کرتے تھے اوراس وقت پانی کا درجہ حرارت منفی دس ہوتا تھا…

ماؤ انگریزی زبان کے ماہر تھے لیکن انہوں نے پوری زندگی انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا…

آپ ان کی قوت برداشت کا اندازا لگائیے کہ انہیں انگریزی میں لطیفہ سنایا جاتا تھا‘ وہ لطیفہ سمجھ جاتے تھے لیکن خاموش رہتے تھے لیکن بعدازاں جب مترجم اس لطیفے کا ترجمہ کرتا تھا تو وہ دل کھول کر ہنستے تھے…




🌹 قوت برداشت کا ایک واقعہ ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر بھی سنایا کرتے تھے…

وہ کہتے تھے انہوں نے زندگی میں صرف ڈھائی کامیابیاں حاصل کی ہیں… ان کی پہلی کامیابی ایک اژدھے کے ساتھ لڑائی تھی‘ ایک جنگل میں بیس فٹ کے ایک اژدھے نے انہیں جکڑ لیا اور بابر کو اپنی جان بچانے کیلئے اس کے ساتھ بارہ گھنٹے اکیلے لڑنا پڑا…

ان کی دوسری کامیابی خارش تھی…

انہیں ایک بارخارش کا مرض لاحق ہو گیا‘خارش اس قدر شدید تھی کہ وہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں پہن سکتے تھے…

بابر کی اس بیماری کی خبر پھیلی تو ان کا دشمن شبانی خان ان کی عیادت کیلئے آ گیا…

یہ بابر کیلئے ڈوب مرنے کا مقام تھا کہ وہ بیماری کے حالت میں اپنے دشمن کے سامنے جائے…

بابر نے فوراً پورا شاہی لباس پہنا اور بن ٹھن کر شبانی خان کے سامنے بیٹھ گیا‘ وہ آدھا دن شبانی خان کے سامنے بیٹھے رہے‘ پورے جسم پر شدید خارش ہوئی لیکن بابر نے خارش نہیں کی…

بابران دونوں واقعات کو اپنی دو بڑی کامیابیاں قرار دیتا تھااورآدھی دنیا کی فتح کو اپنی آدھی کامیابی کہتا تھا…




دنیا میں لیڈرز ہوں‘ سیاستدان ہوں‘ حکمران ہوں‘ چیف ایگزیکٹو ہوں یا عام انسان ہو‘ان کا اصل حسن ان کی قوت برداشت ہوتی ہے…

دنیا میں کوئی شارٹ ٹمپرڈ‘ کوئی غصیلہ اور کوئی جلد باز شخص ترقی نہیں کر سکتا…

دنیا میں معاشرے‘ قومیں اور ملک بھی صرف وہی آگے بڑھتے ہیں جن میں قوت برداشت ہوتی ہے…

جن میں دوسرے انسان کی رائے‘ خیال اور اختلاف کو برداشت کیا جاتا ہے...

لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک‘ ہمارے معاشرے میں قوت برداشت میں کمی آتی جا رہی ہے…

ہم میں سے ہر شخص ہروقت کسی نہ کسی شخص سے لڑنے کیلئے تیار بیٹھا ہے…

شاید قوت برداشت کی یہ کمی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ قتل اور سب سے زیادہ حادثے ہوتے ہیں لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم اپنے اندر برداشت پیدا کر سکتے ہیں… ؟



اس کا جواب ہاں ہے اور اس کا حل رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہے…


⚘⚘ ایک بارایک صحابیؓ نےرسول ﷺ سے عرض کیا…

’’یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے زندگی کو پُرسکون اورخوبصورت بنانےکاکوئی ایک فارمولہ بتا دیجئے‘‘…

آپ ﷺ نے فرمایا…

’’غصہ نہ کیا کرو‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا…

’’دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں…

1. وہ لوگ جو جلدی غصے میں آجاتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں…

2. وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں...

3. وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور دیر سے اصل حالت میں لوٹتے ہیں‘‘...

آپ ﷺ نے فرمایا…

’’ ان میں سے بہترین دوسری قسم کے لوگ ہیں جبکہ بدترین تیسری قسم کے انسان‘‘…

غصہ دنیا کے90فیصد مسائل کی ماں ہے اور اگر انسان صرف غصے پر قابو پا لے تواس کی زندگی کے 90فیصد مسائل ختم ہو سکتے ہیں…



برداشت دنیا کی سب سے بڑی اینٹی بائیوٹک اور دنیا کا سب سے بڑا ملٹی وٹامن ہے…

آپ اپنے اندر صرف برداشت کی قوت پیدا کر لیں تو آپ کوایمان کےسوا کسی دوسری طاقت کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ انسان اکثراوقات ایک گالی برداشت کر کے سینکڑوں ہزاروں گالیوں سے بچ سکتا ہے اور ایک بری نظر کو اگنور کر کے دنیا بھر کی غلیظ نظروں سے محفوظ ہو جاتا ہے…


Sunday, October 31, 2021

عثمانیوں کی بہترین عادات،،،،قہوہ اور پانی

 
 جب عثمانی ترکوں کے پاس کوئی مہمان آتا تو وہ اس کے سامنے قہوہ اور سادہ پانی پیش کرتے اگر مہمان پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا وہ سمجھ جاتے کہ مہمان کو کھانے کی طلب ھے تو پھر وہ بہترین کھانے کا انتظام کرتے اور اگر وہ قہوہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ جان لیتے کہ مہمان کو کھانے کی حاجت نہیں ھے 
 گھر کے باہر پھول اگر کسی گھر کے باہر پیلے رنگ کے پھول رکھے نظر آتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس گھر میں مریض موجود ھے آپ اس مریض کی وجہ سے گھر کے باہر شور شرابہ نہ کریں اور عیادت کو آسکتے ہیں اور اگر گھر کے باہر سرخ پھول رکھتے ہوتے تو یہ اشارہ ہوتا کہ گھر میں بالغ لڑکی ہے لہذا گھر کے آس پاس بازاری جملے نہ بولے جائیں اور اگر آپ پیغامِ نکاح لانا چاہتے ہیں تو خوش 
آمدید! 



 ہتھوڑا گھر کے باہر دو قسم کے ڈور بیل (گھنٹی نما) ہتھوڑے رکھے ہوتے ایک بڑا ایک چھوٹا اگر بڑا ہتھوڑا بجایا جاتا تو اشارہ ہوتا کہ گھر کے باہر مرد آیا ھے لہذا گھر کا مرد باہر جاتا تھا اور اگر چھوٹا ہتھوڑا بجتا تو معلوم ہوتا کہ باہر خاتون موجود ہے لہذا اس کے استقبال کے لئیے گھر کی خاتون دروازہ کھولتی تھی 
 صدقہ عثمانی ترکوں کے صدقہ دینے کا انداز بھی کمال تھا کہ ان کے مالدار لوگ سبزی فروش یا دوکانداروں کے پاس جا کر اپنے نام سے کھاتہ کھلوا لیتے تھے اور جو بھی حاجت مند سبزی یا راشن لینے آتا تو دوکاندار اس سے پیسہ لیئے بغیر اناج و سبزی دے دیتا تھا یہ بتائے بغیر کہ اس کا پیسہ کون دے گا کچھ وقت بعد وہ مالدار پیسہ ادا کر کے کھاتہ صاف کروا دیتا 



تریسٹھ سال اگر کسی عثمانی ترک کی عمر تریسٹھ سال سے بڑھ جاتی اور اس سے کوئی پوچھتا کہ آپکی عمر کیا ہے؟؟؟ تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیاء و ادب کرتے ہوئے یہ نہ کہتا کہ میری عمر تریسٹھ سال سے زیادہ ہوگئی ھے بلکہ یہ کہتا بیٹا ھم حد سے آگے بڑھ چکے ہیں اللہ اللہ کیسا ادب کیسا عشق تھا ان لوگوں کا کیسی بہترین عادات تھی ان لوگوں کی یہی وجہ تھی کہ عالم کفر نے سلطنت عثمانیہ کے غداروں سے مل کر ٹکڑے کر ڈالے مگر سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے کہ وہ شیر پھر بیدار ہوگا۔۔۔

Wednesday, October 20, 2021

حضور کے دنیا سے پردہ کر جانے کا ایمان افروز واقعہ

 وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ "میری بیویوں کو جمع کرو۔" تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: "کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟" سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔ پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے 



 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔ اور فرماتی ہیں: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔" مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ "لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔" اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔




 نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا: "یہ کیسی آوازیں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔ پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔ فرمایا: " اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟" سب نے کہا: "جی ہاں اے اللہ کے رسول" ارشاد فرمایا: "اے لوگو۔۔! تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں، اے لوگو۔۔۔! مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔" پھر مزید ارشاد فرمایا: "اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔" (یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔) پھر فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔" 





مزید فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے" اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔ جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھہ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔ "ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان....." روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔" آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا: "اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔ اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ: "اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔" پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔ اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔ فرماتی ہیں: " آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔" أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں: "پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔" پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔" دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا: "فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔ جس پر میں رو دی۔۔۔۔" جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے: "فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔" جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں: پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا: "عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے: مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔) صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: "میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔" جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے: "یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔" آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا: "جبریل! اسے آنے دو۔۔۔" ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا: "السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟" فرمایا: "مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔" ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: "اے پاکیزہ روح۔۔۔! اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔! الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔! راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!" سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں: پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔ "رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!" مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔ ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔ ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔ اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے: "خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔" اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔ کہہ رہے تھے: وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه (ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!) پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا: "یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔" سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا: "جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔" سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔ عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں: پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟" پھر کہنے لگیں: "يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه." (ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔) اللھم صل علی محمد کما تحب وترضا۔ copiedوفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ "میری بیویوں کو جمع کرو۔" تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: "کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟" سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔ پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔ اور فرماتی ہیں: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔" مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ "لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔" اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔ نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا: "یہ کیسی آوازیں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔ پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔ فرمایا: " اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟" سب نے کہا: "جی ہاں اے اللہ کے رسول" ارشاد فرمایا: "اے لوگو۔۔! تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں، اے لوگو۔۔۔! مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔" پھر مزید ارشاد فرمایا: "اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔" (یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔) پھر فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔" مزید فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے" اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔ جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھہ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔ "ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان....." روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔" آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا: "اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔ اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ: "اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔" پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔ اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔ فرماتی ہیں: " آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔" أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں: "پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔" پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔" دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا: "فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔ جس پر میں رو دی۔۔۔۔" جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے: "فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔" جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں: پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا: "عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے: مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔) صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: "میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔" جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے: "یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔" آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا: "جبریل! اسے آنے دو۔۔۔" ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا: "السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟" فرمایا: "مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔" ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: "اے پاکیزہ روح۔۔۔! اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔! الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔! راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!" سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں: پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔ "رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!" مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔ ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔ 





ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔ اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے: "خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔" اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔ کہہ رہے تھے: وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه (ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!) پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا: "یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔" سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا: "جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔" سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔ عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں: پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟" پھر کہنے لگیں: "يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه." (ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہجنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔) اللھم صل علی محمد کما تحب وترضا۔ 

Thursday, October 14, 2021

ڈپریشن کا علاج

 ایک 50 سالہ شریف آدمی ڈپریشن کا شکار تھا اور اس کی بیوی نے ایک ماہر نفسیات سے ملاقات کی۔ بیوی نے کہا: "وہ شدید ڈپریشن میں ہے ، براہ کرم مدد کریں"

  

ڈاکٹر نے اپنی مشاورت شروع کی۔  اس نے کچھ ذاتی باتیں پوچھی اور شریف آدمی کی بیوی کو باہر بیٹھنے کو کہا، صاحب بولے میں بہت پریشان ہوں دراصل میں پریشانیوں سے مغلوب ہوں، ملازمت کا دباؤ بچوں کی تعلیم اور ملازمت کا تناؤ، ہوم لون، کار لون، مجھے کچھ پسند نہیں دنیا مجھے پاگل  سمجھتی ہے لیکن میرے پاس اتنا سامان نہیں جتنا کہ ایک کارتوس میں، بہت اداس اور پریشان ہوں.


یہ کہہ کر اس نے اپنی پوری زندگی کی کتاب  ڈاکٹر کے سامنے کھول دی۔ 


  پھر ڈاکٹر نے کچھ سوچا اور پوچھا، "آپ نے دسویں جماعت کس سکول میں پڑھی، شریف آدمی نے اسے سکول کا نام بتایا۔ ڈاکٹر نے کہا: آپ کو اس اسکول میں جانا ہے۔ اپنے اسکول سے آپ اپنی دسویں کلاس کا رجسٹر تلاش کرنا ہے اور اپنے ساتھیوں کے نام تلاش کرنے ہیں اور ان کی موجودہ خیریت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہیں۔ ایک ڈائری میں تمام معلومات لکھیں اور ایک مہینے کے بعد مجھ سے ملیں۔


 شریف آدمی اپنے اسکول گیا، رجسٹر ڈھونڈنے میں کامیاب رہا، اور اسے کاپی کروایا۔ اس میں 120 نام تھے۔  اس نے ایک مہینے میں دن رات کوشش کی، لیکن وہ بمشکل 75-80 ہم جماعتوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے میں کامیاب رہا۔ 


  حیرت !!!

  ان میں سے 20 مر چکے تھے۔ 7 رنڈوے اور 13 طلاق یافتہ تھے۔ 10 ایسے نکلے جو کہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ 5 اتنے غریب نکلے کہ کوئی ان کا جواب نہ دے سکا۔ 6 اتنے امیر نکلے کہ اسے یقین ہی نہیں آیا۔ کچھ کینسر میں مبتلا تھے، کچھ فالج کا شکار تھے، ذیابیطس ، دمہ یا دل کے مریض تھے، کچھ لوگ بستر پر تھے جن کے ہاتھوں/ٹانگوں یا ریڑھ کی ہڈی میں چوٹیں آئی تھیں۔ کچھ کے بچے پاگل، آوارہ یا بیکار نکلے. ایک جیل میں تھا۔ ایک شخص دو طلاق کے بعد تیسری شادی کی تلاش میں تھا۔ ایک ماہ کے اندر ، دسویں جماعت کا رجسٹر خود قسمت کی اذیت بیان کر رہا تھا۔ 


ڈاکٹر نے پوچھا: "اب بتاؤ تمہارا ڈپریشن کیسا ہے؟"


  شریف آدمی سمجھ گیا کہ اسے کوئی بیماری نہیں تھی، وہ بھوکا نہیں تھا، اس کا دماغ کامل تھا، اسے عدالت \ پولیس \ وکلاء  کا کئی مسئلہ نہ تھا،  اس کی بیوی اور بچے بہت اچھے اور صحت مند تھے، وہ خود بھی صحت مند  تھا *اس آدمی کو احساس ہوا کہ واقعی دنیا میں بہت زیادہ دکھ ہے، اور وہ بہت خوش قسمت ہے کے اُسے تو کوئی تکلیف نہی ہے۔*


  *دوسروں کی پلیٹوں میں جھانکنے کی عادت چھوڑیں، اپنی پلیٹ کا کھانا پیار سے لیں۔ دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ نہ کریں ہر کسی کی اپنی قسمت ہوتی ہے۔*


*اور پھر بھی، اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ڈپریشن میں ہیں، تو آپ کو بھی اپنے سکول جانا چاہیے، دسویں جماعت کا رجسٹر لائیں اور ......*


Tuesday, October 5, 2021

گناہ کی قدرت ہوتے گناہ نہ کرنا

 امام شافعیؒ کے زمانے میں ایک خلیفہ نے اپنی بیوی کو عجیب طریقے سے طلاق دے دی، اور یہ طلاق بعد ازاں فقہ کا بہت بڑا مسئلہ بن گئی۔

بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ہنسی مذاق میں اُس نے ملکہ سے پوچھ لیا کہ، "تمہیں میری شکل کیسی لگتی ہے❓❣️

ملکہ جو بادشاہ کی عزیز ترین بیگم تھیں، وہ مذاق کے موڈ میں بولی، "مجھے آپ شکل سے جہنمی لگتے ہیں"۔

یہ فقرہ سننے کے بعد بادشاہ کو غصہ آ گیا اور بولا، "میں اگر جہنمی ہوں تو تمہیں تین طلاقیں دیتا ہوں۔۔۔،❗

" ملکہ نے یہ سنا تو اُس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ بادشاہ کو بھی کچھ دیر بعد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اگلے دِن بادشاہ سلامت نے ملک کے تمام علماء، مفتی صاحبان اور اماموں کو دربار میں بلا لیا۔ اور اُن سے پوچھا کہ، "کیا اِس طریقے سے میری طلاق ہو چکی ہے❓ ❣️

سب کا باری باری یہی کہنا تھا کہ، "ہاں، آپکی طلاق ہو چکی ہے، اور شریعت کی روشنی سے ملکہ عالیہ اب آپ کی زوجہ نہیں رہیں۔۔۔❗"،

لیکن اِس محفل میں ایک نوجوان مفتی بھی موجود تھے، وہ ایک طرف ہو کر بالکل خاموش بیٹھے رہے۔ بادشاہ نے اُن سے بھی یہی سوال پوچھا تو انہوں نے عرص کیا، "جناب، یہ طلاق نہیں ہوئی، کیونکہ آپ نے مشروط طور پر کہا تھا، کہ اگر میں جہنمی ہوں تو میں تمہیں تین طلاقیں دیتا ہوں، اور ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ آپ جہنمی ہیں کہ نہیں ہیں، آپ کو اگر کوئی شخص جنتی ہونے کی ضمانت دے دے تو آپکی یہ طلاق نہیں ہوگی۔"

بادشاہ سلامت نے جوشیلے انداز میں پوچھا، "لیکن مجھے اِس چیز کی ضمانت کون دے گا۔۔۔❓"

سب علماء کرام نے اِس سوال کے جواب پر اپنے سر جھکا لیے، کہ دنیا میں کون شخص جنتی ہے اور کون جہنمی ہے اِس کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔

نوجوان مفتی نے جب تمام علماء کرام کو خاموش دیکھا تو وہ بادشاہ سلامت سے مخاطب ہوئے، "بادشاہ سلامت❗ میں آپکو یہ گارنٹی دے سکتا ہوں، لیکن اِس کیلئے میں آپ سے ایک سوال پوچھوں گا، اگر آپکا جواب "ہاں" ہوا تو میں آپکو جنتی ہونے کا ضمانت نامہ دے دونگا۔۔❗"۔ بادشاہ نے کہا، "ہاں، پوچھو۔۔۔،❗"

نوجوان مفتی نے پوچھا، "کیا آپکی زندگی میں کبھی کوئی ایسا موقع آیا تھا، کہ آپ گناہ پر قادر تھے، لیکن آپ نے صرف اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے وہ گناہ چھوڑ دیا تھا۔۔۔❓"

بادشاہ نے سر اُٹھایا اور کہا، "ہاں، ایک بار ایسا ہوا تھا، میں اپنی خوابگاہ میں داخل ہوا تھا اور وہاں ایک نوکرانی صفائی کر رہی تھی، وہ لڑکی انتہائی خوبصورت تھی، میں بھٹک گیا، میں نے دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ میں غلط نیت سے اُس لڑکی کی طرف بڑھا تو اُس نے رونا شروع کر دیا، اور وہ چلّا کر بولی،

"اے بادشاہ❗ اللّٰہ سے ڈرو، وہ تم سے زیادہ طاقتور ہے"۔

میں نے جب یہ سنا تو میرے اُوپر اللّٰہ تعالیٰ کا خوف طاری ہو گیا۔ میں اگرچہ بادشاہ تھا، وہ لڑکی میرے کمرے میں تھی، میں نے دروزے کو اندر سے کنڈی لگائی ہوئی تھی، اور اُس وقت دنیا کی کوئی طاقت مجھے بُرائی کرنے سے نہیں روک سکتی تھی۔ لیکن میں نے صرف اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے دروازہ کھول دیا، اور اُس لڑکی کو جانے کی اجازت دے دی۔۔۔❗"


یہ سب سن کر وہ نوجوان مفتی مسکرائے اور اُنہوں نے قرآن پاک کی سورہ النٰزعٰت کی آیت نمبر 40 اور 41 کی تلاوت فرمائی،


"وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ o فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ" 📖🌹⁦❤️⁩

ترجمہ: جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر گیا اور اُس نے اپنے نفس کو خواہشات میں پڑنے سے بچا لیا تو ایسے شخص کا ٹھکانہ جنت ہوگا"

اِس کے بعد نوجوان نے بادشاہ سلامت سے کہا، "میں آپکو  ضمانت دیتا ہوں کہ آپ جنتی بھی ہیں، اور آپکی طلاق بھی نہیں ہوئی

Sunday, September 26, 2021

ہمیں ہر کام ریڈی میڈ چاہیے


جس طرح گھریلو کھانوں کی جگہ فاسٹ فوڈز نے لے رکھی ہے اسی طرح عبادات اور تلاوت کلام پاک کی جگہ مختصر آرام دہ وظائف نے لے رکھی ہے ۔ 

ہمارے بچے کہنا نہیں مانتے ۔۔۔

کاروبار میں برکت نہیں ہے ۔۔۔

گھر میں جو پیسہ آتا ہے سمجھ نہیں آتی کہاں جاتا ہے

اولاد ضدی ہو گئ ہے

گھر میں آئے روز کوئی نا کوئی بیمار ہو رہا ہے۔۔

کوئی نا کوئی پریشانی آجاتی ہے ۔۔

جس کام میں ہاتھ ڈالو وہیں رکاوٹ ۔۔۔

کام بنتے بنتے رہ جاتے ہیں ۔۔۔

ناجانے بیسیوں مسائل ہر گھر میں موجود ہیں ۔۔ 

اور ان کے اسباب بھی ہمارے آس پاس ہی ہیں لیکن ہم انہیں سیریس نہیں لیتے یا پھر انہیں اسباب ہی نہیں سمجھتے ۔ 

مثال کے طور پر بنکوں سے قرضے لینا ۔

اوپر ( رشوت ) کی کمائی کھانا

ایک دوسرے کی ترقی دیکھ کر حسد اور دعا دئے بغیر جھوٹی تعریف کرنا ( نظر لگنے کا سبب )

نماز نا پڑھنے کی نحوست ہمارے گھروں میں ہمارے کاروبار میں ۔۔۔

ہفتوں قرآن نا کھولنا۔۔۔

یہ سارے اسباب ہیں ان پریشانیوں کے جو آئی روز ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں ۔۔ 

لیکن اس میں بھی ہمیں ریڈی میڈ وظیفہ چاہئے جس کا تعلق نا نماز سے ہو، نا سود سے روک تھام ہو، نا رشوت کی ممانعت سے لیس ہو ، نا ہی قرآن کھولنا پڑھے بس کوئی آسان سا وظیفہ مل جائے تو چار چاند لگ جائیں ۔ 

ایک دفعہ کسی صاحب کا فون آیا اور گھریلو مسائل بتا کر کہنے لگے کوئی وظیفہ بتائیں ۔ عرض کی میں کوئی پیر، عامل یا شیخ تو ہوں نہیں ہاں البتہ کہیں پڑھا تھا کہ سورہ بقرہ اول تا آخر اہتمام سے پڑھی جائے اور پھر دعا کی جائے تو اللہ کے حکم سے خیر ہوتی ہے ۔

وہ صاحب شاید دل ہی دل میں سورہ کوثر کیلئے کمر باند رہے تھے ، سورہ بقرہ کا نام سن کر گھبرا گئے اور کہا ان شاءاللہ میں پڑھوں گا ۔

دو دن بعد پھر کال آئی " کیا سورہ بقرہ ایک ہی دن پڑھنی ہے ؟

کیا ایک ہی آدمی نے پڑھی یا گھر کے سارے افراد پڑھ سکتے ہیں ؟

کیا صحن میں بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں ؟

اچھا یہ بتائیں اگر درمیان میں باتیں کر لیں تو کیا دوبارہ شروع سےپڑھنی پڑھے گی ؟؟( اس جیسے کئ توہمات)

عرض کیا جیسے بھی پڑھیں بس اللہ کا نام لیکر پڑھ لیں ایک بار مکمل ۔۔ 

پھر کچھ دن بعد کال آئی اور پھر سے سوالات ۔ مگر سورہ بقرہ وہیں کی وہیں کھڑی تھی ۔ 

( انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا ابھی تک ایک رکوع پڑھنے کی ہمت نا ہو سکی !! )

اور وہی ہوا جسکا ڈر تھا ۔ آخر میں فرمانے لگے " جناب اگر ممکن ہو تو آپ پڑھ دیں گے ہماری طرف سے ؟

گویا ریڈی میڈ موصوف پڑھوانا چاہ رہے تھے وہ بھی ہوم ڈلیوری 

مستنصر حسین تارڑ

کیرئیر سے متعلق معلومات

10 ویب سائٹس جو نوکری ڈھونڈنے کے لئے استعمال کی جا سکتی ہیں: 

1. Linkedin. com

2. Indeed. com

3. Naukri

4. Monster

5. JobBait

6. Careercloud

7. Dice

8. CareerBuilder

9. Rozee. pk

10. Glassdoor


10 skills جو آجکل کے دور میں ڈیمانڈ میں ہیں


1. Machine Learning

2. Mobile Development

3. SEO/SEM Marketing

4. Web development

5. Data Engineering

6. UI/UX Design

7. Cyber-security

8. Graphic designing

9. Blockchain

10. Digital marketing


11 ویب سائٹس جہاں آپ آن لائن تعلیم حاصل کر سکتے ہیں: 


1. Coursera

2. edX

3. Khan Academy

4. Udemy

5. iTunesU Free Courses

6. MIT OpenCourseWare

7. Stanford Online

8. Codecademy

9. ict it

10 ict iitk

11 NPTEL


10 ویب سائٹس جہاں آپ Excel فری سیکھ سکتے ہیں:


1. Microsoft Excel Help Center

2. Excel Exposure

3. Chandoo

4. Excel Central

5. Contextures

6. Excel Hero b.

7. Mr. Excel

8. Improve Your Excel

9. Excel Easy

10. Excel Jet


10 ویب سائٹس جہاں آپ اپنی CV مفت ریویو کروا سکتے ہیں:


1. Zety Resume Builder

2. Resumonk

3. Resume dot com

4. VisualCV

5. Cvmaker

6. ResumUP

7. Resume Genius

8. Resume builder

9. Resume Baking

10. Enhance


10 ویب سائٹس جہاں آپ انٹرویوز کی تیاری کر سکتے ہیں:


1. Ambitionbox

2. AceThelnterview

3. Geeksforgeeks

4. Leetcode

5. Gain

6. Careercup

7. Codercareer

8. interview

9. InterviewBest

10. Indiabix


5 ویب سائٹس جہاں آپ فری لانسنگ کی جاب کر سکتے ہیں:


1. Fiverr. com

2. Upwork. con

3. Guru. com

4. worksheet com

5. Freelancer . com


فری گرافک ڈیزائننگ کی ویب سائٹ:

1. Canva. com


خود نوشت۔۔ عجیب داستان کا ایک باب

 میری زندگی میں جن شخصیات نے بہت اہم کردار اداکیا ہےــ- میرے دوست میرے بھائی اور بانکے سجیلے شاعر سید محسن نقوی شہید اِن میں سرفہرست ہیں۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ان کے ساتھ بیس برس کی رفاقت کو کسی ایک مضمون میں سمیٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ان سے پہلے ملاقات 1973 میں مری کے انٹرنیشنل مشاعرے میں ہوئی جس میں بیرونِ ملک سے بھی کافی شعراء آئے ہوئے تھے۔ یہ مشاعرہ مری انتظامیہ نے ترتیب دیا تھا اور بصیر قریشی ایڈوکیٹ نے جو بعدازاں بڑے اہم عہدوں پر رہے اس کا اہتمام کیا تھا۔ میں ان دنوں لطیف کاشمیری کی لائبریری میں ہونے والے مری لٹریری سرکل کے مشاعروں میں بہت فعال تھا اور جدید طرز کی غزلیں لکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ خیر اس مشاعرے میں اپنی غزل پڑھ کر میں واپس آ رہا تھا کہ محسن نے ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ مشاعرے کے بعد ان کے ہوٹل کے کمرے میں چلے گئے اور تفصیلی تعارف ہوا۔ وہ ڈیرہ غازی خان کے رہنے والے تھے اور شاعری کے علاوہ ذاکری بھی کرتے تھے۔ بطور ذاکر ان کی بہت مانگ تھی۔ اس کے علاوہ وہ ایک بڑے صنعت کار بھی تھے۔ ان کی کاٹن جننگ فیکٹریاں تھیں۔

پھر ایک طویل وقفے کے بعد جب اگست 1976 میں لاہور آگیا تو ان سے ملنے ان کی رہائش نجف ریزہ 192 نشتر بلاک پہنچا۔ یہاں سے ایسا رشتہ ان سے استوار ہوا جو ان کی شہادت تک قائم رہا اور آج تک ہے۔

یادوں کا ایک سیلِ رواں ہے جو محسن نقوی کا نام لیتے ہی ذہن میں اُمڈ آتا ہے۔ 1977 میں ماورا کا دفتر میں 3 بہاولپور روڈ پر قائم کرچکا تھا۔ اہم شعراء کی کتب شائع ہو رہی تھیں کیا دفتر انکم ٹیکس کیا دفتر ماورا میں یہی کام کرتا تھا۔ ایسے میں محسن نقوی نے مجھے اپنے دوسرے شعری مجموعے برگِ صحرا کی اشاعت کا چیلنج دے دیا۔ چیلنج کا لفظ ہر مسودے کے ساتھ ان کا مخصوص لفظ تھا۔ خالد تمہیں چیلنج ہے یہ کتاب پہلے سے بہتر ہونی چاہیے۔ برگِ صحرا سے پہلے ان کا ایک شعری مجموعہ بندقبا کے نام سے ملتان سے شائع ہوچکا تھا مگر وہ اس کے معیارِ اشاعت سے مطمئن نہیں تھے۔

راولپنڈی میں ہماری کتابیں جنگ پریس گوال منڈی اور خورشید پرنٹرز اسلام آباد سے چھپتی تھیں۔ لاہور آیا تو غالباً سلطان رشک نے مجھے محمد طفیل نقوش صاحب سے متعارف کرا دیا اور میں نے ان سے کتابیں چھپوانا شروع کردیں۔ وہ اس نوعیت کا کام بہت کم کرتے تھے کیونکہ ان کے پاس پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اور رسالہ نقوش کے خاص و عام نمبروں کی اشاعت کا کافی رش ہوتا تھا۔ بہرحال مجھ پر محمد طفیل خصوصی شفقت فرماتے تھے سو برگِ صحرا کو نقوش پریس سے چھپوانے کا فیصلہ ہوا۔ کتابت کے لئے محمد حسین (شاہ) صاحب کا انتخاب ہوا۔ محمد حسین صاحب کو (شاہ) کا نام قاسمی صاحب نے ازراہ محبت دے رکھا تھا اور وہ اسے کتابوں کی پرنٹ لائن میں اسی طرح لکھتے تھے۔ محمد طفیل اور قاسمی صاحب کی تربیت کے باعث شاعری کی کتابت میں محمد حسین (شاہ) حرفِ آخر بن چکے تھے۔ فنون وہ کتابت کرتے تھے۔ پروین شاکر کی خوشبو احمد فراز کی درد آشوب کے پہلے ایڈیشن ان کے کتابت کردہ ہیں۔

برگِ صحرا کے سرورق کے لئے موجد صاحب سے رابطہ کیا گیا۔ میری خواہش تھی کہ کتاب کے اندرونی صفحات پر بھی کوئی ہلکا پھلکا ڈیزائن ہو۔ اسلم کمال سے بات ہوئی تو اس نے تین پتّوں پر مشتمل ایک ڈیزائن بنا دیا۔ دو پتّے سبز اور ایک زرد۔ یہ برگِ صحرا تھا۔

بشیر موجد صاحب نے بھی بہت خوبصورت سرورق بنایا۔ گراؤنڈ کا رنگ زرد تھا۔ اسے ہم نے ایمبوسڈ ایگ شیل 100 گرام آرٹ پیپر پر موجد صاحب کے پریس سے ہی چھپوایا۔ زردرنگ اور دانے دار کاغذ کی وجہ سے لگتا تھا کہ ریت بکھری ہوئی ہے۔ لیکن ابھی جلد سازی کا مرحلہ طے نہیں ہوا تھا۔ محسن اس کی بہت سپیشل جلد چاہتے تھے اور میں بھی۔ روٹین کے جلد ساز بہت تھے مگر ہم روٹین سے ہٹ کر کام کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں کسی نے ایک استاد جلد ساز کا نام بتایا لیکن ساتھ ہی کہا کہ وہ بڑے نخریلے بزرگ ہیں۔ صرف قرآن پاک کی جلد کرتے ہیں لیکن ان کا کام ایسا ہے کہ بندہ دیکھتا رہ جائے۔ میں نے نام اور پتہ لے لیا۔

اگلے روز انکم ٹیکس کا نوٹس ان کی دکان پر پہنچ گیا۔ وہ بزرگ ہانپتے کانپتے آئے۔ میں نے اندر بلا کر بٹھایا تسلّی دی۔ کہا نوٹس ہم واپس لے لیں گے۔ آپ یہ چھوٹا سا کام کر دیجئے۔ رقم آپ کو آپ کے حسبِ منشا ملے گی۔ انہوں نے حامی بھرلی اور واقعی برگِ صحرا کو تصویر بنا دیا۔

اس طرح کی کتابیں شاذ و نادر ہی چھپتی ہیں۔ اس کتاب کو نیشنل بک کونسل آف پاکستان نے سال رواں کی بہترین شائع شدہ کتاب کا ایوارڈ اور نقد انعام دیا۔ اس کے بعد محسن نقوی کی کتب مناسب وقفوں کے ساتھ شائع ہوتی رہیں۔

٭       ریزۂ حرف         1985

٭       عذابِ دید         1990

٭       طلوعِ اشک         1992

٭       رختِ شب         1994

٭       ردائے خواب         (مع غیرمطبوعہ قطعات)

٭       فراتِ فکر

ان کے ایک دوست رانا ریاض احمد بہت محبت سے منفرد انداز کے سرورق بناتے تھے۔ ہم نشتر بلاک ان کے گھر محافل میں شریک ہوتے۔ وہ ہمارے گھر کے فرد بن چکے تھے۔

جب ماورا کا دفتر مال روڈ پر منتقل ہوا تو اکثر ان کی شامیں ماورا پر گزرتیں۔ پانچ چھ بجے آجاتے اور ہم آٹھ نو بجے دفتر اور دکان بند کرنے کے بعد پی سی ہوٹل کی طرف نکلتے۔ وہاں سے واپسی کے راستے میں لبرٹی سے ہلکے چونے والے پان لئے جاتے پھر مجھے رچنا بلاک ڈراپ کرتے ہوئے وہ گھر چلے جاتے۔ میری بیوی کو دیوی بھابی کہتے۔ ایک بار عدنان نے چھ سال کی عمر میں انہیں کوئی ٹوٹا پھوٹا شعر سنایا تو کہنے لگے یار تم ہماری روزی پر کیوں لات مار رہے ہو۔

اکثر لوگوں کا تاثر یہ ہے کہ محسن نقوی بہت شراب پیتے تھے۔ شاید یہ تاثر ان کی مخمور آنکھوں کی وجہ سے قائم ہوا ہو۔ میں چونکہ ان کے بہت قریب رہا ہوں اس لئے پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ شراب نہیں پیتے تھے۔ میں نے کبھی ان کے گھر میں ام الخبائث کو نہیں دیکھا۔ البتہ بطور ذاکر اور شاعر ان کے عقیدت مندوں میں خواتین کی کثیر تعداد شامل تھی جن میں فلم کی کئی معروف اداکارائیں بھی تھیں۔

اکثر نئی کتاب شائع ہوتی تو اس کی پہلی رونمائی شوکت حسین رضوی کے گھر کرتے۔ ان کی بیگم زینت اہتمام کرتیں۔ قتیل صاحب کے ہاں بھی اکثر ہم اکٹھے جاتے۔ ہماری دوستی کے درمیان کبھی مسلک آڑے نہیں آیا۔ گیارہ محرم کی نیاز میں جب سینکڑوں ذاکر ان کے ہاں جمع ہوتے مجھے ہاتھ پکڑ کر اندر لے جاتے اور کہتے ’’ایہہ میرا سکّا بھرا اے‘‘ کبھی رائلٹی کا تقاضہ نہیں کیا۔ میں جو نذر کردیتا خاموشی سے رکھ لیتے اور دوستوں پر ہی خرچ کردیتے۔ ایک بار ڈیرہ غازی خان کے پتے پر چیک بھیجا تو جواباً خط آیا۔ خالد تمہارا بھیجا ہوا چیک والدہ کی خدمت میں پیش کردیا ہے۔ وہ تمہیں نماز پڑھ کر دعا دے رہی ہیں۔

ان کی کتاب طلوع اشک کے آخر میں ان کی نظم ’’خالد شریف کے لیے ایک ادھوری نظم‘‘ میری زندگی کا سرمایہ اور ان کی قادرالکلامی کا ثبوت ہے۔ ان کی ایک کتاب کی رونمائی کے لئے بے نظیر بھٹو بطور خاص تشریف لائیں اور کسی بھی کام کا پوچھا۔ انہوں نے بس شکریہ ادا کردیا۔

انہوں نے مون مارکیٹ میں کِساانٹرپرائز کے نام سے دفتر بنا لیا تھا۔ وہاں اکثر دوستوں کی محفل جمتی تھی۔ ایک روز میں گیا تو فون بار بار بجتا رہا اور وہ اٹھانا نہیں چاہ رہے تھے۔ کافی دیر کے بعد بالآخر اٹھا لیا اور کہا آپ فکر نہ کریں یہ کام میرے بس کا نہیں۔ آپ ہی وہاں رہیں گے۔ میں نہیں آ رہا۔ اطمینان رکھیں۔

میں نے کہا محسن بھائی یہ کیا ماجرا ہے۔ بولے اسلام آباد سے اکادمی ادبیات کے فلاں صاحب بار بار فون کررہے تھے۔ انہیں کسی نے خبر دی کہ مجھے چیرمین لگا دیا گیا ہے۔ تم جانتے ہو میں بھلا 9 سے 5 کی ڈیوٹی کبھی کرسکتا ہوں؟ فاروق لغاری ان کے دوست تھے اور ایسی کوئی بھی پوزیشن حاصل کرنا ان کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا لیکن وہ اس مٹی کے بنے ہوئے ہی نہیں تھے۔

ایک بار میری بیگم کسی بات پر رنجیدہ ہوکر میکے چلی گئیں۔ انہیں علم ہوا تو کہا غلطی تمہاری ہے۔ اگلے روز ایک اسٹامپ پیپر لے آئے۔ کہا کہ گھر بھابی کے نام گفٹ لکھ دو۔ ان کی سیکورٹی ضروری ہے ہماری تو حرکتیں ایسی ہی رہیں گی۔ یہ کاغذ آج تک ہمارے پاس محفوظ ہے جس پر محسن بھائی کے بطور گواہ دستخط ہیں۔

1976 سے 15 جنوری 1996 اتنی یادیں اور واقعات ہیں جو ایک کتاب کے متقاضی ہیں محسن پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم جب ان کے گھر ڈیرہ غازی خان پہنچتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے۔ انکل خالد شریف سے ملو۔ انہیں سب پتہ ہے۔

محسن کسی ادبی گروپ سے منسلک نہیں رہے۔ انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ندیم صاحب اور آغا صاحب دونوں سے احترام سے ملتے۔ محسن خود محفل اور جانِ محفل تھے۔ ان کی لابی ان کی اپنی ذات تھی مشاعرے کبھی ان کا مسئلہ نہیں رہے۔ ذاکری میں انہوں نے نئی طرح ڈالی تھی۔ نظم کے انداز میں مجلس پڑھتے تھے اپنے وقت کے مہنگے ترین ذاکرین میں سے تھے۔ ان کے سیکرٹری کی ڈائری بھری رہتی تھی۔ ہمیشہ اچھی گاڑی رکھتے۔ معیارِ زندگی پر انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

میں کوئی نقاد نہیں ہوں نہ ہی یہ مضمون ان کی شاعرانہ عظمت کے احاطے کے لئے لکھا گیا ہے۔ یہ تو محض ایک محبت آمیز ذاتی تاثر ہے۔ لیکن شاعری کے قاری کے طور پر میں اپنی ایک رائے رکھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے ہم عصر شاعروں کی نسبت محسن کا ڈکشن اور ان کی شاعری کا مواد بہت مضبوط ہے۔ ہزار سال بعد جب تقابل کیا جائے گا تو ان کے اکثر معاصر شعراء کا کوئی نام بھی نہ جانتا ہوگا جبکہ محسن کا کلام اُس وقت بھی زندہ ہوگا۔

محسن کی شہادت سے ایک ہفتہ پہلے میری بیگم بچوں کے بال ترشوانے مون مارکیٹ گئی ہوئی تھیں۔ محسن گارڈ کے ہمراہ سامنے سے گزرے اور باربر کو اشارہ کردیا۔ اب محترمہ اصرار کررہی ہیں اور باربر نے اجرت لینے سے انکار کردیا کہ شاہ صاحب کا حکم ہے۔ اکثر اپنے گھر جاتے جاتے ڈرائی فروٹ کا لفافہ ہمارے گیٹ پر چوکیدار کو پکڑا جاتے۔

ہمارے بھتیجے اسد عباس اور عقیل عباس دونوں سعادت مند اور والد کی تصویر ہیں۔ عقیل عباس بہت اچھا شاعر ہے اور اس کا شعری مجموعہ ’’تعلق‘‘ بھی ماورا سے شائع ہوچکا ہے۔ والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وہ بہترین اور کامیاب ذاکر بن چکا ہے۔ اسد عباس  ڈیرہ غازی خان میں کاروباری معاملات دیکھتا ہے جبکہ ان کے ماموں سید ظفر عباس نقوی ایک بہترین شخصیت کے مالک ان کے سرپرست ہیں۔

اپنی شہادت سے پہلے کراچی سے پشاور تک محسن اپنے شاگردوں اور مداحوں کی شکل میں اور شاعری کی ایسی پنیری لگا گئے جس پر رہتی دنیا تک برگ و بار آتے رہیں گے۔ ہر دوسرے دن مجھے کسی دور دراز جگہ سے فون آتا ہے اور کوئی مجھے بتاتا ہے کہ محسن صاحب خط و کتابت کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور وہ صرف ان کی ذات کی مہربانیوں کے سبب لکھ رہا ہے۔

محسن کے اشعار زبان زد عام ہیں۔ مثال کے طور پر رقم کئے جاتے ہیں۔ غلام علی کی آواز میں گائی ہوئی ان کی غزل ’’یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی۔‘‘ جتنی بار سنو نیا لطف دیتی ہے۔

محسن کی نثر اپنے اندر طلسماتی حسن اور تاثیر رکھتی ہے۔ ان کی کتابوں کے پیش لفظ ایک الگ جہان میں لے جاتے ہیں۔ دوستوں کو لکھے گئے خطوط میں بھی ان کا اپنا ہی رنگ ہے۔

میری کتاب ’’نارسائی‘‘ کی اشاعت میں بہت تاخیر ہوگئی کہ میں دوسرے شعراء کی کتابیں شائع کرتے ہوئے اسے ہمیشہ پسِ پشت ڈال دیتا تھا۔ انہوں نے اصرار کرکے اسے جلد چھپوایا اور اس کا بہترین دیباچہ اپنے مخصوص انداز میں لکھ کر ’’نارسائی‘‘ کو امر کردیا۔ وہ کوئی عام شخصیت نہیں تھے ایسے شاعر اور ایسے انسان صدیوں میں نصیب ہوتے ہیں۔

15 جنوری 1996 کی منحوس دوپہر وہ اپنے دفتر سے نکل کر کچھ دیر سن فوٹوز پر ٹھہرے سن فوٹوز کے مالک حسن شاہ بڑی محبت سے ان کی تصاویر بناتے تھے۔ وہاں سے محسن مون مارکیٹ کی مسجد کے رخ پر پیدل جا رہے تھے کہ دو موٹرسائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کردی۔ درجنوں گولیوں میں سے ایک گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔ حسن رضوی نے روتے ہوئے مجھے فون کیا۔ انہیں میوہسپتال لے جایا گیا تھا۔ ہم صرف ان کی میّت ہی لاسکے۔ 192 نشتر بلاک میں سوگواروں کا ہجوم تھا۔ اگلے روز انہیں ڈیرہ غازہ خان لے جایا گیا جہاں ان کے جنازے اور تدفین میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔

وہ کم بخت موٹرسائیکل سوار پکڑے گئے۔ دہشت گردی کی دفعات لگیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ تمہاری کیا دشمنی تھی کہ ایسے قیمتی آدمی کو مار دیا۔ جواب آیا ہم تو ایک دو روز پہلے چہرہ شناسی کے لیے ان کے دفتر گئے تھے۔ انہوں نے چائے پلائی اور محبت آمیز باتیں کیں۔ ہم نے ہائی کمان سے کہا وہ تو بے ضرر آدمی ہے۔ آرڈر آیا اُسے مار دو ورنہ خود مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ ہمیں کرنا پڑا۔ پانچ پانچ ہزار ہم دونوں کو ملے۔

محسن کی شہادت کے بعد عقیل عباس نے ان کا غیر مطبوعہ کلام مہیّا کیا جسے میں نے خیمۂ جاں کے نام سے شائع کردیا۔ اسی طرح ان کا مذہبی کلام جو غیرمطبوعہ تھا حق ایلیا کے نام سے شائع کیا۔ یہ دونوں نام میں نے رکھّے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ دونوں نام محسن خود رکھ گئے تھے۔ بعدازاں تینوں مذہبی شاعری کے مجموعوں کی کلیات میراثِ محسن کے نام سے شائع کی اور آخر میں رومانی شاعری کی آٹھ کتابوں پر مشتمل کلیات، کلیاتِ محسن نقوی کے نام سے شائع ہوئی۔

میں حلقہ جاتی تنقیدی نشستوں میں کبھی نہیں گیا۔ حتّٰی کہ صدارت کے لئے بھی بارہا انکار کردیا۔ بھائی حسین مجروح اس بات پر ناراض بھی ہوئے۔ دراصل میں ایسی محفلوں میں بول ہی نہیں سکتا۔ لیکن محسن نقوی ایسا موضوع ہے جس پر میں بغیر تیاری کے کہیں بھی بول سکتا ہوں۔ متعدد ٹی وی پروگرامز میں مجھے محسن نقوی پر بولنے کے لئے بلایا گیا۔ ہمیشہ وقت کی کمی کا احساس ہوا۔

ان کے دورِ حیات میں کئی ناشرین نے اُن سے رابطہ کیا اور لاکھوں روپے کی آفر دی۔ انہوں نے کبھی کسی کو منہ نہ لگایا۔ شہادت کے بعد عقیل عباس کو بھی ایسی ہی آفرز دی گئیں۔ وہ بھی اسی باپ کا بیٹا ہے۔ شاعری کی کتابوں کا دور اب گزر چکا ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ نے سارا منظر ہی تبدیل کردیا ہے لیکن محسن کا کلام، ان کی کتابیں اور ان کی شاعری اب بھی زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ

اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

___

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے

تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

___

خوشبو کی سرد لہر سے جلنے لگے جو زخم

پھولوں کو اپنا بندِقبا کھولنا پڑا

___

سفر تنہا نہیں کرتے

سنو ایسا نہیں کرتے

___

ٹھہر جاؤ کہ حیرانی تو جائے

تمہاری شکل پہچانی تو جائے

___

عجب نصیب تھا محسن کہ بعدِ مرگ مجھے

چراغ بن کے خود اپنی لحد پہ جلنا تھا

 

 

 

سفر جاری رکھو اپنا

(خالد شریف کے لیے ایک ادھوری نظم)

یہ شیشے کے غلافوں میں دھڑکتی، سوچتی آنکھیں

نجانے کتنے پر اسرار دریائوں کی گہرائی میں

                  بکھرے موتیوں کی آب سے نم ہیں

پہاڑوںسے اُترتی کہر میں لپٹا ہوا

                           یہ سانولا چہرہ!

نجانے کتنی کجلائی ہوئی صبحوں کے سینے میں

                           مچلتی خواہشوں کا آئینہ بن کر

                                             دمکتا ہے!

یہ چہرہ، کرب کے موسم کی بجھتی دوپہر میں بھی

                                             چمکتا ہے!!

یہ لب یہ تشنگی کی موج میں بھیگے ہوئے

                                    ’’مرجاں‘‘

شعاعِ حرف جن سے پھوٹتی ہے سرخرو ہو کر!

یہ لب جب شعلۂ آواز کی حدت میں تپ کر مسکراتے ہیں

                           تو نادیدہ سرابوں کی جبیں پر

                           بے طلب کتنے ستارے جھلملاتے ہیں

یہ لب جب مسکراتے ہیں

                  تو پل بھر کو سکوتِ گنبدِ احساس

                           خود سے گونج اُٹھتا ہے!!

یہ پیکر!

یہ حوادث کے مقابل بھی کشیدہ قامت و خوش پیرہن، پیکر

                  کہ جیسے بارشوں کے رنگ برساتی ہوئی رُت میں

                  خرامِ اَبر پر قوسِ قزح نے

                           اپنی انگڑائی چھڑک دی ہو!

کوئی آواز!

                  جب تنہا مسافت میں مرے ہمراہ چلتی ہے

کوئی پرچھائیں

جب میری بجھی آنکھوں میں چبھتے اَشک چنتی ہے

تو لمحہ بھر کو رُک کر سوچتا ہوں میں

کہ اس تنہا مسافت میں

کسی صحرا میں سائے بانٹتے اشجار کی خوشبو ہے

                                             یا تم ہو؟

یہ تم ہو یا تمنا کے سفر میں

                  حوصلوں کا استعارہ ہے؟

یہ تم ہو یا طلب کی رہگذر میں

                  گم ستارہ ہے؟

ہوا تم سے اُلجھتی ہے

                  کہ تم اپنی ہتھیلی پر مشقت کا ’’دِیا‘‘ بجھنے نہیں دیتے!

حریفانِ قلم… نالاں

                  کہ تم اُن کی کسی سازش پہ کیوں برہم نہیں ہوتے؟

ادب کے تاجرانِ حرص پیشہ سر بہ زانو ہیں

                           کہ تم اہلِ ہنر کے ریزہ ریزہ خواب

                           اپنی جاگتی پلکوںسے چن کر

                           سانس کے ریشم میں

                           کیوں اِتنی مشقت سے پروتے ہو

مگر جاناں، تمہیں کیا؟

                  تم سفر جاری رکھو اپنا،

سفر میں سنگباری سے لہو ہونا

جگر کے زخم سے رِستے لہو سے آبلے دھونا

                  اَزل سے ہم غریبانِ سفر کی اِک روایت ہے!

تمہیں کیا تم سفر جاری رکھو اپنا!

                  تمہاری آبلہ پائی کا عنواں ’’نارسائی‘‘ ہے

تمہیں آتا ہے

                  دُشمن کے لیے وقفِ دُعا رہنا

اندھیروں سے اُلجھنا سنگباری کی رُتوں میں ’’بے قبا‘‘ رہنا

تمہیں آتا ہے یوں بھی زخم کھا کر مسکرا دینا

                  تمہیں آتا ہے

                  گردِ روز و شب سے ’’ماوراء‘‘ رہنا


پارلیمنٹ کی سپرمیسی اور ادارے۔۔۔؟

 اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی  کے بیان  کہ"  عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ سمیت تمام ستون گر چکے ہیں ،عدلیہ کا ستون ہ...